• KHI: Fajr 5:52am Sunrise 7:13am
  • LHR: Fajr 5:32am Sunrise 6:59am
  • ISB: Fajr 5:40am Sunrise 7:09am
  • KHI: Fajr 5:52am Sunrise 7:13am
  • LHR: Fajr 5:32am Sunrise 6:59am
  • ISB: Fajr 5:40am Sunrise 7:09am

لوگ پوچھتے ہیں تم تو مر گئی تھیں، زندہ کیسے ہوئیں؟ ٹی وی میزبان اِرضیٰ خان

شائع September 7, 2022 اپ ڈیٹ September 8, 2022
لوگوں نے میری  ویڈیو پر بہت غلط ویڈیوز بنائیں، اینکر—فوٹو: انسٹاگرام
لوگوں نے میری ویڈیو پر بہت غلط ویڈیوز بنائیں، اینکر—فوٹو: انسٹاگرام

سابق نیوز اینکر، رپورٹر و صحافی ارضیٰ خان نے انکشاف کیا ہے کہ 2016 میں کرین سے گرنے کے بعد ان کی موت کی خبریں چلائی گئیں اور بعد میں جب لوگوں نے انہیں زندہ دیکھا تو وہ حیران رہ گئے اور ان سے پوچھتے رہتے کہ وہ تو مرگئی تھیں، پھر زندہ کیسے ہوئیں؟

ارضیٰ خان نے اپنے یوٹیوب پر ایک مختصر ویڈیو جاری کی، جس میں انہوں نے تین ستمبر 2016 کو اپنے ساتھ پیش آئے واقعے پر پہلی بار کھل کر بات کی۔

انہوں نے بتایا کہ وہ اس دن پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے لاہور کے رنگ روڈ پر ہونے والے جلسے کی کوریج کے لیے گئی تھیں کہ اچانک کرین سے گر گئیں، جس کے بعد وہ بے ہوش ہوگئیں۔

انہوں نے بتایا کہ وہ تقریبا 20 فٹ کی اونچائی پر کرین پر چڑھ کر رپورٹنگ کر رہی تھیں مگر انہیں پہلے ہی محسوس ہوگیا تھا کہ وہ گرنے والی ہیں لیکن بے بسی کی وجہ سے وہ رپورٹنگ کرتی رہیں اور پھر اچانک گر گئیں۔

ان کے مطابق اس دن سے ایک دن قبل ہی ان کی طبیعت خراب ہوگئی تھی اور انہیں فوڈ پوائزننگ ہوگیا تھا، ڈاکٹرز نے انہیں دوائی دے کر آرام کرنے کا مشورہ دیا تھا مگر وہ اگلے روز ہی رپورٹنگ کےلیے پی ٹی آئی کے جلسے پہنچ گئیں۔

ارضیٰ خان کا کہنا تھا کہ ان کے ہمراہ طارق متین بھی تھے، جنہیں انہوں نے بتایا تھا کہ وہ گر جائیں گی مگر ان کے میزبان نے ان کی بات کو مذاق سمجھا اور انہیں کام جاری رکھنے کا کہا۔

اینکر و رپورٹر نے بتایا اتنی بڑی اونچائی سے گرنے کے بعد انہیں لگا کہ ان کی ریڑھ کی ہڈی ٹوٹ چکی ہے اور اب وہ کبھی بھی چل نہیں پائیں گی، وہ کئی گھنٹے تک بے حال تھیں، انہیں اپنے ہاتھ اور پاؤں کا اپنے جسم کے ساتھ جڑے رہنے کا احساس تک نہیں ہو پا رہا تھا۔

اِرضیٰ خان لائیو رپورٹنگ کے دوران گر گئی تھیں—اسکرین شاٹ
اِرضیٰ خان لائیو رپورٹنگ کے دوران گر گئی تھیں—اسکرین شاٹ

ان کے مطابق لیکن جب ڈاکٹرز نے انہیں چیک کیا اور طبی امداد دی تو ڈاکٹرز سمیت وہ بھی حیران رہ گئیں کہ انہیں ایک چوٹ تک نہیں رسی، جس کے بعد انہوں نے خدا کے بے تحاشہ شکرانے ادا کیے۔

انہوں نے اس بات کا شکوہ کیا کہ وہ اتنے بڑے حادثے سے گزریں مگر اس باوجود کیمرامین ان کی ریکارڈنگ کرنے میں پورے تھے جب کہ رپورٹر ان سے خراب حالت میں بھی سوالات کیے جا رہے تھے۔

ارضیٰ خان کا کہنا تھا کہ مذکورہ ویڈیو وائرل ہونے کے بعد ان کے موت کی خبریں تک پھیلائی گئیں اور ابھی تک ان کی موت سمیت ان کی بیماریوں کی خبریں پھیلائی جاتی ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ بعض لوگ ان کی اسی ویڈیو پر ویڈیو بنا کر دعویٰ کرتے ہیں کہ ارضیٰ خان کو مرگی کے دورے پڑتے ہیں جب کہ بعض لوگ ان کے مرجانے کے دعوے بھی کرتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ان کی موت کی ویڈیو اور خبریں سننے والے افراد نے جب انہیں دیکھا تو وہ حیران رہ گئے اور انہیں کہا کہ وہ تو مرگئیں تھیں پھر زندہ کیسے ہوئیں؟

انہوں نے پاکستانی میڈیا انڈسٹری کے افراد کا شکوہ بھی کیا اور کہا کہ سب لوگ انہیں اچھی طرح جانتے تھے لیکن اس باوجود کسی نے تفتیشی اور تصدیقی رپورٹ نہیں چلائی جب کہ بھارتی میڈیا نے ان کے حوالے سے 15 منٹس تک کی تفتیشی ڈاکیومینٹریز چلائیں اور ان سے بات بھی کی۔

ارضیٰ خان نے بتایا کہ 2016 کے واقعے سے متعلق وضاحت کرنے کا مقصد یہ ہے کہ لوگ اب ان کی پرانی ویڈیو پر مزید غلط ویڈیوز نہ بنائیں اور لوگوں کو گمراہ کرنے کے علاوہ انہیں بھی ذہنی تکلیف نہ دیں۔

کارٹون

کارٹون : 22 دسمبر 2024
کارٹون : 21 دسمبر 2024