• KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm
  • KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm

بارشوں اور سیلاب کے باوجود ڈی ایچ اے میں پانی کی شدید قلت

شائع September 7, 2022
ترجمان سی بی سی نے بتایا کہ پانی کی طلب 16 سے 17 ایم جی ڈی ہے جبکہ فراہمی صرف 3 سے 4 ایم جی ڈی ہے—فائل فوٹو : ڈان
ترجمان سی بی سی نے بتایا کہ پانی کی طلب 16 سے 17 ایم جی ڈی ہے جبکہ فراہمی صرف 3 سے 4 ایم جی ڈی ہے—فائل فوٹو : ڈان

کراچی کے پوش علاقے ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی (ڈی ایچ اے) کے رہائشی عموماً پانی کی قلت کی شکایت کرتے رہے ہیں تاہم اب مون سون کی حالیہ بارشوں اور پانی کی سطح میں اضافے کے بعد امید کی جا رہی تھی کہ پانی کی فراہمی میں بہتری آئے گی لیکن تاحال ایسا کچھ نہیں ہوا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ڈی ایچ اے کے رہائشیوں کے لیے بظاہر پانی ہر جگہ موجود نظر آتا ہے لیکن پینے کے قابل نہیں ہے کیونکہ یہ پانی صاف اور محفوظ نہیں ہے۔

ڈی ایچ اے فیز 2 کے رہائشی نادر جمال نے بتایا کہ ’ہمیں پائپ لائن سے 3 ہفتوں میں ایک بار تھوڑا سا پانی ملتا ہے اور ہم نے اسے خاموشی سے قبول کر لیتے ہیں کیونکہ کنٹونمنٹ بورڈ کلفٹن (سی بی سی) کے مطابق انہیں کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ (کے اسی ڈبلیو بی) سے ملنے والا پانی ناکافی ہےجبکہ کلفٹن اور پی ای سی ایچ ایس کو کافی پانی مل رہا ہے‘۔

یہ بھی پڑھیں: کراچی: ’پانی مافیا‘ قدم جما رہا ہے

انہوں نے کہا کہ ’درحقیقت کلفٹن میں پانی ان کے زیر زمین ٹینکوں سے ہر وقت بہہ رہا ہوتا ہے اور اس کی وجہ سے وہاں کی سڑکیں بھی کھردری اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو چکی ہیں‘۔

ڈی ایچ اے فیز 2 کے ایک اور رہائشی سکندر قاضی نے بتایا کہ ’ہم اس علاقے کے بہت پرانے رہائشی ہیں، کئی سال قبل ہمیں ہفتے میں 3 بار کافی پانی مل جاتا تھا لیکن لگ بھگ 15 سال قبل حالات بدلنے لگے جب ہمیں ہفتے میں دو بار اور پھر ہفتے میں ایک بار پانی ملنے لگا، اب مہینے میں ایک یا دو بار پانی کی شدید قلت ہوتی ہے‘۔

انہوں نے کہا کہ ’ڈی ایچ اے، ہر گھر میں مکینوں کی تعداد اور ان کی پانی کی ضروریات کے مطابق ایک بڑی اور منصوبہ بند ہاؤسنگ سوسائٹی ہوا کرتی تھی لیکن ایسا لگتا ہے کہ ان منصوبوں کو نکال پھینکا گیا ہے، 5 افراد کے خاندان کے لیے ماہانہ 2 ہزار گیلن پر گزارہ کرنا ممکن نہیں ہے‘۔

مزید پڑھیں: سندھ ہائی کورٹ کا کراچی میں ٹینکر مافیا کے فوری خاتمے کا حکم

انہوں نے کہا کہ ’ہمیں سی بی سی نے بتایا ہے کہ اس کا ذمہ دار کے ڈبلیو ایس بی ہے لیکن ہم اس میں کیا کر سکتے ہیں؟ سی بی سی کو ان سے نمٹنا چاہیے اور اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ ہمیں پانی فراہم ہو‘۔

انہوں نے کہا کہ ’اب کے ڈبلیو ایس بی کو تمام قسم کے مسائل کا سامنا ہے، مثلاً ان کے فلٹریشن پلانٹس یا پمپنگ اسٹیشنز کی مرمت کا کام درکار ہے، بعض اوقات ان کی سپلائی لائنوں میں خرابی ہوتی ہے، حال ہی میں ایسا ہوا تو ہماری سپلائی بند کر دی گئی، ایسی باتیں بھی کہی جا رہی ہیں جیسے کے ڈبلیو ایس بی جان بوجھ کر ٹینکر مافیا کو سہولت فراہم کرنے کے لیے اپنی سپلائی لائنیں توڑ رہی ہے، جن کی رقم میں سے کٹوتی صوبائی حکومت کو جاتی ہے‘۔

انہوں نے کہا کہ ’چونکہ ڈی ایچ اے کے رہائشی پانی کی قلت کے دوران ٹینکرز منگوا سکتے ہیں اس لیے ہم ایک طرح سے ٹینکر مافیا کو بھی سہولت فراہم کر رہے ہیں، ہماری قوت خرید ہمیں نقصان پہنچا رہی ہے جب کہ اگر یہی چیزیں کلفٹن یا پی ای سی ایچ ایس میں ہوتی ہیں تو وہ پانی کو محفوظ کریں گے اور فوری طور پر ٹینکروں سے پانی نہیں خریدیں گے‘۔

یہ بھی پڑھیں: کراچی میں فراہمیِ آب کا نظام: مسائل، وجوہات اور حل

فیز 6 کے ایک اور رہائشی کامران خان نے بتایا کہ ’لائنوں سے جو پانی مل رہا ہے وہ سیوریج کا ہے، ہمیں اپنی لائن کو بلاک کرنا پڑا کیونکہ اس میں سے آنے والا پانی گٹر کا پانی تھا، علاوہ ازیں 4 جولائی سے ہمیں پانی دستیاب ہی نہیں ہے‘ ۔

انہوں نے کہا کہ ’دراصل گٹر کی لائنیں بند ہوچکی ہیں اس لیے سیوریج کا پانی بھی سڑکوں پر بہہ رہا ہے، میرا گھر 5 ویں سٹریٹ خیابان سحر کے پاس واقع ہے اور فورتھ اسٹریٹ پر ایک خالی پلاٹ ہے جہاں ایک گٹر لائن ٹوٹ گئی ہے جس کی وجہ سے تمام مکینوں کو ان کی پائپ لائن سے پانی کی سپلائی کے بجائے گٹر کا پانی سپلائی ہو رہا ہے‘۔

ان تمام شکایات کے جواب میں سی بی سی نے رہائشیوں کے لیے ایک نوٹیفکیشن جاری کیا جس میں وضاحت کی گئی کہ دھابیجی پمپنگ اسٹیشن پر کے ڈبلیو اسی بی کی 72 انچ قطر کی بلک واٹر پائپ لائن 29 اگست کو پھٹ گئی تھی جس کی وجہ سے پانی کی سپلائی بند کر دی گئی تاہم اب اس کی مرمت کا کام ہو چکا ہے اور پانی کی سپلائی بھی بحال کر دی گئی ہے۔

نوٹیفکیشن کے اختتام پر تمام رہائشیوں سے پانی کی بچت اور احتیاط سے استعمال کرنے کی درخواست بھی کی گئی۔

سی بی سی کی وضاحت

اس حوالے سے بات کرتے ہوئے سی بی سی کے ترجمان نے بتایا کہ کے ڈبلیو اسی بی کے ساتھ 1999 میں ڈی ایچ اے کو پانی کی فراہمی کے لیے دستخط شدہ ایک ایم او یو کے مطابق ان کو 90 لاکھ گیلن پانی یومیہ (ایم جی ڈی) ملنا تھا۔

انہوں نے کہا کہ ’اب یہاں 2022 میں پہلے سے کہیں زیادہ آبادی ہے اور ڈی ایچ اے میں پانی کی طلب 16 سے 17 ایم جی ڈی ہو چکی ہے جبکہ ہمیں کے ڈبلیو ایس بی کی جانب سے صرف 3 سے 4 ایم جی ڈی فراہم کیا جا رہا ہے، یہی وہ فرق ہے، جو ہماری جانب سے علاقے کے معزز رہائیشیوں کو پانی کی فراہمی میں رکاوٹ بن رہا ہے، میں یہاں یہ بھی بتانا چاہتا ہوں کہ ہم کے ڈبلیو ایس بی کے ماہانہ بلوں میں ایک پیسہ کے بھی نادہندہ نہیں ہیں‘۔

یہ بھی پڑھیں: کراچی واٹر بورڈ کو غیر قانونی ہائیڈرینٹس کے خلاف کارروائی کی ہدایت

انہوں نے کہا کہ اگر وہ ہمیں 9 ایم جی ڈی پانی فراہم کردیتے تو ہم کم از کم متبادل دنوں میں ہی اپنے رہائشیوں کو پانی فراہم کردیتے لیکن ہمیں اتنا بھی پانی نہیں مل رہا۔

کے ڈبلیو ایس بی کے ٹینکر مافیا کے ساتھ گٹھ جوڑ سے متعلق سوال پر ترجمان سی بی سی نے کہا کہ ’کے ڈبلیو ایس بی کے ہائیڈرنٹس میں ایسا ہونا یقیناً ممکن ہو سکتا ہے، شاید وہ پانی بیچ رہے ہیں لیکن وہ ہمیں نہیں دے رہے، ورنہ ہم بخوشی علاقہ مکینوں کو پائپ لائنوں کے ذریعے پانی فراہم کرتے‘۔

تبصرے (1) بند ہیں

KHAN Sep 07, 2022 11:25am
کراچی کے زیادہ تر علاقوں کا یہی حال ہے برائہ مہربانی آئندہ رپورٹ کم آمدنی والے علاقوں کے بارے میں میں تیار کی جائے اور قارئین کو اس سے آگاہ کیا جائے کہ وہاں کے رہائشی کتنی مشکل سے پانی کے لیے ہزاروں روپے کی ادائیگی کرنے پر مجبور ہیں۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024