سندھ: کھلے آسمان تلے زندگی گزارنے والے سیلاب زدگان وبائی امراض کا شکار
ملک میں سیلاب نے جہاں ہر صوبے میں تباہی مچائی ہے وہیں متاثرین کے مصائب و آلام کی دل دہلا دینے والی داستانیں سامنے آرہی ہیں، جہاں سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں متاثرین کھلے آسمان تلے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں، سیلاب نے زندگی اتنی مشکل بنا دی ہے کہ متاثرین کے بھوک اور پیاس سے سسکتے اور مختلف بیماریوں کا شکار ہوتے نظر آرہے ہیں۔
محکمہ صحت کے جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق جولائی سے اب تک سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں حکومت کے زیر انتظام چلنے والے طبی کیمپوں میں 6 لاکھ 60 ہزار 120 افراد میں مختلف بیماریوں کی تشخیص ہوئی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: لمپی اسکن بیماری اور سیلاب کے سبب گوشت کی فروخت شدید متاثر
اعدادوشمار کے مطابق سیلاب زدہ علاقوں میں جلد اور اسہال کی بیماریاں تیزی کے ساتھ پھیلی ہیں، مجموعی طور پر ایک لاکھ 49 ہزار 551 افراد اسہال کی بیماریوں میں مبتلا ہیں جبکہ ایک لاکھ 42 ہزار 739 افراد جِلد کے انفیکشن کے کیسز رپورٹ ہوئے۔
حکام کے مطابق سانس کی بیماری کے ایک لاکھ 32 ہزار 485 کیسز رپورٹ ہوئے جبکہ ملیریا کے 49 ہزار 420 کیسز، سانپ کے ڈسنے کے 101 کیسز اور کتے کے کاٹنے کے 550 کیسز رپورٹ ہو چکے ہیں، جبکہ دیگر بیماریوں کے ایک لاکھ 85 ہزار 274 کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔
وزیر صحت سندھ ڈاکٹر عذرا فضل پیچوہو نے گزشتہ روز ایک انٹرویو میں بتایا تھا کہ صوبے میں تقریباً 47 ہزار سے زائد حاملہ خواتین شیلٹر ہومز میں موجود ہیں۔
مزید پڑھیں: منچھر جھیل میں پانی کا دباؤ کم کرنے کیلئے 'ریلیف کٹ' لگا دیا گیا
انہوں نے مزید کہا کہ سیلاب کے بعد ہزاروں لوگ مختلف بیماریوں میں مبتلا ہوگئے تھے۔
حکام کے مطابق حکومت کے زیر انتظام چلنے والے میڈیکل کیمپوں میں روزانہ جِلد کے انفیکشن کے 15 ہزار سے زائد کیسز رپورٹ ہو رہے ہیں جبکہ اسہال کی بیماریوں کے 14 ہزار سے زائد کیسز اور سانس کی بیماریوں کے 13 ہزار سے زائد کیسز روزانہ رپورٹ ہو رہے ہیں۔
تعداد اس سے کئی گنا زیادہ ہے
تاہم سیلاب زدہ علاقوں میں امدادی سرگرمیوں میں مصروف کارکنان کا خیال ہے کہ کیسز کی اصل تعداد اس سے کئی گنا زیادہ ہے کیونکہ صوبے میں اب بھی کئی مقامات ایسے ہیں جہاں حکومت نے ابھی تک امدادی کارروائی شروع نہیں کی۔
پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کراچی کے سیکریٹری جنرل ڈاکٹر عبدالغفور شورو کا کہنا تھا کہ ’سیلاب زدہ علاقوں میں اس وقت سب بڑا چیلنج پناہ گاہوں کی شدید کمی ہے، آج ہم نے میرپورخاص، ٹنڈو محمد خان اور ٹنڈو آدم کا دورہ کیا لیکن وہاں ایک بھی سرکاری امدادی کیمپ نہیں دیکھا، سیلاب سے متاثرہ افراد کھلے آسمان تلے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔‘
مزید پڑھیں: سندھ کے شیلٹر ہومز میں 47 ہزار حاملہ خواتین موجود ہیں، عذرا پیچوہو
انہوں نے کہا کہ صرف کھپڑو روڈ پر ایک ریلیف کیمپ پیپلز پرائمری ہیلتھ کیئر انیشیوٹو کے زیر انتظام لگایا گیا ہے۔
ڈاکٹر عبدالغفور شورو نے مزید کہا کہ سیلاب زدہ علاقوں میں جِلد کے انفیکشن عام ہوگئے ہیں کیونکہ لوگوں کی بڑی تعداد گزشتہ 10 سے 15 روز سے پانی کے ساتھ زندگی بسر کر رہی ہے، حال تو یہ ہوگیا ہے کہ سیلاب زدہ علاقوں میں پانی میں مچھروں کی افزائش ہونے لگ گئی ہے، لیکن غریب عوام کے پاس مچھر دانیاں ہیں اور نہ پناہ گاہیں موجود ہیں۔
انہوں نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’مجھے ڈر ہے کہ آنے والے دنوں میں صورتحال مزید سنگین ہوجائے گی اس لیے ہمیں فوری اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے‘۔
ان کا کہنا تھا کہ ’کھلے آسمان تلے بیٹھے سیلاب زدہ لوگ آلودہ پانی پینے پر مجبور ہیں، ان کے پاس کھانے کو کچھ نہیں، انہیں غیر منافع بخش تنظیموں یا کسی مہربان زمیندار کی طرف سے تھوڑا کھانا مل رہا ہے۔‘
یہ بھی پڑھیں: سیلاب کی تباہ کاریاں: ڈی جی خان میں ہزاروں افراد ڈائریا، دیگر بیماریوں میں مبتلا
محکمہ صحت کے حکام کے مطابق سندھ میں سیلاب میں 50 لاکھ کے قریب افراد بے گھر ہوئے ہیں، جبکہ ایک ہزار سے زائد صحت کی سہولیات کو نقصان پہنچا ہے۔
ان میں سے 966 کو جزوی نقصان پہنچا جبکہ 126 صحت کی سہولیات مکمل طور پر تباہ ہوگئیں۔
سب سے زیادہ صحت کی سہولیات سکھر میں تباہ ہوئیں جس کی تعداد 230 ہے، اس کے بعد لاڑکانہ میں 199، حیدرآباد میں 183، میرپور خاص میں 171، شہید بے نظیر آباد میں 156 اور کراچی میں 27 سہولیات شامل ہیں۔
میرپورخاص میں 65 صحت کی سہولیات مکمل طور پر تباہ ہوگئیں، اس کے بعد حیدر آباد میں 22، سکھر میں 17، لاڑکانہ میں 13، شہید بےنظیر آباد میں 7 اور کراچی میں ایک سہولت مکمل تباہ ہوئی۔
مزید پڑھیں: سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں ایک ارب روپے مالیت سے زائد ادویات کی فوری ضرورت
حکومتی اعدادوشمار کے مطابق جہاں ہیضے کے کیسز میں کمی آئی وہیں سندھ میں ڈائریا اور پیچش کے کیسز میں اضافہ ہو رہا ہے۔
اعدادوشمار کے مطابق 293 موبائل کیمپ اور 157 فکس کیمپوں میں 496 ڈاکٹرز اور ایک ہزار 138 پیرا میڈکس ڈیوٹی پر موجود ہیں۔