• KHI: Zuhr 12:20pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:51am Asr 3:22pm
  • ISB: Zuhr 11:56am Asr 3:22pm
  • KHI: Zuhr 12:20pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:51am Asr 3:22pm
  • ISB: Zuhr 11:56am Asr 3:22pm

‘کیا نیب آرڈیننس ترامیم کالعدم قرار دینے سے پرانا قانون بحال ہو جائے گا’، سپریم کورٹ

شائع September 2, 2022 اپ ڈیٹ September 3, 2022
کیس کی دوبارہ سماعت 26 ستمبر کو کی جائے گی—فوٹو: سپریم کورٹ ویب سائٹ
کیس کی دوبارہ سماعت 26 ستمبر کو کی جائے گی—فوٹو: سپریم کورٹ ویب سائٹ

سپریم کورٹ کے ایک جج نے اظہار تعجب کرتے ہوئے ریمارکس دیے ہیں کہ اگر احتساب قانون میں حالیہ ترامیم کو عدالت کالعدم قرار دے دیتی ہے تو کیا قومی احتساب آرڈیننس (این اے او) اپنی اصل شکل میں بحال ہو جائے گا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق جسٹس سید منصور علی شاہ سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ کے ان ارکان میں سے ایک ہیں جس نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین اور سابق وزیراعظم عمران خان کی جانب سے قومی احتساب بیورو قوانین میں حالیہ ترامیم کے خلاف دائر کردہ درخواست کی سماعت کی تھی۔

قومی احتساب بیورو قوانین میں مزید ترامیم کو چیلنج کرنے کے لیے ترمیم شدہ درخواست کے ساتھ خواجہ حارث نے عدالت کے سامنے ایک مختصر بیان بھی جمع کرایا جس میں بتایا گیا کہ ترامیم کو کیوں چیلنج کیا جا رہا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: نیب قانون میں ترمیم کےخلاف عمران خان کی درخواست سماعت کیلئے مقرر کرنے کا حکم

جسٹس سید منصور علی شاہ نے عمران خان کی نمائندگی کرنے والے سینئر وکیل سے کسی بھی ایسی قانونی نظیر کا حوالہ دینے کا کہا جو اس بات کی جانب اشارہ کرے کہ اگر عدالت عظمیٰ احتساب قانون میں حالیہ ترامیم کو کالعدم قرار دے دیتی تو ترامیم سے قبل نافذ شدہ سابقہ قانون دوبارہ بحال ہو جائے گا۔

چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں، جسٹس سید منصور علی شاہ اور جسٹس اعجاز الاحسن پر مشتمل بینچ نے چیئرمین پی ٹی آئی کی ترمیم شدہ درخواست کو سماعت کے لیے منظور کر لیا جب کہ وفاقی حکومت کی جانب سے سینئر وکیل مخدوم علی خان نے درخواست کی مخالفت نہیں کی۔

اس دوران درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ وہ ترمیم شدہ درخواست میں اٹھائے گئے سوالات کا جواب دینے کے لیے ایک جامع بیان داخل کریں گے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ درخواست میں سابقہ قانون کو بحال کرنے کی نہیں بلکہ حالیہ ترمیم شدہ قانون کو ختم کرنے کی استدعا کی گئی ہے۔

مزید پڑھیں: سابق وزیر اعظم عمران خان نے نیب قانون میں ترامیم سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا

کیس کی دوبارہ سماعت 26 ستمبر کو کی جائے گی جب کہ بینچ میں شامل ممبران میں سے ایک ممبر کانفرنس میں شرکت کے لیے بیرون ملک جا رہے ہیں۔

مخدوم علی خان کی جانب جمع کرائےگئے بیان کا حوالہ دیتے ہوئے چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس کہ دستاویز کو دیکھ کر انہیں محسوس ہوا کہ وکیل نے کیس سے متعلق اپنے دلائل کو ابھی خفیہ رکھا ہے اور اپنے پتے شو نہیں کیے لیکن اب ایک موقع ہے کہ جب وفاقی حکومت ترمیم شدہ پٹیشن کا جواب داخل کرے گی تو مزید انکشافات سامنے آسکتے ہیں۔

اس پر حکومتی وکیل نے مرزا غالب کے ایک شعر کا حوالہ دیتے ہوئے کہا 'وہ الگ باندھ کے رکھا ہے جو مال اچھا ہے'۔

جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ وکیل کے دلائل کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ وہ اصولی پالیسی کے موافق ہیں جس میں معیاری تعلیم یا گڈ گورننس کو یقینی بنانے کی کوشش کی گئی ہے لیکن یہ قابل عمل اور قابل اطلاق نہیں ہیں بلکہ ملک کو چلانے کے لیے نظام سے متعلق خواہشات کی فہرست ہے۔

یہ بھی پڑھیں: سینیٹ میں الیکشن ایکٹ اور نیب ترمیمی بلز اتفاق رائے سے منظور

جسٹس منصور علی شاہ نے وکیل سے یہ بھی کہا کہ وہ کیس سے متعلق ان نکات کی نشاندہی کریں کہ قانون کی کوئی شق بنیادی حقوق سے متصادم ہے یا جس سے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہوتی ہے اور عدالتوں کو اس خلا کو پر کرنا چاہیے۔

درخواست گزار کے وکیل خواجہ حارث نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ قومی احتساب بیورو قوانین میں ترامیم سے عوام کے بنیادی حقوق لازمی طور پر متاثر ہوں گے۔

کارٹون

کارٹون : 27 نومبر 2024
کارٹون : 26 نومبر 2024