• KHI: Fajr 5:52am Sunrise 7:13am
  • LHR: Fajr 5:32am Sunrise 6:59am
  • ISB: Fajr 5:40am Sunrise 7:09am
  • KHI: Fajr 5:52am Sunrise 7:13am
  • LHR: Fajr 5:32am Sunrise 6:59am
  • ISB: Fajr 5:40am Sunrise 7:09am

دہشت گردی کے مقدمے میں عمران خان کی عبوری ضمانت میں 12 ستمبر تک توسیع

شائع September 1, 2022
سابق وزیر اعظم انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پیش ہوئے— فوٹو:ڈان نیوز
سابق وزیر اعظم انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پیش ہوئے— فوٹو:ڈان نیوز

خاتون مجسٹریٹ اور اعلیٰ پولیس افسران کو دھمکیاں دینے سے متعلق کیس میں انسداد دہشت گردی کی عدالت نے سابق وزیراعظم عمران خان کی عبوری ضمانت میں توسیع کی درخواست منظور کر لی۔

خیال رہے کہ عمران خان کے خلاف دہشت گردی کی دفعات کے تحت21 اگست کو اسلام آباد میں مقدمہ درج کیا گیا تھا جب کہ عدالت نے 25 اگست کو انہیں ضمانت دیتے ہوئے یکم ستمبر تک گرفتار کرنے سے روک دیا تھا۔

سماعت کے دوران چیئرمین تحریک انصاف عمران خان انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پیش ہوئے۔

کیس کی سماعت انسداد دہشت گردی عدالت کے جج راجا جواد عباس حسن نے کی۔

یہ بھی پڑھیں: دہشت گردی اور دفعہ 144 کے مقدمات میں عمران خان کی ضمانت منظور

اے ٹی سی عدالت نے دہشت گردی کے مقدمے میں سابق وزیر اعظم عمران خان کو 12 بجے تک پیش ہونے کا حکم دیتے ہوئے سماعت میں وقفہ کردیا تھا۔

وقفے کے بعد سماعت کے آغاز پر بابر اعوان نے کہا کہ عدالت کے حکم پر عمران خان کمرہ عدالت میں موجود ہیں۔

جج نے ریمارکس دیے کہ عمران خان کے درج مقدمے میں جو دفعات لگائی گئی ہیں، ان میں ضمانت منظور کر لیتے ہیں، پولیس نے اب ہر 10 روز بعد دفعات میں اضافہ کرنا ہے۔

جج نے پراسیکیوٹر سے استفسار کیا کہ آپ یہ بتا دیں کہ دفعہ 506 کیسے لگائی ہے۔

بابر اعوان نے پراسیکیوٹر سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ کوئی دفعہ رہ تو نہیں گئی؟

مزید پڑھیں: پولیس، مجسٹریٹ کو دھمکیاں دینے پر عمران خان کےخلاف مقدمہ درج، دہشت گردی کی دفعہ شامل

عدالت نے کہا دہشت گردی کے علاوہ سارے سیکشن قابل ضمانت ہیں۔

پراسیکیوٹر کا کہنا تھا کہ جب میں دلائل دوں گا تو سب کچھ بتاؤں گا۔

اس دوران جج نے ایک لاکھ روپے کے مچلکے کے عوض عمران خان کی عبوری ضمانت میں 12 ستمبر تک توسیع کردی۔

قبل ازیں، عمران خان کے وکیل بابراعوان نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ اسلام آباد پولیس عمران خان کو لکھ کر بھیجتی ہے کہ ان کی جان کو خطرہ ہے، گزشتہ سماعت پر مجھے دھکم پیل کے بعد عدالت میں داخل ہونے کا موقع ملا تھا۔

دوران سماعت پراسیکیوٹر نے کہا کہ پہلے ملزم کو عدالت میں پیش کریں، پھر ہم بحث کریں گے، جج نے مقدمہ کا ریکارڈ طلب کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ جن کو دھمکی دی گئی، ان کا بیان بھی پڑھ کر سنائیں، اس فرض شناس افسر نے اس سے پہلے کتنے دہشتگردی کے مقدمہ کیے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: عمران خان کا بیان قابل مواخذہ ہے، مقدمہ درج کرنے کا جائزہ لے رہے ہیں، رانا ثنااللہ

اس دوران اسلام آباد کی انسداد دہشت گردی کی عدالت نے عمران خان کو 12 بجے طلب کرلیا، جج نے ریمارکس دیے کہ گزشتہ سماعت کی طرح عدالت میں غیر متعلقہ افراد نہ آئیں، میں نے عدالت دیکھنی ہوتی ہے، کوئی نظر ہی نہیں آتا، آج 3 عدالتیں کھلی ہیں، آپ لسٹ دینگے، صرف وہ ہی وکلا کمرہ عدالت میں آئیں گے۔

اس کے علاوہ، عدالت کو بتایا گیا کہ عمران خان کے خلاف مقدمے میں نئی دفعات بھی شامل کی گئی ہیں، عمران خان کے خلاف درج مقدمے میں مزید 4 دفعات شامل کی گئی ہیں، دہشتگردی کے مقدمہ میں 506،504،186 اور 188 دفعہ شامل کی گئی ہیں۔

عمران خان کے وکیل بابر اعوان نے استدعا کی کہ ان دفعات میں بھی عمران خان کی ضمانت منظور کی جائے،جج نے ریمارکس دیے کہ ان دفعات میں ہم نوٹس جاری کریں گے، جج نے سرکاری وکیل سے سوال کیا کہ کیا سیون اے ٹی اے جرم کے بغیر کبھی درج ہوئی ، آپکو بتانا ہوگا کونسی کلاشنکوف لی گئی، کونسی خودکش جیکٹ پہن کر حملہ کیا گیا۔

وکیل بابر اعوان نے کہا کہ 12 بجے تک کا وقت دیا جائے، عمران خان کو پیش کردیں گے، اگر میرے موکل کو کچھ ہوا تو آئی جی اور ڈی آئی جی آپریشنز ذمہ دار ہوں گے۔

اس کے ساتھ ہی جج نے سماعت میں 12 بجے تک کے لیے وقفہ کرتے ہوئےکہا تھا کہ عمران خان کو آج عدالت کے سامنے پیش ہونا پڑےگا۔

یہ بھی پڑھیں: دہشتگردی کا مقدمہ: عمران خان کا ضمانت کیلئے کل عدالت میں پیش ہونے کا فیصلہ

بعد ازاں، پی ٹی آئی رہنما بابر اعوان نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ عدالت میں 2 تحریری جواب جمع کروائے ہیں، عدالت میں بتایا ہے کہ میرے کلائنٹ کو کچھ ہوتا ہے تو حکومت ،آئی جی اور ڈی آئی جی اسلام آباد ذمے دار ہوں گے۔

بابر اعوان نے کہا کہ ایک تو سیکیورٹی عمران خان سے لے رہے ہیں اور دوسرا کسی صوبے کی پولیس ان کے ساتھ یہاں نہیں ہو سکتی۔

انہوں نے کہا ہمیں بنی گالہ میں ایک تھریٹ لیٹر دیا گیا ہے کہ کچھ لوگ خان صاحب کو مارنا چاہتے ہیں، تھریٹ لیٹر عدالت میں جمع کروا دیا ہے، عدالت نے کہا کہ عمران خان کو پیش ہونا چاہیے۔

ان کا کہنا تھا کہ میں نے عدالت میں کہا عمران خان کون سے مےفیر میں ہیں، بنی گالہ میں ہیں 12 بجے لے آؤں گا۔

اس موقع پر انسدادِ دہشت گردی عدالت کے اطراف سیکورٹی کے سخت انتظامات کئے گئے تھے، وکلا سمیت صحافیوں کے بھی جوڈیشل کمپلیکس میں جانے پر پابندی عائد کی گئی تھی۔

عمران خان کا سیاسی مقابلہ مشکل نہیں، نہ ممکن ہوگیا، اسد عمر

فوٹو:ڈان نیوز
فوٹو:ڈان نیوز

عمران خان کی ضمانت میں توسیع کی درخواست منظور کیے جانے کے بعد اے ٹی سی عدالت کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے پی ٹی آئی کے جنرل سیکریٹری اسد عمر نے کہا کہ عمران خان پر دہشت گردی کا مقدمہ بناکر یہ حکمران ان کا کچھ نہیں بگاڑ رہے لیکن ملک کا تشخص ضرور خراب کر رہے ہیں۔

مزید پڑھیں: دہشت گردی کا مقدمہ، عمران خان کی 3 روزہ حفاظتی ضمانت منظور

ان کا کہنا تھاکہ عمران خان کی سیاسی مقبولیت کا مخالفین کے پاس کوئی جواب نہیں بچا، ان کو نظر آگیا ہے کہ عمران خان کا سیاسی مقابلہ مشکل نہیں نا ممکن ہوگیا ہے، اس لیے مخالفین کوشش کر رہے ہیں کہ کسی بھی طریقے سے غیر قانونی مقدمے بنا کر اس کا راستہ روکا جائے لیکن یہ جتنا دباؤ بڑھانے کی کوشش کرتے ہیں عمران خان اتنا زیادہ مقبول ہوتے جا رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ قوم عمران خان ساتھ کھڑی ہوگئی ہے ، ملک میں ایسے جمہوری نظام کے لیے جس پر عمران خان کا اعتماد ہو، اس کے لیے صاف شفاف فوری الیکشن ہی حل ہے، ہمارے خیال میں عوام عمران خان کے حق میں فیصلہ کرچکے ہیں، اگر مخالفین سمجھتے ہیں کہ وہ مقبول ہیں تو سیاسی میدان میں الیکشن میں مقابلہ کریں۔

ان کا کہنا تھا کہ عمران خان کی زندگی کو خطرہ ہے، انہیں دھمکیوں کا سامنا ہے جب کہ یہ حکمران ایسے حالات پیدا کر رہے ہیں جہاں ان کی سیکیورٹی کو سخت خدشات لاحق ہوجاتے ہیں۔

اسد عمر نے کہا عمران خان کی جد وجہد ہی قانون کی حکمرانی اور عدالتوں کے لیے ہے ، عمران خان زندگی میں ایک مرتبہ جیل گئے اور وہ جیل انہوں نے صرف عدلیہ کی آزادی کے لیے کاٹی تھی۔

اس موقع پر عمران خان کے وکیل بابر اعوان نے کہا کہ عمران خان کے مقدمے 4 نئی دفعات شامل کی گئی ہیں جن میں سے ایک یہ ہے کہ عمران خان کی وجہ سے پورے ملک میں بے امنی پھیل گئی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: اسلام آباد پولیس نے عمران خان سے سیکیورٹی واپس لے لی ہے، شیریں مزاری کا دعویٰ

ان کا کہنا تھا کہ دوسری دفعہ وہ لگائی ہے جو صرف عدالت کی اجازت سے مشروط ہوتی ہے، تیسری دفعہ آگ لگانے اور قتل کی دھمکی سے متعلق ہے، چوتھی دفعہ وہ ہے جس کے مطابق پورا پاکستان جیل اور تمام لوگ دہشت گردی کے مقدمے بھگتنے کے لیے عدالت میں حاضر ہوں گے۔

بابر اعوان نے کہا کہ یہ دفعات اس شخص اور لیڈر پر لگائی گئی ہے جو ایک کال پر 3 گھنٹے کے اندر لوگ 5 ارب روپے جمع کرادیتے ہیں۔

ان کا کہنا تھاکہ آج لگائی گئی دفعات سے پولیس شہدا اور ان کے اہل خانہ کی دل آزاری ہوئی، اس میں بیان لکھوائے گئے کہ عمران خان کے بیان کے بعد پولیس خوفزہ ہوگئی ہے، میں نے جج صاحب کو بتایا کہ اس کمرہ عدالت کے برابر والے کمرے میں ایک جج شہید کیے گئے تو آپ نے عدالت چھوڑی، نہ میں نے وکالت چھوڑی۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ حکمران دھوکا دینے کی کوشش کر رہے ہیں، جھوٹے مقدمات بنانے والوں کے خلاف عدالتی کارروائی کریں گے۔

عمران خان کے خلاف مقدمہ

خیال رہے کہ 20 اگست کو سابق وزیر اعظم عمران خان کے خلاف اسلام آباد کے علاقے صدر کے مجسٹریٹ علی جاوید کی مدعیت میں تھانہ مارگلہ میں انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔

مزید پڑھیں: خاتون مجسٹریٹ، آئی جی، ڈی آئی جی اسلام آباد کے خلاف کیس کریں گے، عمران خان

ایف آئی آر میں کہا گیا تھا کہ 20 اگست کو پاکستان تحریک انصاف رہنما شہباز گِل کی گرفتاری کے خلاف عمران خان کی قیادت میں ریلی نکالی گئی جس کا راستہ زیرو پوائنٹ سے ایف 9 پارک تک تھا، اس دوران عمران خان کی تقریر شروع ہوئی جس میں انہوں نے اسلام آباد پولیس کے اعلیٰ ترین افسران اور ایک معزز خاتون ایڈیشنل جج صاحبہ کو ڈرانا اور دھمکانا شروع کیا۔

ریلی سے خطاب میں عمران خان نے اسلام آباد پولیس کے آئی جی اور ڈی آئی جی کے خلاف مقدمہ درج کرنی کے دھمکی دیتے ہوئے کہا تھا کہ ‘ہم تم کو چھوڑیں گے نہیں’۔

اس کے بعد انہوں نے عدلیہ کو اپنی جماعت کی طرف متعصب رویہ رکھنے پر بھی خبردار کرتے ہوئے کہا تھا کہ اب وہ بھی نتائج کے لیے تیار ہو جائیں۔

عمران خان نے ایڈیشنل اور سیشن جج زیبا چوہدری کو بھی خبردار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کو بھی سنگین نتائج کا سامنا کرنا ہوگا، واضح رہے کہ خاتون جج نے دارالحکومت پولیس کی درخواست پر پاکستان تحریک انصاف کے رہنما ڈاکٹر شہباز گِل کا دو روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: عمران خان کی ‘دھمکیوں’ پر اسلام آباد پولیس کا ردِعمل، کارروائی کا عندیہ

ایف آئی آر میں مزید کہا گیا تھا کہ عمران خان کی اس تقریر کا مقصد پولیس کے اعلیٰ افسران اور عدلیہ کو خوف زدہ کرنا تھا تاکہ وہ اپنے فرائض کی ادائیگی نہ کریں اور ضرورت پڑنے پر تحریک انصاف کے کسی رہنما کے خلاف کارروائی کرنے سے بھی گریز کریں۔

ایف آئی آر میں مزید کہا گیا تھا کہ عمران خان کی اس انداز میں کی گئی تقریر سے پولیس حکام، عدلیہ اور عوام الناس میں خوف و ہراس پھیل گیا ہے اور عوام الناس میں بے چینی، بدامنی اور دہشت پھیلی اور ملک کا امن تباہ ہوا ہے۔

ایف آئی آر میں استدعا کی گئی تھی کہ عمران خان کے خلاف قانونی کارروائی کرکے ان کو مثالی سزا دی جائے۔

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024