آئی ایم ایف معاہدہ: ہم آئی سی یو سے تو نکل گئے مگر خطرہ ابھی ٹلا نہیں
کئی ماہ سے جاری سخت مذاکرات کے بعد بلآخر عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) سے معاہدہ طے پاگیا ہے۔ یہ ہماری کمزور معیشت کے لیے ایک بڑا سہارا ہے۔ آئی ایم ایف پاکستان کے لیے 1 ارب 17 کروڑ ڈالر جاری کرے گا۔
اس رقم سے ملک کو درپیش ڈیفالٹ کا خطرہ تو ختم ہوجائے گا تاہم اس سے ہم معاشی بحران ختم ہونے کی امید نہیں رکھ سکتے۔ آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی اس متزلزل حکومت کے لیے بہت اہم ہے لیکن اس پروگرام کی بحالی آسان نہیں تھی۔
دیگر ترقی پذیر ممالک کی طرح پاکستان کو بھی معاشی بدحالی کے عفریت کا سامنا کرنا پڑا۔ اس حوالے سے پاکستان کا شمار خطرات سے سب سے زیادہ شکار ممالک میں ہوا۔ ملک کو ڈیفالٹ سے بچانا ناممکن تو نہیں تھا تاہم ملک ڈیفالٹ کے بہت قریب ضرور پہنچ گیا تھا۔ اس معاشی صورتحال کو مستحکم کرنے کے لیے آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ کلیدی حیثیت اختیار کرگیا تھا۔ آئی ایم ایف سے ملنے والی حالیہ قسط 6 ارب ڈالر کے قرض پروگرام کا حصہ ہے۔
پاکستان 2019ء میں آئی ایم ایف پروگرام میں داخل ہوا تھا۔ ابھی آئی ایم ایف سے نصف فنڈز ہی حاصل ہوئے تھے کہ گزشتہ حکومت کے لیے مقررہ اہداف پر عمل کرنا مشکل ہوتا گیا۔ عمران خان کی حکومت جانے سے کچھ دن قبل ہی حکومت نے ایک بڑی سبسڈی کا اعلان کیا جس سے معاشی استحکام کی تمام کوششیں ضائع ہوگئیں۔ اس سبسڈی کے پیچھے سیاسی محرکات تھے کیونکہ عمران خان کو اس وقت تحریک عدم اعتماد کا سامنا تھا۔
مزید پڑھیے: ملک سیاسی غیر یقینی کی معاشی قیمت ادا کررہا ہے
لیکن یہ مقبول فیصلہ بھی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) حکومت کو نہیں بچا سکا بلکہ ملک کے ذخائر پر بوجھ بنا اور ملک کو سخت ترین معاشی بحران کا شکار کردیا۔ نتیجے کے طور پر نئی حکومت کو سخت شرائط پر آئی ایم ایف سے مذاکرات کرنے پڑے۔ حکومت کو آئی ایم ایف کی منظوری سے قبل ضروری اور سخت معاشی اقدامات بھی اٹھانے پڑے۔ شاید یہ آئی ایم ایف کی جانب سے پاکستان پر عائد اب تک کی سخت ترین شرائط تھیں۔
اس کے نتیجے میں نہ صرف یہ کہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ ہوا بلکہ دیگر سبسڈی بھی واپس لے لی گئیں۔ حکومت کو ٹیکسوں کی مدد میں اضافی 436 ارب روپے بھی حاصل کرنے ہیں۔ ان اقدامات کا مطلب ہے کہ پہلے سے ہی مشکلات کا شکار حکمران اتحاد کو ایک بڑی سیاسی قیمت ادا کرنی پڑے گی۔
اگرچہ پاکستانی حکومت اور آئی ایم ایف اسٹاف مشن اس پروگرام کی بحالی پر جون میں ہی متفق ہوگئے تھے لیکن اس کے باوجود آئی ایم ایف کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کو اس کی منظوری دینے میں مزید 2 ماہ لگے۔
اس وقت امید کی ایک کرن نظر آئی جب آئی ایم ایف نے قرض کی مدت میں اضافہ کرنے اور اس میں 72 کروڑ کا اضافہ کرکے اسے 7 ارب ڈالر تک لے جانے کے لیے نظرثانی کی ہامی بھری۔ آئی ایم ایف کی منظوری کے بعد اب پاکستان کو دوست ممالک اور ورلڈ بینک جیسی عالمی ایجنسیوں سے بھی مالی امداد ملنے کی امید بندھی ہے۔
یہ بلاشبہ ایک اچھی خبر ہے لیکن ملک کو مستقبل میں مشکل حالات کا سامنا کرنا پڑے گا کیونکہ معاشی حالات ابھی سنبھلے نہیں ہیں۔ ملک میں ہونے والی طوفانی بارشوں اور سیلاب کے نتیجے میں تقریباً 3 کروڑ 30 لاکھ افراد متاثر ہوئے ہیں۔ یہ ہماری آبادی کا تقریباً 15 فیصد حصہ بنتے ہیں۔ پاکستان نے تاریخ میں کبھی ایسی تباہی نہیں دیکھی۔ ان حالات میں معاشی استحکام کے اہداف کا حصول ایک بڑا چیلنج ہوگا۔
ملک بھر میں لاکھوں لوگ بے گھر ہوچکے ہیں۔ لوگ اپنے روزگار سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں، ہزاروں ایکڑ اراضی پر کھڑی فصلیں تباہ ہوچکی ہیں اور مال مویشی سیلاب میں بہہ گئے ہیں۔ سڑکیں اور ڈیم ٹوٹ گئے ہیں جس سے انفرااسٹرکچر کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ مزید سیلاب کی پیشگوئی کے باعث صورتحال بدستور تشویشناک ہے۔
اس تباہی سے ہونے والے معاشی نقصان کا اندازہ لگانا ابھی قبل از وقت ہوگا۔ حکومتی تخمینے کے مطابق متاثرہ علاقوں میں تعمیرِ نو کے لیے 10 ارب روپے سے زائد کی ضرورت ہوگی۔ ایک کمزور معیشت اتنے بڑے نقصان کو برداشت نہیں کرسکتی۔ ہزاروں ایکڑ پر کھڑی فصلوں کے نقصان کے باعث ملک کو مستقبل میں خوراک کی کمی کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے جس سے حالات مزید خراب ہوسکتے ہیں۔ اس صورت میں حکومت کے لیے اس مہنگائی پر قابو پانا مزید مشکل ہوجائے گا جو اس وقت بھی 40 فیصد سے زائد ہے۔
مزید پڑھیے: اس سیاسی بحران میں کسی کا فائدہ ہو نہ ہو ملک کا نقصان ضرور ہے
ان حالات میں حکومت کے لیے آئی ایم ایف کی شرائط پر عمل درآمد کرنا ایک چیلنج ہوگا۔ حکومت پر خود حکمران اتحاد اور اپوزیشن کی جانب سے بھی سیاسی دباؤ پڑ رہا ہے کہ وہ سبسڈی اور خاص طور پر پیٹرولیم مصنوعات اور بجلی کی قیمتوں پر سبسڈی بحال کرے، لیکن یہی چیزیں آئی ایم ایف پروگرام کی اہم شرائط بھی ہیں۔
موجودہ سیاسی تفریق میں جہاں اپوزیشن جماعت پی ٹی آئی کی پنجاب اور خیبر پختونخوا میں حکومت ہے، وفاقی حکومت کے لیے سخت اقدامات اٹھانے کے امکانات محدود ہوگئے ہیں۔ پی ٹی آئی نے اپنی صوبائی حکومتوں کے ذریعے آخری وقت پر آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ خراب کرنے کی کوشش کی۔ سابق وزیرِ خزانہ شوکت ترین کی خیبر پختونخوا اور پنجاب کے وزیرِ خزانہ کے ساتھ ہونے والی جو ٹیلی فون کال لیک ہوئی ہے اس سے ان الزامات کو مزید تقویت ملی ہے کہ پی ٹی آئی کی جانب سے آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ خراب کرنے کی کوششیں کی جارہی تھیں۔
پی ٹی آئی اگرچہ آئی ایم ایف کی قسط روکنے میں تو کامیاب نہیں ہوسکی لیکن یہ اب بھی وفاقی حکومت کے لیے مشکلات کھڑی کرسکتی ہے۔ پی ٹی آئی کے رہنما آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے کے خلاف مہم چلا رہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ معاہدہ دراصل اس پروگرام کا ہی تسلسل ہے جو 2019ء عمران خان کے دورِ حکومت میں شروع ہوا تھا۔ درحقیقت گزشتہ حکومت کی جانب سے معاہدے پر عمل درآمد نہ کرنے سے ہی معیشت عدم استحکام کا شکار ہوئی۔
مزید پڑھیے: ڈیفالٹ ہونے کے بعد کیا ممالک دوبارہ ترقی کرسکتے ہیں؟ جواب ہے جی ہاں!
یہ بھی ایک وجہ تھی کہ آئی ایم ایف نے اپنی شرائط مزید سخت کردیں۔ گرتی ہوئی معیشت کی وجہ سے حکومت کے پاس ان سخت شرائط کو تسلیم کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا۔ یقینی طور پر تیل کی قیمتوں میں اضافے اور سبسڈی ختم ہونے سے عوام شدید متاثر ہوئے ہیں لیکن اس سے معیشت مکمل تباہی سے بچ گئی ہے۔
نئی حکومت کے لیے سخت اپوزیشن کی موجودگی میں غیر مقبول فیصلے کرنا آسان نہیں ہے۔ وزیرِ خزانہ مفتاح اسمٰعیل کو اپنی ہی جماعت کے کچھ سینئر رہنماؤں کی جانب سے سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ پاکستان مسلم لیگ (ن) اور شریف خاندان کے اندر جاری اقتدار کی جنگ کو بھی ظاہر کرتا ہے۔ تاہم ہمیں مفتاح اسمٰعیل کو اس بات کا کریڈٹ دینا ہوگا کہ وہ یہ معاہدہ کرنے میں کامیاب رہے، لیکن ابھی کہانی ختم نہیں ہوئی ہے۔
بلاشبہ آئی ایم ایف کے ساتھ ہونے والے معاہدے نے ملک کو کچھ سہارا تو دیا ہے لیکن آگے آنے والے چیلنجز بہت سخت ہیں۔ ہم آئی سی یو سے تو باہر آگئے ہیں لیکن ابھی خطرے میں ہیں۔ بڑھتا سیاسی عدم استحکام معاشی بحالی کے راستے میں حائل سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔
یہ مضمون 31 اگست 2022ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔
تبصرے (1) بند ہیں