• KHI: Fajr 5:52am Sunrise 7:13am
  • LHR: Fajr 5:32am Sunrise 6:59am
  • ISB: Fajr 5:40am Sunrise 7:09am
  • KHI: Fajr 5:52am Sunrise 7:13am
  • LHR: Fajr 5:32am Sunrise 6:59am
  • ISB: Fajr 5:40am Sunrise 7:09am

خاتون جج کو دھمکی: ’الفاظ غیر مناسب تھے تو واپس لینے کو تیار ہوں‘

شائع August 30, 2022 اپ ڈیٹ August 31, 2022
— فائل فوٹو:رائٹرز
— فائل فوٹو:رائٹرز

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین اور سابق وزیراعظم عمران خان نے اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے توہین عدالت کے شوکاز نوٹس کے جواب میں خاتون جج زیبا چوہدری سے متعلق الفاظ واپس لینے کی پیشکش کردی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پی ٹی آئی کے سربراہ نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے سامنے استدعا کی کہ جن ججوں نے کیس شروع کرنے پر رضامندی ظاہر کی تھی وہ خود کو بینچ سے دستبردار ہونے پر غور کریں، کیونکہ انہوں نے اس معاملے کا پہلے سے فیصلہ کرلیا تھا۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس محسن اختر کیانی، جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب، جسٹس طارق محمود جہانگیری اور جسٹس بابر ستار پر مشتمل اسلام آباد ہائی کورٹ کا 5 رکنی بینچ (آج) بدھ کو عمران خان کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی شروع کرے گا۔

یہ بھی پڑھیں: اسلام آباد ہائیکورٹ: عمران خان کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کا فیصلہ

سابق وزیراعظم عمران خان کی جانب سے ایڈووکیٹ حامد خان اور بیرسٹر سلمان صفدر نے اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے جاری شوکاز نوٹس پر جواب جمع کرایا۔

جواب میں عمران خان کا کہنا تھا کہ ججوں کے احساسات کو مجروح کرنے پر یقین نہیں رکھتے، عمران خان کے الفاظ غیر مناسب تھے تو واپس لینے کےلیے تیار ہیں۔

شوکاز نوٹس کے جواب میں کہا گیا کہ عدالت عمران خان کی تقریر کا سیاق و سباق کے ساتھ جائزہ لے۔

جواب میں کہا گیا کہ پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان نے پوری زندگی قانون اور آئین کی پابندی کی ہے، عمران خان آزاد عدلیہ پر یقین رکھتے ہیں اور استدعا کی کہ ان کے خلاف توہین عدالت کا شوکاز نوٹس واپس لیا جائے۔

جواب میں وضاحت کی گئی کہ مدعا علیہ کو غلط فہمی تھی کہ محترمہ زیبا چوہدری ایک ایگزیکٹو مجسٹریٹ ہیں جو وفاقی حکومت کے حکم پر ایگزیکٹو یا انتظامی فرائض سرانجام دے رہی ہیں۔

مزید پڑھیں: توہین عدالت کیس : عمران خان 31 اگست کو ذاتی حیثیت میں طلب

جواب میں کہا گیا کہ 'اس غلط فہمی کے تحت انہیں مجسٹریٹ کہا گیا تھا، مدعا علیہ کا مطلب عدالتی افسر کو دھمکی دینا یا کوئی ایسی بات کہنا نہیں تھا جس سے عدالتی انتظامیہ کی بدنامی ہو۔

ساتھ ہی پی ٹی آئی کے سربراہ نے اپنے ساتھی کے بارے میں کہا کہ حکومت شہباز گل کے بنیادی حقوق کی 'خلاف ورزی اور انہیں پامال کرنے' پر تلی ہوئی ہے۔

جواب میں استدلال کیا گیا کہ مدعا علیہ کی طرف سے کوئی توہین نہیں کی گئی اور ڈپٹی رجسٹرار نے 20 اگست کو اسلام آباد کے F-9 پارک میں جلسہ عام کے دوران کی گئی تقریر سے چن کر لفظوں کا انتخاب کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ ان الفاظ کو سیاق و سباق سے بالکل ہٹ کر لیا گیا اور پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر یہ تاثر دینے کے لیے چھیڑ دیا گیا کہ گویا مدعا علیہ (عمران خان) قانون کو اپنے ہاتھ میں لینا چاہتے ہیں۔

پی ٹی آئی چیئرمین نے کہا کہ ان کی تقریر سے یہ غلط تاثر لیا گیا کہ وہ عدلیہ کو نیچا دکھانا چاہتے ہیں جبکہ تقریر کا مقصد دراصل 'قانون کی حکمرانی اور بنیادی حقوق کے بارے میں شعور اجاگر کرنا' تھا۔

جواب میں تسلیم کیا گیا کہ ہائی کورٹ نے توہین عدالت کی کارروائی ماتحت عدلیہ کو درپیش خطرات کے بارے میں اپنے خدشات کو دور کرنے کے لیے شروع کی ہے لیکن یہ بھی کہا کہ ان کارروائیوں کو 'وفاقی حکومت کے فائدے کے لیے سیاسی پوائنٹ اسکورنگ' کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: توہین عدالت کیس: عمران خان کو اسلام آباد ہائیکورٹ کا شوکاز نوٹس ارسال

پی ٹی آئی سربراہ نے الزام لگایا کہ توہین عدالت کی کارروائی ان اخبارات کے تراشوں کی بنیاد پر شروع کی گئی جو ان کے خلاف تھے۔ جواب میں کہا گیا کہ مدعا علیہ 'جسمانی تشدد کا منظر' دیکھنے اور پولیس کی حراست میں شہباز گل کے ساتھ 'جنسی بدسلوکی' کے بارے میں سننے کے بعد پریشان ہو گیا تھا۔

توہینِ عدالت کی کارروائی

خیال رہے کہ 27 اگست کو سابق وزیراعظم عمران خان کے خلاف توہین عدالت کیس کی سماعت کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہرمن اللہ کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ تشکیل دیا گیا تھا۔

یاد رہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے خاتون جج کو دھمکانے پر توہین عدالت کیس کی سماعت کے دوران عمران خان کو شوکاز نوٹس جاری کرتے ہوئے 31 اگست کو ذاتی حیثیت میں طلب کیا تھا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ میں عمران خان کے خلاف خاتون جج زیبا چوہدری کو دھمکی دینے پر توہین عدالت کیس کی سماعت جسٹس محسن اختر کیانی کی سربراہی میں جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب اور جسٹس بابر ستار پر مشتمل لارجر بینچ نے کی تھی۔

لارجر بینچ نے اس معاملے پر 3 سے زیادہ ججوں پر مشتمل بینچ تشکیل دینے کے لیے کیس چیف جسٹس کو بھجوا دیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: اسلام آباد ہائیکورٹ: عمران خان کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کا فیصلہ

اسلام آباد ہائی کورٹ کے حکم پر 26 اگست کو سابق وزیر اعظم اور چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان کو توہین عدالت کا شوکاز نوٹس ارسال کیا گیا۔

ہائی کورٹ کی جانب سے رجسٹرار آفس نے عمران خان کو توہین عدالت کا شوکاز نوٹس ارسال کیا تھا۔

شوکاز نوٹس کے متن میں کہا گیا کہ عمران خان نے خاتون جج کے بارے میں توہین اور دھمکی آمیز تقریر اس وقت کی جب کیس اسلام آباد ہائی کورٹ میں زیر سماعت تھا۔

شوکاز نوٹس میں کہا گیا کہ عمران خان نے توہین اور دھمکی آمیز تقریر من پسند فیصلہ لینے کے لیے کی اور اس تقریر کے ذریعے انصاف کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کی۔

شوکاز نوٹس میں مزید کہا گیا کہ عمران خان نے خاتون جج کو دھمکی دے کر کریمنل اور جوڈیشل توہین کی۔

شوکاز نوٹس میں عمران خان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا گیا کہ 31 اگست کو پیش ہو کر بتائیں کہ آپ کے خلاف توہین عدالت کارروائی کیوں نہ کی جائے۔

انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت درج مقدمہ خارج کرانے کے لیے درخواست دائر

سابق وزیر اعظم و چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان نے الگ درخواست میں انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت درج مقدمہ خارج کرانے کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کر لیا۔

انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت درج مقدمہ خارج کرانے کے لیے عمران خان نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دائر کر دی۔

مزید پڑھیں: خاتون مجسٹریٹ، آئی جی، ڈی آئی جی اسلام آباد کے خلاف کیس کریں گے، عمران خان

عمران خان کا درخواست میں کہنا تھا کہ میرے خلاف دہشت گردی کا مقدمہ غیر قانونی قرار دیا جائے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کو 1992 میں کرکٹ ورلڈ کپ جتوایا ، اس کے علاوہ دیگر فلاحی منصوبے لگائے۔

عمران خان کا درخواست میں مزید کہنا تھا کہ بطور وزیر اعظم میں نے امن قائم کیا اور امریکی فوجیوں کا افغانستان سے انخلا یقینی بنایا۔

انہوں نے کہا کہ کورونا وبا کے دوران صحتی مراکز کے لیے مؤثر اقدامات کیے۔

خیال رہے کہ 21 اگست کو سابق وزیر اعظم و چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان کے خلاف اعلیٰ سرکاری افسران کو دھمکیاں دینے کے خلاف انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت اسلام آباد میں مقدمہ درج کیا گیا تھا۔

پولیس ایف آئی آر کے مطابق گزشتہ روز اسلام آباد کے علاقے صدر کے مجسٹریٹ علی جاوید کی مدعیت میں عمران خان کے خلاف اسلام آباد کے تھانہ مرگلہ میں انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔

واضح رہے کہ عمران خان نے 20 اگست کو اسلام آباد میں ریلی سے خطاب کرتے ہوئے شہباز گل کا جسمانی ریمانڈ دینے والی ایڈیشنل جج زیبا چوہدری کو مخاطب کرکے کہا تھا کہ آپ کے خلاف کارروائی کریں گے۔

شہباز گل کی گرفتاری اور جسمانی ریمانڈ کے حوالے سے بات کرتے ہوئے عمران خان نے کہا تھا کہ شہباز گل کو جس طرح اٹھایا اور دو دن جو تشدد کیا، اس طرح رکھا جیسا ملک کا کوئی بڑا غدار پکڑا ہو، آئی جی اسلام آباد اور ڈی آئی جی کو ہم نے نہیں چھوڑنا، ہم نے آپ کے اوپر کیس کرنا ہے۔

انہوں نے کہا تھا کہ مجسٹریٹ زیبا صاحبہ آپ بھی تیار ہوجائیں، آپ کے اوپر بھی ہم ایکشن لیں گے، آپ سب کو شرم آنی چاہیے کہ ایک آدمی کو تشدد کیا، کمزور آدمی ملا اسی کو آپ نے یہ کرنا تھا، فضل الرحمٰن سے جان جاتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ شہباز گل کے ساتھ انہوں نے جو کیا، انہوں نے قانون کی بالادستی کی دھجیاں اڑا دیں، آج اپنے وکیلوں سے ملاقات کی ہے، آئی جی، ڈی آئی جی اور ریمانڈ دینے والی اس خاتون مجسٹریٹ پر کیس کریں گے۔

تبصرے (2) بند ہیں

انجنیئر حا مد شفیق Aug 30, 2022 09:33pm
یو ٹرن حان
SHAHID SATTAR Aug 31, 2022 12:06pm
Let the Honorable judges decide your fate as any common citizen of this country.

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024