• KHI: Asr 4:12pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:27pm Maghrib 5:04pm
  • ISB: Asr 3:26pm Maghrib 5:04pm
  • KHI: Asr 4:12pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:27pm Maghrib 5:04pm
  • ISB: Asr 3:26pm Maghrib 5:04pm

پاکستان بمقابلہ بھارت: ایشیا کپ کے اہم میچ کے 7 زیربحث نکات

شائع August 28, 2022
بھارتی کپتان ویرات کوہلی میچ ٹاس کے لیے سکہ پلٹ رہے ہیں جبکہ پاکستانی کپتان بابر اعظم اسے دیکھ رہے ہیں —فوٹو: اے ایف پی
بھارتی کپتان ویرات کوہلی میچ ٹاس کے لیے سکہ پلٹ رہے ہیں جبکہ پاکستانی کپتان بابر اعظم اسے دیکھ رہے ہیں —فوٹو: اے ایف پی

کھیل کے میدان میں روایتی حریف پاکستان اور بھارت آج شام ‘ایشیا کپ 2022’ میں اپنی برسوں پرانی کھیل کی روایتی جنگ ایک مرتبہ پھر شروع کرنے جارہے ہیں مگر اس بڑے مقابلے سے قبل چند ایسی خاص چیزیں ہیں جن کے بارے میں عام شائقین کو جاننے کی ضرورت ہے، وہ یہ ہیں:

1- شاہین نہیں تو پارٹی کیسی؟

پاکستان کے لیفٹ آرم فاسٹ باؤلر نے طویل عرصے سے بھارتی بلے بازوں کو الجھن میں رکھا ہوا ہے، جیسا کہ دونوں ٹیمیں گزشتہ سال ٹی20 ورلڈ کپ میں ملی تھیں، تو شاہین آفریدی کی ڈبل وکٹ کے حصول نے اس میچ کا پانسہ پلٹ دیا تھا۔

مزید پڑھیں: شکست سے سبق سیکھا ہے لیکن پاکستان کے خلاف کھیلنا چیلنج ہوگا، روہت شرما

لیکن شاہین آفریدی پہلے باؤلر نہیں جنہوں نے بھارتی بلے بازوں کو پریشان کیا ہو اس سے قبل وسیم اکرم، محمد عامر، جنید خان اور وہاب ریاض سمیت سب نے بھارتی بلے بازوں کے خلاف یادگار باؤلنگ کی ہوئی ہے یہاں تک کہ انگلینڈ کے ریس ٹوپلی نے جولائی میں بھارت کے خلاف 6 وکٹیں حاصل کر لی تھیں۔

دوسری جانب، بدقسمتی سے پاکستانی ٹیم میں اس وقت ٹورنامنٹ کے لیے لیفٹ آرم باؤلرزنہیں ہیں اور آرتھوڈوکس رائٹ آرمرز باؤلرزکی کثرت سے باؤلنگ یونٹ بہت کمزوردکھائی دیتی ہے۔

2- بھارتی ٹیم میں بھی اہم کھلاڑی نہیں

اگرچہ پاکستانی ٹیم میں شاہین آفریدی اور عماد وسیم کی کمی محسوس کی جا رہی ہے تو دوسری جانب بھارتی ٹیم میں بھی وہ وقت قوت نظر نہیں آ رہی ہے، جیسا کہ جسپریت بمراہ اور ہرشل پٹیل زخمی ہونے کی وجہ سے ٹیم سے باہر ہیں۔

یہ بھی پڑھیں : فٹنس مسائل کے باوجود بابر اعظم، بھارت کے خلاف جیت کے لیے پراعتماد

اگرچہ یہ دھچکا بڑے بحران کا باعث ہوسکتا ہے لیکن پاکستان کے خلاف اس کا عام ریکارڈ کچھ اور ہی بتاتا ہے۔

بھارٹی ٹیم کا ٹاپ آرڈر اور مضبوط ہونے کے باوجود بے چین ہے، روہت شرما اور ویرات کوہلی آزادانہ طور پر رنز نہیں بنا پا رہے ہیں جبکہ کے ایل راہول نے ماضی میں مشکلات کے باجود بھی کمال بیٹنگ کی تھی۔

3- سوریہ کمار یادیو بھاری پڑ سکتے ہیں

پاکستانیوں کی نظریں زیادہ ویرات کوہلی اور روہت شرما سمیت کے ایل راہول پر ہیں مگر جو پاکستانی باؤلرزپر بھاری ہوسکتے ہیں وہ سوریہ کمار یادیو ہیں جو بابر اعظم کے بعد ٹی 20 میں بلے بازی میں دوسرے نمبر پر ہیں۔

غیر معمولی صلاحیتوں کے حامل سوریہ کمار یادیو اپنے اسٹروک پلے کی ہوشیاری کی وجہ سے جانے جاتے ہیں جو باؤلر کے ذہن اور مقرر کردہ فیلڈ کے ساتھ کھیلتے ہیں، اس لیے اس غیرمعمولی مہارت رکھنے والے بلے باز سے جلد چھٹکارا حاصل کرنا اتنا ہی اہم ہوگا جتنا دوسرے بڑے ناموں سے چھٹکارا پانا چاہیے۔

4- پاکستان کے پاس پلان ‘بی’ ہونا چاہیے

کوئی وکٹ کھوئے بغیر 150 سے زائد رنز کا حصول ہر وقت ممکن نہیں ہوتا، یہ گزشتہ برس ایک اچھے دن میں ہوا تھا لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اس پر مہر لگی ہو۔

پاکستان کو ذہنی طور پر تیار رہنا چاہیے کہ ممکنہ طور پر اوپنرز دیے گئے ہدف کے مطابق کارکردگی نہیں دکھاپائیں، بابراعظم کی ٹیم ایک بہترین ٹیم ہے۔

میچ کے لیے ٹاپ آرڈر کی ناکامی ایک پہلو ہوتا ہے جو کسی بھی وقت سامنے آسکتا ہے اگر پاکستان کے ساتھ ایسا نہیں ہوتا ہے تو اس کی وجہ قابل اعتماد بابراعظم، محمد رضوان اور فخر زمان ہیں۔

اگر کہیں ایسا ہوا تو ٹیم کے پاس ایک پلان بی ہونا چاہیے اور آصف علی، حیدرعلی، خوشدل شاہ اور افتخار احمد جیسے نام کو بڑے اسکور کے لیے تیار رہنا چاہیے۔

5- حسن علی کے انتخاب کا جواز معمولی ہے

اسکواڈ میں حسن علی کا انتخاب بدستور ایک تنازع ہے، ان کی خراب فارم کسی سے پوشیدہ نہیں اور ان کو منتخب نہیں کرنے وجہ مکمل طور پر معقول تھی۔

تاہم انہیں بغیر کسی کوشش کے واپس لایا گیا ہے اور یہ کسی بحران کا پیش خیمہ ہوسکتا ہے۔

مزید پڑھیں: ایشیا کپ: بھارتی کوچ راہول ڈریوڈ کورونا سے صحت یاب، ٹیم کا چارج سنبھال لیا

میرحسن اس وقت معقول انتخاب ہوسکتے تھے، جو بائیں ہاتھ سے فاسٹ باؤلنگ کرتے ہیں اور ڈومیسٹک میں اچھی کارکردگی دکھائی ہے۔

6- دونوں ٹیموں میں وکٹ لینے والے باؤلرز کی کمی ہے

بھونیشورکمار، ہارdک پانڈیا، روی بشنوئی، یوزویندر چاہل، اویش خان، ارشیپ سنگھ اور روی چندرن اشون ایسے نام نہیں جو پاکستانی بلے بازوں کی نیندیں اڑانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

بھارتی ٹیم میں وکٹ لینے والے کھلاڑی زیادہ نہیں ہیں اور اس وضاحت کے ساتھ کہ پاکستان کی حکمت عملی کو بھی اس پر اثرانداز ہونا چاہیے اور غیرضروری وکٹیں بچانے کے بجائے ان سے اس وقت مستفید ہونا چاہیے جب وہ خود ایسے امکانات پیدا کریں۔

اسی طرح، اس بات کا تعین کرنا بھی مشکل ہے کہ شاہین شاہ آفریدی کے بغیر پاکستانی ٹیم وکٹیں کیسے لے سکتی ہے۔

مزید پڑھین: ایشیا کپ 2022: روایتی حریفوں پاکستان اور بھارت کا ٹاکرا آج دبئی میں ہوگا

پاکستانی کھلاڑی نسیم شاہ اس بات کے لیے پرعزم ہے مگراس سطح پر ثابت نہیں ہوا جبکہ حارث رؤف اب بھی اس کے برعکس ہوسکتے ہیں، حسن علی حسن علی ہیں جبکہ شاداب خان اور پارٹ ٹائمرز کی پسندیدگی تو کرسکتے ہیں لیکن وکٹ کے کسی بھی ممکنہ مقابلے میں شیر کا کردارادا نہیں کرسکتے۔

7- الوداع موقع

پاکستان کے غالب ہونے کے اثرات اس جیت کے بعد محسوس کیے جا سکتے ہیں، موقع کو ختم کر دیا گیا ہے اور اس سے کہیں زیادہ شائستہ انداز اپنایا گیا ہے، جب غالب فاتحین کو آخرکار محسوس ہو کہ کس کو شکست ہوئی ہے تو پھر ایسا ہی ہوتا ہے۔

یہی کام لینوکس لیوس کی شکست کے بعد مائیک ٹائسن اور خبیب نورماگومیدوف کی شکست کے بعد کونورمیک گریگر کے ساتھ ہوا تھا۔

کارٹون

کارٹون : 22 دسمبر 2024
کارٹون : 21 دسمبر 2024