‘کسی سال پانی کی بوند کو ترسیں تو کسی سال اسی پانی سے پناہ مانگیں’
ہم نے اپنی 40 سال کی زندگی میں یہ دیکھا ہے کہ اوسطاً ہر 6 سے 7 سال بعد ہمارے ملک کو سیلاب سے واسطہ پڑتا ہے۔ خس و خاشاک کی طرح بہتے مویشی، سامان اور بنیادی ضروریات کے لیے تڑپتے انسان ہر چند سال کے بعد المیے کی نئی تصاویر بنے نظر آتے ہیں۔
ماضی میں دیکھے گئے سیلاب اور اس سال کے سیلاب میں ایک بڑا فرق ہے۔ پہلے اس کو صرف ٹی وی اسکرین پر دیکھتے تھے، اب سوشل میڈیا کے توسط سے اپنے قریبی دوستوں، ان کے گھروں، گاؤں اور گلیوں کو بہت قریب سے ڈوبتا ہوا دیکھ رہے ہیں۔
اکبر بلوچ جو کم ہی فیس بک پر آتا ہے اس کا ایک اسٹیٹس اب بھلائے نہیں بھولتا کہ ‘میرا گاؤں ڈوب گیا؟’ کیا کوئی حرف تسلی، کیا افسوس کا کوئی ایسا لفظ ایجاد ہوا ہے جو ان پسماندگان کے دکھ کا ازالہ کرسکے؟
سیلاب کے پہلے ریلے کے ساتھ ڈی جی خان یونیورسٹی کے پروفیسر اور ہمارے دوست عمران لودھی نے کمر ہمت باندھی کہ وہ اس مشکل گھڑی میں سب کاموں کو چھوڑ کر وسیب کے لوگوں کی مدد کریں گے۔ اپنے تئیں اور چند دوستوں کے تعاون سے ہم ان کے اس مشن کا حصہ بھی ہیں لیکن ایک سوال میرے ذہن میں بار بار آتا رہا کہ اس عفریت سے نمٹنے کا کوئی راستہ تو ہوگا۔ یہ جو ہر عشرے میں ایک بار گھروں، گلیوں کو مسمار کر جاتا ہے اسے روکنے کا کوئی ذریعہ تو ہوگا۔
اس سے پہلے کہ اس سیلاب کو سمجھا جائے، ہم اس علاقے کے خدوخال کو جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔ ڈی جی خان اور راجن پور پہاڑوں کے ایک سلسلے کے پاس ہیں جنہیں کوہ سلیمان کہہ سکتے ہیں۔ جب پہاڑوں پر بارشیں برستی ہیں تو یہ پانی نالوں کی صورت میں ڈھلوان کی طرف بڑھتا ہے اور اپنے قدرتی راستوں سے ہوتا ہوا دریائے سندھ میں جا گرتا ہے۔ کوہ سلیمان کے پہاڑ قراقرم جیسے پتھریلی نہیں ہیں۔ اس لیے یہ پانی اپنے ساتھ بہت مٹی اور ذرات لے کر آتا ہے۔
راجن پور میں 2 بڑے سیلابی نالے ہیں، ایک کاہا سلطان اور دوسرا چھاچھڑ، اب قدرتی طور پر سوچیں تو اگر کچھ ایسا انتظام ہوجائے کہ ان 2 مقامات پر جمع ہونے والے پانی کو ذخیرہ کرنے کا بندوبست ہوجائے تو نہ یہ پانی ضائع ہوگا اور نہ ہی تباہی مچا سکے گا۔
اس معاملے کو مزید سمجھنے کے لیے راجن پور کے قبائلی علاقوں میں پولیٹیکل اسسٹنٹ کے فرائض سرانجام دینے والے بیوروکریٹ اور زرعی یونیورسٹی سے فارغ التحصیل عمران منیر صاحب سے بات کی۔
انہوں نے بتایا کہ ‘جب وہ اس علاقے میں تھے تو کاہا سلطان رودکوہی پر مرنج نامی ڈیم بنانے کی تجویز پیش کی گئی تھی۔ اسی طرح چھاچھر رودکوہی پر متعدد چھوٹے چیک ڈیم بنانے کا منصوبہ تھا۔ اس سارے منصوبے کی فزیبیلٹی نیسپاک جیسے معتبر ادارے نے بنائی تھی۔ ڈیم بنانے کے بعد اس میں اکٹھے ہوجانے والے سیڈیمنٹس یا سیلابی مواد کی اسٹڈی محکمہ آب پاشی نے کی تھی اور انہوں نے اس جگہ کو ڈیم کے لیے موزوں قرار دیا تھا۔ ایشین ڈیولپمنٹ بینک اس منصوبے کے لیے قرض دینے پر راضی بھی تھا لیکن سیاسی اشرافیہ کی عدم دلچسپی نے اس سارے منصوبے کو کھٹائی میں ڈال دیا’۔
کچھ سوال جو ہر ذہن میں اٹھتے ہیں کہ وہ کون ہے جو 2022ء میں ایسا علاقہ چاہتا ہے جہاں صرف غریبوں اور جاہلوں کی فصل اُگے۔ کون چاہتا ہوگا کہ ہر 7، 8 سال بعد یہاں سیلاب یونہی تباہی مچاتے رہیں؟
آپ کو یہ بھی معلوم ہوگا کہ اسی راجن پور میں لاکھوں ایکڑ زمین صرف پانی نہ ہونے کی وجہ سے بنجر پڑی ہے۔ کیا اتنا تضاد ہوسکتا ہے کہ کہیں لوگ کسی سال پانی کی بوند بوند کو ترس جائیں اور کسی سال اسی پانی سے پناہ مانگتے پھریں۔ بارش کے پانی کو جمع کرنے اور اسے آبپاشی کے لیے استعمال کرنے کی تکنیک کچھ نئی نہیں اور ہمارے ہمسایہ ممالک میں کامیابی سے اس پر عمل کیا جارہا ہے۔ ہمارے زراعت سے متعلق لوگ اس طرز کی منصوبہ بندی کرسکتے ہیں بشرطیکہ ان کو فنڈ میہا کیے جائیں۔
آج سیلاب زدگان کی آہ و بکا سن کر دل پھٹتا ہے۔ ڈوبتے ہوئے بے سہارا لوگ، بہتے ہوئے مال مویشی اور کھلے آسمان تلے سڑکوں کے کنارے رات گزارنے والے آسمان کی طرف دیکھ رہیں۔ سیکڑوں لوگ مدد کے لیے پیش پیش ہیں لیکن لاکھوں لوگوں کا جو نقصان ہوچکا ہے اس کا ازالہ ناممکن ہے۔
اس وقت جس طرز کا انسانی المیہ جنم لے چکا ہے، اس میں کھانے پینے اور سر چھپانے کا انتظام ہی پہلی ترجیح ہونی چاہیے۔ لیکن جونہی 2، 4 ماہ گزریں گے ساری دنیا بھول جائے گی کہ کیسی تباہی مچی تھی۔ جس درد سے ہم آج گزر رہے ہیں، اس کو یاد رکھتے ہوئے آنے والے وقت کی منصوبہ بندی کیجیے اور طے کرلیں کہ اس طرز کی بڑی تباہی پھر کبھی آنے نہ دیں گے۔
پہاڑوں سے آنے والے ریلوں کی قدرتی گزرگاہوں کی بحالی اور سیلابی پانی کے راستے میں ڈیم بنانے کے علاوہ اس مسئلے کا کوئی اور حل نہیں ہے۔ ہماری سیاسی اشرافیہ اور اربابِ اختیار کو یہ طے کرنا ہے کہ اگلے 5 سال بعد کسی اور سیلاب کا استقبال کرنا ہے یا ان 5 سالوں میں ایسی تیاری کرنی ہے کہ اس طرز کی بڑی تباہی پھر نہ ہونے پائے۔