• KHI: Fajr 5:25am Sunrise 6:42am
  • LHR: Fajr 5:00am Sunrise 6:23am
  • ISB: Fajr 5:07am Sunrise 6:31am
  • KHI: Fajr 5:25am Sunrise 6:42am
  • LHR: Fajr 5:00am Sunrise 6:23am
  • ISB: Fajr 5:07am Sunrise 6:31am

وزارت داخلہ شہباز گل پر تشدد کے الزامات کی انکوائری کرائے، اسلام آباد ہائیکورٹ

شائع August 24, 2022
اسلام آباد ہائیکورٹ نے شہباز گل پر تشدد کی تحقیقات سے متعلق تحریری فیصلہ جاری کردیا — فائل فوٹو: ڈان نیوز
اسلام آباد ہائیکورٹ نے شہباز گل پر تشدد کی تحقیقات سے متعلق تحریری فیصلہ جاری کردیا — فائل فوٹو: ڈان نیوز

اسلام آباد ہائی کورٹ نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما شہباز گِل پر تشدد کی تحقیقات سے متعلق درخواست کا تحریری حکم نامہ جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ شہباز گل پر تشدد کے الزامات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، وزارت داخلہ الزامات کی انکوائری کرائے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے قائم مقام چیف جسٹس عامر فاروق نے 21 صفحات پر مشتمل تحریری حکم نامہ جاری کیا۔

سابق وزیر اعظم عمران خان کے چیف آف اسٹاف شہباز گل کو اسلام آباد پولیس نے بغاوت اور عوام کو ریاستی اداروں کے خلاف اکسانے کے الزام میں 9 اگست کو حراست میں لیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: شہباز گِل کے جسمانی ریمانڈ کے خلاف درخواست، مداخلت نہیں کر سکتے، اسلام آباد ہائیکورٹ

اسلام آباد ہائی کورٹ کے قائم مقام چیف جسٹس عامر فاروق کی عدالت نے شہباز گل کا مزید جسمانی ریمانڈ منظور کرنے سے متعلق مجسٹریٹ احکامات کے خلاف درخواست پر سماعت کی تھی۔

عدالت نے وزارت داخلہ کو شہباز گل پر تشدد کے معاملے کی تحقیقات کرانے کے احکامات جاری کیے ہیں۔

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ آئی جی اسلام آباد نے شہباز گل پر تشدد کی تردید کی، شہباز گل کی اڈیالہ جیل پہنچنے پر ان کا ظاہر معائنہ رجسٹر ریکارڈ میں درج کیا گیا۔

اسلام ہائی کورٹ کے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ میڈیکل افسر نے رجسٹر میں لکھا کہ شہباز گل کے جسم پر متعدد زخم اور نشانات موجود تھے، قیدیوں سے متعلق رولز کے مطابق شہباز گل کا فوری طبی معائنہ ہونا چاہیے تھا۔

مزید پڑھیں: عدالت کا شہباز گل کو پمز ہسپتال بھیجنے اور دوبارہ میڈیکل کرانے کا حکم

جسٹس عامر فاروق نے فیصلے میں لکھا کہ قانون کے مطابق جیل حکام پابند تھے کہ سیشن جج اور انچارج پراسیکیوشن کو رپورٹ کرتے، جیل حکام نے شہباز گل پر تشدد کی سیشن جج نہ ہی ایڈووکیٹ جنرل کو اطلاع دی۔

حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ شہباز گل کے معائنے کے لیے 13 اور 15 اگست کو میڈیکل بورڈ تشکیل دیا گیا، پولیس کے مطابق شہباز گل نے میڈیکل بورڈ سے طبی معائنہ کرانے سے انکار کیا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا کہ میڈیکل بورڈ نے شہباز گل کی صحت پر رپورٹ دی، تاہم تشدد کا کوئی ذکر نہیں کیا، شواہد اکٹھے کرنے کی آڑ میں کسی ملزم پر تشدد کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔

حکم نامے میں قرار دیا گیا ہے کہ آئین اور عدالتیں قیدیوں کے حقوق اور تشدد سے بچانے کے محافظ ہیں، شہباز گل پر تشدد کے الزامات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔

یہ بھی پڑھیں: شہباز گِل کو دوبارہ جسمانی ریمانڈ پر بھیجنے کا فیصلہ اسلام آباد ہائیکورٹ میں چیلنج

حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ وزارت داخلہ شہباز گل تشدد الزامات پر انکوائری کرائے، وزارت داخلہ ریٹائرڈ ہائی کورٹ جج کی سربراہی میں انکوائری افسر مقرر کرے۔

اسلام آباد ہائی نے اپنے حکم نامے میں کہا کہ شہباز گل کے جسمانی ریمانڈ کے دوران ایس ایس پی رینک کا افسر سپروائز کرے گا، سپروائز کرنے والا افسر یقینی بنائے کہ ریمانڈ کے دوران ملزم پر تشدد نہ ہو۔

شہباز گل کا متنازع بیان

9 اگست کو پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) نے نجی ٹی وی چینل ‘اے آر وائی’ نیوز کو اپنے شو میں سابق وزیرِا عظم عمران خان کے ترجمان شہباز گل کا تبصرہ نشر کرنے پر شوکاز نوٹس جاری کیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ ان کا بیان ‘مسلح افواج کی صفوں میں بغاوت کے جذبات اکسانے کے مترادف تھا’۔

اے آر وائی کے ساتھ گفتگو کے دوران ڈاکٹر شہباز گل نے الزام عائد کیا تھا کہ حکومت، فوج کے نچلے اور درمیانے درجے کے لوگوں کو تحریک انصاف کے خلاف اکسانے کی کوشش کر رہی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: شہباز گل مزید 2 روزہ جسمانی ریمانڈ پر اسلام آباد پولیس کے حوالے

ان کا کہنا تھا کہ ‘فوج میں ان عہدوں پر تعینات اہلکاروں کے اہل خانہ عمران خان اور ان کی پارٹی کی حمایت کرتے ہیں جس سے حکومت کا غصہ بڑھتا ہے’۔

انہوں نے یہ الزام بھی عائد کیا تھا کہ حکمراں جماعت مسلم لیگ (ن) کا ‘اسٹریٹجک میڈیا سیل’ پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان اور مسلح افواج کے درمیان تفرقہ پیدا کرنے کے لیے غلط معلومات اور جعلی خبریں پھیلا رہا ہے۔

شہباز گل نے کہا تھا کہ جاوید لطیف، وزیر دفاع خواجہ آصف اور قومی اسمبلی کے سابق اسپیکر ایاز صادق سمیت دیگر حکومتی رہنماؤں نے ماضی میں فوج پر تنقید کی تھی اور اب وہ حکومتی عہدوں پر ہیں۔

پیمرا کی جانب سے نوٹس میں کہا گیا کہ اے آر وائی نیوز پر مہمان کا دیا گیا بیان آئین کے آرٹیکل 19 کے ساتھ ساتھ پیمرا قوانین کی بھی خلاف ورزی ہے۔

کارٹون

کارٹون : 5 نومبر 2024
کارٹون : 4 نومبر 2024