• KHI: Partly Cloudy 25°C
  • LHR: Clear 19.1°C
  • ISB: Partly Cloudy 13.9°C
  • KHI: Partly Cloudy 25°C
  • LHR: Clear 19.1°C
  • ISB: Partly Cloudy 13.9°C

”عراق اور افغان جنگ نے مجھے پاگل کردیا تھا“

شائع August 24, 2013

us-soldier-who-killed-afghan-villagers-gets-life-without-parole 670
اس حملے میں اپنے خاندان کے گیارہ افراد کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے کھودینے والے حاجی محمد وزیر نے بتایا کہ اس حملے نے ان کی زندگی مکمل طور پر تباہ کر دی ہے۔ —. فوٹو رائٹرز

واشنگٹن: ایک امریکی فوجی جسے اُس کی خدمات پر کئی اعزازات سے نوازا جاچکا تھا، کو  16 غیر مسلح افغان شہریوں کو ہلاک کرنے کے جُرم میں کل بروز جمعہ 24 اگست کو عمرقید کی سزا سنائی گئی، اس کے لیے پیرول پر رہائی کا امکان بھی ختم کردیا گیا ہے۔ گزشتہ سال دو خون آشام راتوں میں اس کے ہاتھوں قتل ہونے والے 16 افراد میں زیادہ تر بچے اور خواتین تھیں، اور اس نے اپنی فوجی چوکی سے  اچانک اُن پر حملہ کیا تھا۔

اس سے قبل امریکی سارجنٹ رابرٹ بیلس نے اپنے اس عمل کو ”بزدلانہ کارروائی“ قرار دیتے ہوئے ہوئے معافی مانگی تھی۔ واشنگٹن کے ایک فوجی حراست مرکز میں بیلس کے مقدمے کی  سماعت ہو ئی۔

رابرٹ بیلس جو عراق اور افغانستان میں چار مرتبہ لڑائی کا تجربہ رکھتے ہیں، نے تسلیم کیا تھا کہ قندھار کے صوبے میں مارچ 2012 کے دوران ایک فیملی کمپاؤنڈ میں دیہاتیوں پر حملہ کرکے انہیں قتل کردیا تھا۔

39 سالہ رابرٹ بیلس نے کہا، ”11 مارچ 2012ء کو حملے کے وقت وہ بہت زیادہ گھبرائے ہوئے  تھے۔“ رابرٹ بیلس دو بچوں کے والد ہیں، انہوں نے جون میں موت کی سزا سے بچنے کے لئے جون میں اپنا گناہ قبول کر لیا تھا۔

جمعہ کو چھ فوجی اہلکاروں پر مشتمل جیوری نے فیصلہ کرنے سے پہلے کم ازکم دو گھنٹے غور کیا اور پھر یہ فیصلہ کیا کہ اب رابرٹ کواپنی زندگی کے بقیہ دن جیل میں گزارنے چاہئیں۔

جب رابرٹ بیلس امریکی ریاست واشنگٹن کی فوجی عدالت میں پیش ہوئے تو انہوں نے نیلے رنگ کا فوجی یونیفارم پہن رکھا تھا، جب ان کے سامنے فیصلہ سنایا گیا تو ان کا چہرہ جذبات سے عاری تھا۔ لیکن ان کی والدہ گریہ وزاری کررہی تھیں اور ان کے جسم پر لرزہ سا طاری ہوگیا تھا۔

فوج کے وکیل نے کہا کہ رابرٹ بیلس نے جو کچھ کیا تنہا کیا اور پورے ہوش وہواس کے ساتھ کیا، ان کے پاس پستول، رائیفل اور گرینیڈ لانچر بھی تھا، وہ دونوں راتوں کے دوران  اپنی فوجی چوکی سے نکلے اور واپسی پر انتہائی طیش کے عالم میں اپنے ساتھی سے کہا کہ میں نے کچھ لوگوں کو قتل کردیا ہے۔

رابرٹ بیلس نے جمعرات کے روز سماعت کے دوران کہا تھا ”میرے ہاتھوں جو لوگ مارے گئے ہیں، میں اُن کے خاندان کے افراد سے معافی مانگنا چاہتا ہوں۔ آج میں سوچتا ہوں کہ کاش میں ان ہلاک ہونے والوں کو کسی طرح دنیا میں واپس لا سکتا۔“

انہوں نے عدالت میں کہا تھا کہ میں جانتا ہوں کہ اب میرے لیے صرف معافی مانگنا ہی کافی نہیں ہوگا، لیکن پھر بھی میں سب سے معافی مانگتا ہوں۔“

ویتنام کی جنگ کے بعد جب کہ افغانستان میں خانہ جنگی کو اب ایک دہائی سے زیادہ کا عرصہ گزرچکا ہے اور امریکہ افغان تعلقات میں جاری کشیدگی میں کمی دیکھنے میں آرہی ہے، اس  وقت ایک سرکش امریکی سپاہی کے ہاتھوں بے ضررشہریوں کی ہلاکت کا ایک بدترین کیس سامنے آیا ۔

فوجی وکیل لیفٹیننٹ کرنل جے مورس نے اپنے اختتامی دلائل میں جیوری کو بتایا کہ ”مجرم رابرٹ نے ایک نسل کو ختم کردیا اور کئی زندگیاں ہمیشہ کے لیے برباد کردیں۔“

وکیل صفائی نے اپنے دلائل میں کہا تھا کہ رابرٹ بیلس کا اس طرح جرم قبول کر لینا متنازعہ ہے، کیونکہ جیل سے اپنی بیوی کو کیے گئے ایک فون کال کی ریکارڈنگ کے مطابق اس کیس کی بحث کرتے ہوئے وہ ہنس رہے تھے۔

رابرٹ بیلس نے جمعرات کو یہ اعتراف کیا تھا کہ ”بہت زیادہ شراب نوشی اور اندر ہی اندر کڑھتے رہنے اور ہر وقت خود پر غصہ کرتے رہنے سے میں پاگل ہوئے جا رہا تھا۔“

انہوں نے عدالت کو بتایا کہ ”میں اپنے چوتھے فوجی مشن کے دوران منشیات اور شراب نوشی کی لت میں مبتلا ہوچکاتھا، اور اسی دوران مجھ سے ان لوگوں کا قتل ہوا۔“

وکیل صفائی نے زور دیا کہ رابرٹ عراق اور افغانستان میں اپنی تعیناتی کی وجہ سے بہت زیادہ دباؤ میں تھے اور بریک ٖڈاؤن میں مبتلا ہوگئے تھے، جس کے نتیجے میں ان سے یہ جرم سرزد ہوئے۔ انہوں نے بتایا کہ رابرٹ صوبہ قندھار سے نکلنے سے پہلے پوسٹ ٹرامک اسٹریس ڈس آرڈر اور دماغ پر لگنے والی چوٹ سے متاثر تھے۔

رابرٹ کے وکیل جون ہنری براؤن نے ایک مرتبہ کہا تھا کہ اگر مقدمے میں سزائے موت نہیں دی گئی تو سمجھیے کہ ہم نے مقدمہ جیت لیا۔

نیو انگلینڈ پے ٹريٹس فٹ بال کلب کے سابق پیشہ ور کھلاڑی مارک ایڈورڈز بھی سارجنٹ بیلس کی طرف سے  گواہ کے طور پر عدالت میں پیش ہوئے، انہوں نے کہا، ”امریکہ میں ہائی اسکول کی تعلیم کے وقت سارجنٹ رابرٹ بیلس ایک اثر انگیز قیادت کے حامل فرد تھے۔“ ان کے علاوہ رابرٹ بیلس کے بڑے بھائی 55 برس کے ولیم بیلس نے بھی ان کے حق میں بہت سی باتیں کیں۔ انہوں نے کہا ”میں نے رابرٹ بیلس سے بہتر باپ آج تک نہیں دیکھا ہے، اُس کے بچے اس کے ساتھ بہت محبت کرتے ہیں، اگر آپ اس کے بچوں کو یہاں لائیں تو وہ دوڑ کر اس کے پاس چلے جائیں گے۔“

عراق میں تعیناتی کے دوران رابرٹ بیلس کے قریب رہنے والے میجر برینٹ كلیمر کا کہنا تھا کہ ”بیلس ایسی سفاکانہ حرکت کرسکتے ہیں، اس بات پر میں کبھی یقین نہیں کر سکتا تھا۔“

اس سے پہلے جیوری نے اس کیس کو تفصیل سے سنا تھا کہ کس طرح رابرٹ بیلس نے قندھار صوبے میں دو گاؤں پر حملہ کر کے زیادہ تر خواتین اور بچوں کو گولیوں سے بھون ڈالا تھا۔

کورٹ مارشل کی کارروائی میں شرکت کے لیے امریکی فوج کی طرف سے نو افغان شہریوں کو امریکہ لایا گیا تھا، انہوں نے بتایا کہ کس طرح اس قتل عام کے واقعہ نے ان کی زندگی مکمل طور پر تبدیل کر دیا تھا۔

اس حملے میں اپنے خاندان کے گیارہ افراد کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے کھودینے والے حاجی محمد وزیر نے بتایا ”اس حملے نے ان کی زندگی مکمل طور پر تباہ کر دی ہے۔“

امریکی حکومت نے معاوضے کے طور پر وزیر کو پانچ لاکھ پچاس ہزار ڈالر کی رقم فراہم کی۔ متاثرہ خاندانوں کو کل تقریبا ایک ملین ڈالر کی ادائیگی امریکی حکومت کی جانب سے کی گئی۔

کارٹون

کارٹون : 24 دسمبر 2025
کارٹون : 23 دسمبر 2025