بغاوت کا کیس: شہباز گل کا 2 روزہ جسمانی ریمانڈ منظور
اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ نے بغاوت اور عوام کو ریاستی اداروں کے خلاف اکسانے کے مقدمے میں رہنما پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) شہباز گِل کا مزید 2 روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کرلیا۔
شہباز گل کو سخت سیکیورٹی میں پمز ہسپتال سے اسلام آباد ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ لایا گیا، اس موقع پر اسلام آباد کچہری میں سیکیورٹی ہائی الرٹ کردی گئی تھی، اسلام آباد پولیس اور ایف سی کے اہلکاروں کی بھاری نفری کچہری میں موجود تھی۔
سابق وزیر اعظم عمران خان کے چیف آف اسٹاف شہباز گل کو اسلام آباد پولیس نے بغاوت اور عوام کو ریاستی اداروں کے خلاف اکسانے کے الزام میں 9 اگست کو حراست میں لیا تھا۔
عدالتی حکم کے مطابق ڈیوٹی مجسٹریٹ ملک امان کی عدالت میں شہباز گل کی میڈیکل رپورٹ پیش کی گئی، شہباز گل سے 5 وکالت نامے دستخط کروائے گئے۔
یہ بھی پڑھیں: شہباز گِل کا مزید جسمانی ریمانڈ منظور کرنے کےخلاف درخواست پر فیصلہ محفوظ
جج نے تفتیشی سے استفسار کیا کہ فائل کدھر ہے، اگر آپ راستہ نہیں دیں گے تو تفتیشی کیسے فائل پہنچائے گا، جج نے شہباز گل کے وکیل سے استفسار کیا آپ کیا ملزم کی طرف سے ہیں۔
اس موقع پر عدالت نے اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا کہ ملزم ہے، فائل نہیں ہے، اسے کون لے کر آیا ہے جس پر وکیل شہباز گل نے کہا کہ ریکارڈ اسلام آباد ہائی کورٹ میں ہے، وہاں پر فیصلہ محفوظ ہوا ہے، ہماری استدعا ہے کہ کیس کی سماعت میں وقفہ کیا جائے۔
اس موقع پر عدالت میں موجود شہباز گل بھی بول پڑے، انہوں نے کہا کہ ایس پی نوشیروان مجھے لے کر آیا ہے، کہا آپ کی ضمانت ہوگئی، مجھے اسکرین شاٹ دکھایا گیا اور کہا گیا کہ ضمانت ہوگئی، مچلکے جمع کرانے ہے، نجی گاڑی میں مجھے بٹھایا گیا اور ادھر لے آئے۔
شہباز گل نے کہا کہ گزشتہ رات سے دیکھیں، میرے ساتھ کیا ہو رہا ہے، جج نے ریمارکس دیے کہ کیا آپ نے ڈاکٹرز کو دکھایا، ہم تو میڈیکل نہیں بتا سکتے۔
مزید پڑھیں: عدالت کا شہباز گل کو پمز ہسپتال بھیجنے اور دوبارہ میڈیکل کرانے کا حکم
شہباز گل نے کہا کہ کل رات سے میں بھوک ہڑتال پر ہوں، مجھ سے کسی کو نہیں ملنے دیا جارہا، کل رات 12 بندے میرے کمرے میں آئے، مجھے پکڑا اور زبردستی کیلا کھلایا اور جوس پلایا۔
انہوں نے بتایا کہ رات 3 بجے پھر 6 سے 7 لوگ آئے، مجھے کھانا کھلانے کی کوشش کی گئی، مجھے زبردستی باندھ کر 10، 12 بندوں نے شیو کی، میں مونچھے نہیں رکھتا، مونچھے چھوڑ دی گئیں، مجھے زبردستی ناشتہ دینے کی کوشش کی گئی۔
جج نے ریمارکس دیے کہ اس کا یہ مطلب تو نہیں آپ بھوک ہڑتال پر چلے جائیں۔
وکلا نے کہا کہ ہائی کورٹ نے حکم دیا ہے کہ وکلا سے ملنے کی اجازت دی جائے لیکن نہیں ملنے دیا جارہا، جج نے ریمارکس دیے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کا حکم نامہ کدھر ہے، اس کو دیکھ کر حکم دوں گا، آپ کہہ رہے ہیں تشدد ہے، اس کو ہتھکڑی نہیں لگائی، پولیس والے اس کے ساتھ نہیں ہیں۔
جج نے ریمارکس دیے کہ یہ اچھی بات ہے کہ اس کی صحت اچھی ہوگئی ہے، شہباز گل کو کمرہ عدالت میں بٹھا دیا جائے۔
یہ بھی پڑھیں: شہباز گل پر مبینہ تشدد، اسلام آباد ہائیکورٹ نے آئی جی سے رپورٹ طلب کرلی
اس دوران شہباز گل کے وکلا کے آنے تک سماعت میں وقفہ کردیا گیا۔
جج نے نائب کورٹ سے استفسار کیا کہ اس کیس کی فائل کدھر ہے، نائب کورٹ نے بتایا کہ وہ ہائی کورٹ میں ہے، ریکارڈ بھی ادھر ہی ہے، جس پر جج نے ریمارکس دیے کہ بغیر ریکارڈ کے ملزم کا میں نے کیا کرنا ہے، نہ مجھے ملزم کو دیکھنا ہے نہ اس نے مجھے دیکھنا ہے۔
جج نے وکیل سے استفسار کیا کہ آپ کیا سمجھتے ہیں فائل آنے تک ملتوی کر دیں؟
وکیل فیصل جدون نے کہا کہ 2 بجے تک انتظار میں رکھ لیں، ہائی کورٹ سے کہا گیا 2 بجے فیصلہ آئے گا، جج نے استفسار کیا کہ کیس کی فائل کدھر ہے، وکیل فیصل جدون نے کہا کہ فائل جج صاحب کے چیمبر میں ہے اور انہوں نے فیصلہ سنانا ہے، جج نے کہا کہ بےشک ملزم کو نہ لے کر آئیں، سماعت ڈیڑھ بجے کرتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: شہباز گل کو تحویل میں لینے کے معاملے پر اسلام آباد اور راولپنڈی پولیس کے درمیان رسہ کشی
جج نے ریمارکس دیے کہ اتنا رش لگا ہوا ہے، جگہ بھی تھوڑی ہے، وکلا نے کہا کہ ہائی کورٹ کا حکم آنے تک آپ شہباز گل کو جیل بھیج دیں، پمز ہسپتال سے ملزم ڈسچارج ہو چکا ہے جس پر جج نے پولیس کو ہدایت کی کہ آپ ڈیڑھ بجے تک آجائیں، ملزم کو یہاں سے لے جائیں۔
اس دوران اسلام آباد کچہری میں پولیس اور میڈیا نمائندوں کے درمیان ہاتھا پائی بھی ہوئی۔
بعد ازاں شہباز گل کے جسمانی ریمانڈ پر سماعت شروع ہوئی، ڈاکٹر بابر اعوان اور فیصل چوہدری بھی جوڈیشل مجسٹریٹ ملک امان کی عدالت میں پہنچ گئے۔
یہ بھی پڑھیں: پی ٹی آئی رہنما شہباز گِل اڈیالہ جیل سے پمز ہسپتال اسلام آباد منتقل
وکیل فیصل چوہدری نے کہا کہ ابھی فیصلہ محفوظ ہے، اس لیے ہم ادھر پیش ہوئے ہیں، ملزم عدالت کا پسندیدہ بچہ ہوتا ہے، پولیس جسمانی ریمانڈ تشدد کے لیے مانگ رہی ہے۔
جج نے ریمارکس دیے کہ میں تو ابھی فائل دیکھ کر ہی فیصلہ کروں گا، شہباز گل کے وکیل نے کہا کہ آپ کے پاس فائل نہیں آئے گی۔
جج نے کہا کہ تفتیشی بتا رہے ہیں، وہ ہائی کورٹ میں ہے اور ریکارد بھی ادھر ہی ہے۔
وکیل بابر اعوان نے کہا کہ ہائی کورٹ نے کوئی ریکارڈ تفتیش کا نہیں رکھا، ہائی کورٹ میں صرف رٹ کی درخواست تھی، میں کچھ نئے حقائق سامنے لانا چاہتا ہو، جب تک ریکارڈ نہیں آتا ملزم کو عدالت پیش کرایا جائے، ہم نے ملاقات کرنی ہے جس پر جج نے ریمارکس دیے کہ صبح جب پیش ہوا تو آپ کے وکلا نے ملاقات کرلی تھی۔
مزید پڑھیں: شہباز گِل کو دوبارہ جسمانی ریمانڈ پر بھیجنے کا فیصلہ اسلام آباد ہائیکورٹ میں چیلنج
وکیل بابر اعوان نے کہا کہ ہم نے بھی بات کرنی ہے، ملاقات کرنی ہے۔
جج نے ریمارکس دیے کہ فائل سامنے ہوگی تو پھر معلوم ہوگا کہ پولیس کی استدعا کیا ہے، اس دوران عدالت نے نائب کورٹ کو ملزم کو پیش کرنے کا حکم دیا۔
جج نے استفسار کیا کہ اسپیشل پبلک پراسیکیوٹر راجا رضوان عباسی کدھر ہیں، کون بات کرے گا، وکیل فواد حیدر نے عدالت کو بتایا وہ نہیں ہیں، ان کی جگہ میں دلائل دوں گا۔
جج نے وکیل فیصل چوہدری سے مکالمہ کیا کہ اس کیس کی تھوڑی سی ہسٹری مجھے بتا دیں کیا ہوا تھا جس پر ملزم شہباز گل کے وکیل نے مقدمے کے حوالے سے عدالت کو آگاہ کرنا شروع کر دیا۔
دوران سماعت کمرہ عدالت میں بجلی چلی گئی اور کمرہ عدالت تاریکی میں ڈوب گیا، موبائل فون کی لائٹس لگا کر فیصل چوہدری نے دلائل دیے۔
یہ بھی پڑھیں: شہباز گل مزید 2 روزہ جسمانی ریمانڈ پر اسلام آباد پولیس کے حوالے
وکیل فیصل چوہدری نے کہا کہ مقدمہ درج کرنے کے لیے 3 مقامات سے اسکرپٹ اٹھایا گیا، 2 دن شہباز گل تفتیش پر رہا، 11 اگست کو مزید ایک مقدمہ 694 نمبر درج کیا گیا، اس مقدمے میں موبائل فون کا ذکر ہے، چھاپہ مارا گیا، ڈرائیور اظہار کی اہلیہ کو اٹھایا گیا۔
وکیل نے کہا کہ پندرہ دن ہوگئے مقدمہ درج ہوئے ابھی تک عبوری چالان بھی نہیں آیا، ملزم شہباز گل پہلے دن سے ان کے قبضے میں ہے، خاردار تارے لگا کر ہسپتال میں پولیس کھڑی کردی، پمز ہسپتال کے اندر ویڈیو بنتی رہی، شہباز گل نے بیان دیا کہ برہنہ کر کے تشدد کیا گیا۔
اس دوران اسپیشل پبلک پراسیکیوٹر راجا رضوان عباسی بھی عدالت میں پہنچ گئے، جج نے استفسار کیا کہ یہ ساری چیزیں آپ ہائی کورٹ کے سامنے نہیں لے کر آئے، وکیل نے کہا کہ جی بالکل ہائی کورٹ کے سامنے سب کچھ لے کر آگئے ہیں۔
راجا رضوان عباسی نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ یہ جسمانی ریمانڈ کی استدعا ہے، اسلام آباد ہائی کورٹ میں فیصلہ محفوظ ہے۔
مزید پڑھیں: شہباز گل کے مزید جسمانی ریمانڈ کی حکومتی درخواست قابل سماعت قرار
بابر اعوان نے استدعا کی کہ ہماری استدعا ہے کہ ملزم سے ملاقات کرائی جائے۔
جج نے پراسیکیوٹر سے استفسار کیا کہ کہ کیا ہائی کورٹ سے کوئی فیصلہ آگیا ہے جس پر پراسیکیوٹر نے بتایا کہ نہیں ابھی تک کوئی حکم نامہ نہیں ملا۔
وکیل بابر اعوان نے کہا کہ 13 دن سے شہباز گل اسلام آباد پولیس کی حراست میں ہے، معلوم نہیں کہ شہباز گل کو ان تیرہ روز میں کہاں رکھا گیا، یہ تیسرا راؤنڈ شروع ہوگیا ہے ریمانڈ کا، 14 دن کیا کوئی کم ریمانڈ ہوتاہے؟ جان لینی ہے کیا؟
وکیل بابر اعوان نے کہا کہ گاڑی کے شیشے توڑ کر شہباز گل کو گرفتار کیا گیا، شہباز گل نے لینڈ لائن کے ذریعے بیپر دیا، اس میں کوئی شک نہیں، شہباز گل کو 14 دنوں میں ٹارچر کیا گیا، وڈیو لیک کی گئی، شہباز گل پروفیسر ہے، امریکا کا رہائشی ہے، اہلیہ بھی پروفیسر ہیں۔
مزید پڑھیں: اسلام آباد: شہباز گل کے جسمانی ریمانڈ میں توسیع کی استدعا مسترد
وکیل بابر اعوان نے کہا کہ شہباز گل سے آخر ریکور کرنا کیا ہے؟ جیسے لوگوں کو اعتکاف میں چھپا کر لایا جاتا ہے، ویسے شہباز گل کو عدالت لے کر آئے، آئین کہتا ہے کہ ملزم کو پکڑو، تفتیش کرو اور عدالت جو فیصلہ کرے اسے مانو۔
انہوں نے مؤقف اپنایا کہ شہباز گل کو برہنہ کیا گیا، اس سے زیادہ کچھ نہیں کہنا چاہتا، آرمی پبلک اسکول میں پکڑے جانے والے ملزمان کا کیا ڈھائی ماہ ریمانڈ ہوا؟
پی ٹی آئی کی قانونی ٹیم نے شہباز گل کی اڈیالہ جیل میں لی گئی میڈیکل رپورٹ عدالت میں پیش کردی۔
وکیل بابر اعوان نے کہا کہ ڈائری میں پولیس کیا لکھے گی؟ ڈنڈا مارا؟ لیتر مارا؟ موبائل فون پر پرچہ کردیا گیا، نمبر معلوم ہے کہاں سے بیپر ہوا۔
یہ بھی پڑھیں: شہباز گل 2 روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے
انہوں نے کہا کہ ریکارڈ آرہا ہے، جارہا ہے، ملزم آرہا ہے، جارہا ہے، کیا سیشن جج ریمانڈ دے سکتا ہے؟ جواب ہے نہیں، سپریم کورٹ کے مطابق جیل سے بہتر ضمانت ہے، شہباز گل کو ریمانڈ میں مارنے کے علاوہ اور کیا کیا جاسکتا ہے؟
ان کا کہنا تھا کہ شہباز گل مخبر نہیں، کسی کو پکڑوانے میں مدد نہیں کر سکتے، 14 دن ریمانڈ کے مکمل ہو نے پر کیس آپ کے پاس آیا ہے، شہباز گل کے وکیل بابر اعوان نے دلائل مکمل کر لیے۔
اسپیشل پبلک پراسیکیوٹر رضوان عباسی نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے ایڈیشنل سیشن جج فرخ علی خان کا آرڈر پڑھ کر سنایا، 2 دن پمز ہسپتال میں رہنے کے دوران 2 روزہ جسمانی ریمانڈ ختم نہیں کیا جاسکتا۔
رضوان عباسی نے کہا کہ میں جسمانی ٹارچر کو سپورٹ کرنے والا نہیں، جسمانی ریمانڈ کی شروعات تب ہوگی جب عدالت حکم جاری کرےگی، سپیشل پبلک پراسیکیوٹر راجا رضوان عباسی کے دلائل مکمل ہوگئے۔
یہ بھی پڑھیں: شہباز گِل کو بغاوت، عوام کو اداروں کے خلاف اکسانے کے الزام میں گرفتار کیا، رانا ثنااللہ
اس کے ساتھ ہی عدالت نے جسمانی ریمانڈ کی استدعا پر فیصلہ محفوظ کر لیا۔
اس دوران عدالت نے ملزم شہباز گل کو لانے کا حکم دیا، عدالتی حکم پر شہباز گل کو کمرہ عدالت میں پہنچا دیا گیا، شہباز گل نے روسٹرم پر بولنا شروع کردیا، انہوں نے کہا کہ گزشتہ 5 روز سے کپڑے نہیں دیے گئے، پانچ دنوں سے میں نہایا نہیں ہوں۔
انہوں نے کہا کہ زبردستی میری شیو کی گئی، انہیں معلوم نہیں تھا میں کلین شیو ہوں، میرے چہرے پر بال پڑے ہوئے ہیں، مجھے اگر کسی ایسی جگہ رکھا جائے جہاں ٹارچر نہیں کیا جاتا تو میں تیار ہوں، جیل میں بھیجا جائے، میں وہاں تفتیش میں تعاون کرنے کے لیے تیار ہوں، آپ کی سوچ ہےجو پولیس کر رہی ہے، ہسپتال میں بھی مجھ سے تفتیش ہوتی رہی۔
شہباز گل نے کہا کہ مجھے آپ مرنے کے لیے ان کے حوالے کریں گے، تو اس کے بعد آپ کے سامنے پیش نہیں ہوں گا، میں دمہ کا مریض ہوں، شدید اٹیک ہوا تھا اس سے صحتیاب ہوا ہوں، میں نے کبھی نہیں کہا کہ مرنے لگا ہوں، آپ کویہ سوچنا ہے کہ مجھے زندہ دیکھنا ہے یا مردہ۔
مزید پڑھیں: شہباز گل کو اسلام آباد کے بنی گالا چوک سے ’اغوا‘ کیا گیا، پی ٹی آئی رہنماؤں کا دعویٰ
شہباز گل نے کہا کہ میرے گھر سے کپڑے دے کر گئے، انہوں نے چھین لیے، گزشتہ 4 روز سے میں بھوک ہڑتال پر ہوں، عدالت نے شہباز گل کو لے جانے کا حکم دے دیا۔
اس دوران عدالت نے محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے شہباز گل کا 2 روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کرلیا۔
شہباز گل کا متنازع بیان
9 اگست کو پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) نے نجی ٹی وی چینل ‘اے آر وائی’ نیوز کو اپنے شو میں سابق وزیرِا عظم عمران خان کے ترجمان شہباز گل کا تبصرہ نشر کرنے پر شوکاز نوٹس جاری کیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ ان کا بیان ‘مسلح افواج کی صفوں میں بغاوت کے جذبات اکسانے کے مترادف تھا’۔
اے آر وائی کے ساتھ گفتگو کے دوران ڈاکٹر شہباز گل نے الزام عائد کیا تھا کہ حکومت، فوج کے نچلے اور درمیانے درجے کے لوگوں کو تحریک انصاف کے خلاف اکسانے کی کوشش کر رہی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘فوج میں ان عہدوں پر تعینات اہلکاروں کے اہل خانہ عمران خان اور ان کی پارٹی کی حمایت کرتے ہیں جس سے حکومت کا غصہ بڑھتا ہے’۔
مزید پڑھیں: پنجاب پولیس کو بنی گالا کی سیکیورٹی سنبھالنے کیلئے بھیج رہے ہیں، پی ٹی آئی رہنما
انہوں نے یہ الزام بھی عائد کیا تھا کہ حکمراں جماعت مسلم لیگ (ن) کا ‘اسٹریٹجک میڈیا سیل’ پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان اور مسلح افواج کے درمیان تفرقہ پیدا کرنے کے لیے غلط معلومات اور جعلی خبریں پھیلا رہا ہے۔
شہباز گل نے کہا تھا کہ جاوید لطیف، وزیر دفاع خواجہ آصف اور قومی اسمبلی کے سابق اسپیکر ایاز صادق سمیت دیگر حکومتی رہنماؤں نے ماضی میں فوج پر تنقید کی تھی اور اب وہ حکومتی عہدوں پر ہیں۔
پیمرا کی جانب سے نوٹس میں کہا گیا کہ اے آر وائی نیوز پر مہمان کا دیا گیا بیان آئین کے آرٹیکل 19 کے ساتھ ساتھ پیمرا قوانین کی بھی خلاف ورزی ہے۔