بھارت: گینگ ریپ میں ملوث مجرموں کی رہائی پر صدمے سے دوچار ہوں، متاثرہ بلقیس بانو
گجرات حکومت کی جانب سے فروری-مارچ 2002 میں مسلمانوں کے قتل عام کے دوران بلقیس بانو کا 'گینگ ریپ' کرنے اور اس کے خاندان کے افراد کے بہیمانہ قتل کے جرم میں عمر قید کی سزا پانے والے 11 مجرموں کو رہا کرنے کے بعد پورے ملک میں اشتعال اور غم وغصہ پھیل گیا۔
ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق حزب اختلاف کی مرکزی جماعت کانگریس کے لیڈر راہل گاندھی نے واضح اور دوٹوک الفاظ میں نریندر مودی کی سیاست پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ کیا وزیر اعظم کو اس طرح کی سیاست کرنے پر شرم نہیں آتی؟
خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والے سرگرم گروپس اور این جی اوز نے بھی سپریم کورٹ سے فیصلے کو کالعدم قرار دینے کی اپیل کی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: بھارت: بلقیس بانو گینگ ریپ کیس، عمر قید کی سزا ملنے والے 11 مجرم جیل سے رہا
ریاست گجرات میں اسمبلی انتخابات دسمبر میں ہونے ہیں جبکہ 5 سال قبل ہونے والے انتخابی معرکے میں کانگریس نے حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے ساتھ سخت مقابلہ کیا تھا۔
فرقہ وارانہ اور مذہبی معاملات کو سیاست کے لیے استعمال کرنا ریاستی سیاست کا اہم عنصر رہا ہے، مذہب کو سیاست کے لیے استعمال کرنا ہی ایسا عمل تھا جس نے نریندر مودی جیسے آر ایس ایس کے ایک درمیانے درجے کے گجراتی کارکن کو ملک کے اعلیٰ ترین عہدے تک پہنچایا۔
ان کے ریپ اور 3 سالہ بیٹی کے قاتلوں کی رہائی کے فیصلے کا صدمہ بلقیس بانو کے لیے دل چیر دینے والا دکھ ہے۔
اپنے ایک بیان میں بلقیس بانو نے کہا کہ 2 روز قبل، 15 اگست 2022 کو جب میں نے سنا کہ میرے خاندان، میری زندگی کو تباہ کرنے اور میری 3 سالہ بیٹی کو مجھ سے چھیننے والے 11 سزا یافتہ مجرموں کو بری کردیا گیا ہے تو 20 برس قبل ہونے والا سانحہ ایک بار پھر مجھ پر گزر گیا۔
مزید پڑھیں: بھارت: عدالت کا گینگ ریپ متاثرہ خاتون کو 50 لاکھ روپے ادا کرنے کا حکم
بلقیس بانو نے کہا کہ میرے پاس اپنی تکلیف کے اظہار کے لیے الفاظ نہیں ہیں، میں ابھی تک صدمے میں ہوں۔
انہوں نے کہا کہ آج میں صرف اتنا کہہ سکتی ہوں کہ کسی بھی عورت کے لیے انصاف اس طرح کیسے ختم ہو سکتا ہے؟ میں نے ملک کی اعلیٰ ترین عدالتوں پر اعتماد کیا، نظام پر بھروسہ کیا اور میں آہستہ آہستہ اپنے صدمے کے ساتھ جینا سیکھ رہی تھی۔
بلقیس بانو نے کہا کہ ان مجرموں کی رہائی نے مجھ سے میرا سکون چھین لیا اور نظام عدل و انصاف پر میرا یقین متزلزل کردیا، میرا یہ دکھ اور ڈگمگاتا اعتماد صرف میرے لیے نہیں بلکہ ہر اس عورت کے لیے ہے جو عدالتوں میں انصاف کے حصول کے لیے جدوجہد کر رہی ہے۔
بلقیس بانو نے شکایت کی کہ اتنا بڑا اور غیر منصفانہ فیصلہ کیے جانے سے قبل کسی نے ان کی حفاظت اور خیریت کے بارے میں دریافت نہیں کیا۔
یہ بھی پڑھیں: بھارت: 4 سالہ لڑکی کا ریپ، سزائے موت کے مجرم کے ڈیتھ وارنٹ جاری
انہوں نے کہا کہ میں گجرات حکومت سے اپیل کرتی ہوں کہ اس فیصلے کو ختم کرے، مجھے بلاخوف، سکون کے ساتھ جینے کا میرا حق واپس کیا جائے، براہ کرم میری فیملی اور میرا تحفظ یقینی بنایا جائے۔
سپریم کورٹ کی جانب سے 1992 کی معافی کی پالیسی کے تحت ملزمان کی درخواست پر غور کرنے کی ہدایت کے بعد گجرات حکومت نے تمام 11 مجرموں کو رہا کر دیا تھا۔
ممبئی کی خصوصی سی بی آئی عدالت نے 21 جنوری 2008 کو قتل اور گینگ ریپ کے معاملے میں تمام 11 مجرمان کو عمر قید کی سزا سنائی تھی جبکہ ان کی سزا کو بعد میں ممبئی ہائی کورٹ نے بھی برقرار رکھا تھا۔
ان مجرموں نے 15 سال سے زیادہ قید کاٹی، جس کے بعد ان میں سے ایک نے اپنی قبل از وقت رہائی کی درخواست کے ساتھ سپریم کورٹ سے رجوع کیا۔
مزید پڑھیں: بھارت: 4 سالہ لڑکی کا ریپ، مجرم کو سزائے موت
بلقیس بانو کو 3 مارچ 2002 کو گجرات میں فسادات کے دوران گینگ ریپ کا نشانہ بنایا گیا، وہ اس وقت 19 سال کی اور حاملہ تھیں۔
احمد آباد کے قریب فسادیوں نے ان کی 3 سالہ بیٹی سمیت خاندان کے 14 افراد کو قتل کردیا تھا، ایک آدمی نے بچی کو ماں سے چھین کر اس کے سر پتھر پر مار دیا تھا۔
2002 کے فسادات میں ایک ہزار سے زائد لوگ مارے گئے تھے جن میں زیادہ تر مسلمان تھے، بڑے پیمانے پر ہونے والے پُرتشدد واقعات میں بلقیس بانو کا کیس سب سے ہولناک تھا۔
راہول گاندھی نے اپنی جانب سے اتر پردیش، مقبوضہ جموں و کشمیر اور گجرات کے 2002 کے بلقیس بانو کیس ریپ کے واقعات کی ان مثالوں کا حوالہ دیا جہاں حکومت نے ریپ اور قتل کے مجرموں کو رہا کیا۔
مزید پڑھیں: بھارت: 13 سالہ بیٹی کے 'ریپ' کا الزام، باپ گرفتار
انہوں نے ان علاقوں میں ریپ میں ملوث مجرمان کی رہائی پر وزیر اعظم کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے سوال اٹھایا کہ کیا آپ کو ایسی سیاست پر شرم نہیں آتی، وزیر اعظم جی؟
بلقیس بانو کیس کے مجرموں کی رہائی پر اظہار خیال کرتے ہوئے کانگریس کے سینئر لیڈر پی چدمبرم نے مزید کہا کہ بی جے پی کے 2 ایم ایل ایز اس جائزہ پینل کا حصہ تھے جس نے مجرموں کو معافی دی۔