• KHI: Asr 4:15pm Maghrib 5:51pm
  • LHR: Asr 3:30pm Maghrib 5:07pm
  • ISB: Asr 3:29pm Maghrib 5:07pm
  • KHI: Asr 4:15pm Maghrib 5:51pm
  • LHR: Asr 3:30pm Maghrib 5:07pm
  • ISB: Asr 3:29pm Maghrib 5:07pm

قائمہ کمیٹی اجلاس، 'اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کی تقرریوں میں شفافیت ہونا لازم ہے'

شائع August 18, 2022
— فائل فوٹو: اے پی پی
— فائل فوٹو: اے پی پی

سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف کے اجلاس میں ججوں کی تقرریوں کے حوالے سے تبادلہ خیال کیاگیا جہاں وفاقی وزیرقانون نے کہا کہ اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کی تقرریوں میں شفافیت لازمی ہے۔

چیئرمین کمیٹی سینیٹر علی ظفر کی زیر صدارت قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں چیئرمین نے ججوں کی تعیناتی سے متعلق اراکین کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ حالیہ جوڈیشل کمیشن کے اجلاس کی ریکارڈنگ منظر عام پر آئی، جس سے ایسا لگتا ہے کہ اس آڈیو کا غلط اور سیاسی استعمال ہوا ہے۔

مزید پڑھیں:پی ڈی ایم میں اختلاف کی ایک وجہ اعظم نذیر تارڑ کی نامزدگی تھی

وفاقی وزیر قانون سینیٹر اعظم نذیر تارڑ نے کہا ہے کہ پارلیمان عوام کی توقعات پر قانون سازی کرتی ہے دنیا میں ججوں کی تقرری عام طور پر پارلیمان ہی کرتی ہے۔

سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف کے اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کی تقرریوں میں شفافیت ہونا لازم ہے کیونکہ آئین طریقہ بتاتا ہے اور جج آئینی ذمہ داریاں نبھانے کے پابند ہوتے ہیں۔

وفاقی وزیر قانون نے کہا کہ جوڈیشل کمیشن کے فیصلے پر پارلیمانی کمیٹی اعتراض کرتی ہے مگر وہ معاملہ گھوم پھر کر وہاں چلا جاتا ہے، اگر پارلیمان کے فیصلے نہ مانے جائیں تو پھر تو اس کو بند کر دیا جائے مگر ایک ادارہ ٹھیک ہوجائے تو پورا ملک ٹھیک ہوجائے گا۔

قانون دان فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ کمیٹی صرف بل پر غور کرے، جوڈیشل کمیشن میں کیا ہوا اس پر بات نہیں ہوسکتی۔

سینیٹر علی ظفر نے کہا کہ ہمیں یہی خیال رکھنا ہے کہ جوڈیشل کمیشن پر بات کرتے ہوئے اس پر سیاست نہ کی جائے کیونکہ عدلیہ کی آزادی بڑا ستون ہے مگر جوڈیشل کمیشن کو پارلیمانی ججز تقرری کمیٹی پر فوقیت دی گئی۔

پی ٹی آئی کے سینیٹر اعظم خان سواتی نے کہا کہ ہمارے ہاں قانون بھی آدھا ہے اور عدلیہ بھی آدھی ہے انہیں لگام دینے کی ضرورت ہے، ججوں کی تقرری میں عدلیہ اور بار کونسل کا کردار ہو لیکن ان کا اتنا کردار نہیں ہونا چاہیے کہ وہ حد سے تجاوز کر جائیں۔

یہ بھی پڑھیں:سینیٹ اجلاس: اعظم نذیر تارڑ قائد ایوان مقرر، یٰسین ملک کے حق میں قرارداد منظور

اعظم سواتی نے کہا کہ ہمیں ایسا فورم تشکیل دینا چاہیے کہ آنے والے وقت میں مفید ثابت ہو سکے کیونکہ یہ اہم مسئلہ ہے اس پر تمام اسٹیک ہولڈرز کو مشاورت میں شامل کرنا چاہیے۔

چیئرمین قائمہ کمیٹی سینیٹر علی ظفر نے کہا کہ جوڈیشل کمیشن کے اراکین کے حوالے سے پہلے 175 اے کا جائزہ لیتے ہیں اور پہلی ترمیم میں چیف جسٹس اور چار سینیئر ججوں کے بجائے تین جج کر دیے جائیں جبکہ ایک سابق جج کو نکال دینا چاہیے، اسی طرح اس میں ایک چیف جسٹس، اٹارنی جنرل، وزیر قانون اور سینئیر وکیل ہونا چاہیے۔

وزیر قانون نے تجویز پیش کی کہ ممبران کی تعداد تین،تین کر دی جائے جبکہ فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ ججوں کو ایک ووٹ کی برتری دی گئی ہے۔

وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ ڈیڑھ لاکھ وکلا میں سے پورے پاکستان میں صرف 2500 سے 3 ہزار سپریم کورٹ کے ممبر ہیں اور ان میں سے 80 وکلء سپریم کورٹ کے سینئیر ایڈووکیٹ ہوتے ہیں اور سینئیر ہونے کا خطاب 17جج سال میں 3 سے چار لوگوں کو دیتے ہیں۔

فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ سینئیر ایڈووکیٹ بہت بڑا اعزاز ہے، جب کمیٹی میں 6 جج اور تین اور اراکین ہوں گے تو اس کا کیا فائدہ، امیدوار خود جاکر پٹیشن دائر کر رہے ہیں، ایک دروازہ کھل گیا ہے، ایک وکیل جج بنتا ہے تو اس کے لیے کیا معیار رکھا جاتا ہے۔

سینیٹر منظور احمد کاکڑ نے کہا کہ ججوں کی تقرریوں میں وکلا کے چیمبر دیکھے جاتے ہیں۔

مزید پڑھیں:سینیٹ اجلاس: ‘ملک میں برداشت کا کلچر نافذ کرنے کیلئے ایک آواز ہونا پڑے گا’

فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ یہ بل پاکستان کے عوام اور ججوں کے لیے ہے کیونکہ ہمیں آزاد اور قابل جج چاہئیں، اتنی بڑی پارلیمان ہے آپ کھل کر قانون ہی نہیں بنا سکتے جبکہ اتنا پیسہ خرچ ہوتا ہے اور پارلیمان صرف اسلام آباد کے لیے قانون سازی کرتی ہے۔

وفاقی وزیر قانون نے کہا کہ سپریم کورٹ کے ان 5 ججوں پر تنقید نہ ہوتی اگر ان کے نام کمیٹی سے آجاتے، مزید کہا کہ کمیشن میں چیف جسٹس کو ججوں کی نامزدگی کا اختیار نہیں ہونا چاہیے۔

فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ ہائی کورٹس کے وکلا کا چیف جسٹس کو پتا نہیں ہوتا کہ وہ کس معیار کے ہیں، پرانا سسٹم الگ تھا اور نئے سسٹم میں پتا ہی نہیں چلتا کہ وکیل کو کیسے لیا جائے گا۔

وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ سندھ ہائی کورٹ میں 10 اور پنجاب ہائی کورٹ میں 13 ججوں کی نشستیں خالی ہیں، خالی نشستوں کا تاحال خالی رہنے کی وجہ چیف جسٹسز ہوتے ہیں کیونکہ ججوں کی نامزدگیوں پر چیف جسٹس کے دستخط ہوتے رہے ہیں جبکہ پہلے وزیر اعلیٰ اور چیف جسٹس ججوں کی تقرری کرتے تھے تو اس وقت ہی اچھے جج آتے تھے۔

مزید پڑھیں: چیئرمین قائمہ کمیٹی کا احتساب آرڈیننس ترمیمی بلز پر ووٹنگ کی اجازت دینے سے انکار

فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ جوڈیشل کمیشن میں ججز، بار اور اٹارنی جنرل شامل ہیں، پھر بھی اچھے جج تعینات نہ ہوں تو اللہ ہی مالک ہے۔

اعظم سواتی نے کہا کہ انیسیشن کمیٹی کو مکمل غیر جانب دار اور شفاف ہونا چاہے، جس پر فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ ہم جو کچھ کر رہے ہیں ملک کے لیے کر رہے ہیں۔

کارٹون

کارٹون : 27 دسمبر 2024
کارٹون : 26 دسمبر 2024