شہباز گل پر مبینہ تشدد، اسلام آباد ہائیکورٹ نے آئی جی سے رپورٹ طلب کرلی
اسلام آباد ہائی کورٹ نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما شہباز گل پر دوران حراست مبینہ تشدد کے معاملے پر انسپکٹر جنرل (آئی جی) اسلام آباد پولیس سے رپورٹ طلب کرلی، عدالت عالیہ نے وکلا کو شہباز گل سے ملنے کی بھی اجازت دے دی۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے قائم مقام چیف جسٹس عامر فاروق نے شہباز گل کی جسمانی ریمانڈ کے خلاف درخواست پر سماعت کی، اس موقع پر شہباز گل کے وکلا فیصل چوہدری اور شعیب شاہین عدالت میں پیش ہوئے۔
شہباز گل کے جسمانی ریمانڈ کے خلاف اس درخواست میں ایڈیشنل سیشن جج (ایسٹ)، اسلام آباد کے انسپکٹر جنرل آف پولیس، ایس ایس پی انویسٹی گیشن، ایس ایچ او کوہسار، سٹی مجسٹریٹ غلام مصطفی چانڈیو اور ریاست کو فریق بنایا گیا ہے۔
سماعت کے دوران عدالت نے شعیب شاہین سے استفسار کیا کہ کیا آپ نے جسمانی ریمانڈ کا حکم نامہ چیلنج کیا ہے؟ شعیب شاہین نے استدلال کیا کہ ایڈیشنل سیشن جج نے قانون میں فراہم کردہ ہدایات پر عمل نہیں کیا۔
یہ بھی پڑھیں: شہباز گل کو تحویل میں لینے کے معاملے پر اسلام آباد اور راولپنڈی پولیس کے درمیان رسہ کشی
جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ مجھے معلوم ہوا ہے کہ شہباز گل کو پمز میں داخل کرایا گیا ہے، اڈیالہ جیل کے سپرنٹنڈنٹ کو طلب کیا ہے تاکہ ہم حقائق کی تصدیق کر سکیں۔
شعیب شاہین نے دعویٰ کیا کہ انہیں شہباز گل سے ملنے کی اجازت نہیں دی جارہی ہے، اس پر جج نے جواب دیا کہ حکام کے پیش ہونے پر اس معاملے پر بھی بات کی جائے گی۔
قائم مقام چیف جسٹس عامر فاروق کی جانب سے جاری 2 صفحات پر مشتمل تحریری حکم نامے میں عدالت نے سیشن جج کے سوا تمام فریقین کو نوٹس جاری کر دیا۔
مزید پڑھیں: پی ٹی آئی رہنما شہباز گِل اڈیالہ جیل سے پمز ہسپتال اسلام آباد منتقل
حکم نامے میں ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد اور ایڈیشنل اٹارنی جنرل اسلام آباد کو بھی عدالت کی معاونت کے لیے مقررہ وقت پر پیش ہونے کا نوٹس جاری کرنے کی ہدایت دی گئی تھی۔
عدالت نے اسلام آباد کے انسپکٹر جنرل آف پولیس، ایس ایس پی انویسٹی گیشن، ایس ایچ او کوہسار اور اڈیالہ جیل کے سپرنٹنڈنٹ اور میڈیکل افسر کو بھی متعلقہ ریکارڈ کے ساتھ دوپہر 3 بجے طلب کیا تھا۔
عدالت نے ایڈووکیٹ جنرل کو انسپکٹر جنرل پولیس اسلام آباد، ایس ایس پی انویسٹی گیشن، ایس ایچ او کوہسار اور سٹی مجسٹریٹ غلام مصطفی چانڈیو کی حاضری یقینی بنانے کی ہدایت کی تھی۔
یہ بھی پڑھیں: شہباز گِل کو دوبارہ جسمانی ریمانڈ پر بھیجنے کا فیصلہ اسلام آباد ہائیکورٹ میں چیلنج
وقفے کے بعد سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ میڈیکل بورڈ معائنے کے لیے جیل گیا تو شہباز گل نے تعاون سے انکار کردیا۔
انہوں نے کہا کہ 12 اگست کو شہباز گل نے تشدد کا الزام لگایا اور اس کے اگلے روز میڈیکل بورڈ تشکیل دیا گیا۔
شہباز گل کے وکیل فیصل چوہدری نے کہا کہ شہباز گل پر تشدد کی تصاویر موجود ہیں، جس پر جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ ہر طرف شہباز گل پر تشدد کی خبر ہے، اس سے پولیس کا برا نام جا رہا ہے۔
جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ ہم کو دیکھنا ہے کہ کیا شہباز گِل پر تشدد ہوا یا نہیں، اس موقع پر پروسیکیوٹر رضوان عباسی نے کہا کہ 9 اگست کو شہباز گل گرفتار ہوا اور 11 اگست کو ان کا میڈیکل چیک اپ ہوا۔
انہوں نے کہا کہ پمز بورڈ کی میڈیکل رپورٹ کے مطابق شہباز گِل پر تشدد نہیں کیا گیا، جسٹس عامر فاروق نے بتایا کہ پھر 12 اگست کو شہباز گل کو دوبارہ عدالت کے سامنے پیش کیا گیا۔
جسٹس عامر فاروق نے پوچھا کہ کیا شہباز گِل نے عدالت کے سامنے تشدد کا کوئی بیان دیا۔
وکیل فیصل چوہدری نے کہا کہ مجھے پمز ہسپتال میں شہباز گِل سے ملنے نہیں دیا گیا، جس پر جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ ریمانڈ میں ملاقات کی اجازت نہیں ہوتی۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے قائم مقام چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ یہ جو کیس ہم سن رہے ہیں وہ اس لیے ہے کہ یہ سیاسی شخص کا کیس ہے۔
جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ جانے کتنے ہی محمد دین اور اللہ دتہ کے کیسز ہائی کورٹ تک نہیں پہنچ سکتے، کمزور آدمی کی کوئی داد رسی نہیں ہوتی طاقت ور کے لیے سب کچھ ہے، اس کی ایک مثال یہ ہے کہ ساڑھے چار بجے بھی یہ عدالت بھری ہوئی ہے۔
جسٹس عامر فاروق نے اس موقع پر انسپکٹر جنرل (آئی جی) اسلام آباد سے پوچھا کہ آپ بتائیں کہ کیا ہونا چاہیے، جس پر شہباز گل کے دوسرے وکیل شعیب شاہین نے کہا کہ ہمیں آئی جی اسلام آباد پر اعتماد نہیں ہے۔
وکیل شعیب شاہین کی جانب سے آئی جی پر اعتراض کے بعد جسٹس عامر فاروق نے شہباز گل کے وکلا پر شدید اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا کہ ایسے نہ کہیں، آپ لوگ چپ کریں، مجھے کیس طریقے سے چلانے دیں، ہر ایک بول پڑتا ہے۔
جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ اڈیالہ جیل کے میڈیکل افسر کدھر ہیں جبکہ اڈیالہ جیل کے میڈیکل افسر کے پاس ریکارڈ نہ ہونے پر عدالت نے برہمی کا اظہار کیا اور کہا کہ آپ اگر ریکارڈ نہیں لائے تو کیا میرا علاج کرنے آئے ہیں۔
جسٹس عامر فاروق نے اڈیالہ جیل کے نمائندے سے استفسار کیا کہ شہباز گل کی حوالگی کی روبکار کتنے بجے موصول ہوئی تھی، جس پر انہوں نے جواب دیا کہ ساڑھے چار بجے ہمیں شہباز گِل کی حوالگی کی روبکار مل گئی تھی۔
جسٹس عامر فاروق نے ایک مرتبہ پھر استفسار کیا کہ شہباز گل کو اسلام آباد پولیس کے حوالے کب کیا گیا تو اڈیالہ جیل کے نمائندے نے عدالت کو بتایا کہ تقریباً 9 بجے شہباز گل کو حوالے کیا گیا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے قائم مقام چیف جسٹس نے پوچھا کہ ساڑھے 5 گھنٹے تک کیا کر رہے تھے، اس موقع پر ایڈیشنل سپرنٹنڈنٹ اڈیالہ جیل نے بتایا کہ شہباز گل کی سانس کم آ رہی تھی، جس پر جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ کیا جواز ہے کہ آپ عدالت کی حکم عدولی کر رہے ہیں۔
جسٹس عامر فاروق نے پوچھا کہ شہباز گل کو کب سانس کی تکلیف ہوئی تو ایڈیشنل سپرنٹنڈنٹ اڈیالہ جیل نے بتایا کہ شہباز گل کو سوا چار بجے سانس کی تکلیف ہوئی تو جسٹس نے پوچھا کہ کیا ایڈیشنل سیشن جج کا فیصلہ آنے کے وقت ہی تکلیف ہونی تھی۔
جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ میں اڈیالہ جیل کے ایڈیشنل سپرنٹنڈنٹ اور میڈیکل افسر کے ساتھ ساتھ اسلام آباد پولیس کے متعلقہ افسران کو بھی نوٹس جاری کر رہا ہوں کہ وہ وضاحت دیں، آپ لوگوں کی وجہ سے اداروں کا نام خراب ہوتا ہے۔
اس موقع پر شہباز گل کے وکیل شعیب شاہین نے کہا کہ اگر سماعت کل تک لے کر جانی ہے تو ریمانڈ کا فیصلہ معطل کریں تاہم جج نے بتایا کہ سماعت کل تک نہیں بلکہ پیر تک لے کر جا رہے ہیں۔
عدالت نے کہا کہ ہم اس معاملے پر تحریری حکم نامہ جاری کریں گے۔
شعیب شاہین ایڈووکیٹ نے کہا کہ پھر پیر تک آپ موجودہ اسٹیٹس برقرار رکھ دیں، جس پر عدالت نے کہا کہ ہم اس پر تحریری حکم جاری کریں گے وہ دیکھ لینا۔
عدالت نے اس کے ساتھ ہی شہباز گل کے جسمانی ریمانڈ کے خلاف درخواست پر سماعت پیر تک ملتوی کردی۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے شہباز گل کے وکلا کو ان سے ملنے کی اجازت بھی دے دی گئی جبکہ ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نے کہا کہ حکم دیا جائے وکلا موبائل فون لے کر نہ جائیں۔
ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نے کہا کہ ہمیں خدشہ ہے کہ یہ کہیں انہیں خود ہی کچھ نہ کردیں۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے شہباز گل پر تشدد کے حوالے سے سماعت پیر تک ملتوی کرتے ہوئے آئی جی اسلام آباد سے رپورٹ طلب کی اور اڈیالہ جیل حکام کو کنڈکٹ پر نوٹس جاری کردیا۔
جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ آئی سی ٹی کو بھی نوٹس کروں گا کہ کیوں یہ سب ہو رہا ہے، کل اگر جان بوجھ کر عدالتی احکامات میں رکاوٹ نکلی تو توہین عدالت کا نوٹس کریں گے۔
واضح رہے کہ گزشتہ روز جوڈیشل مجسٹریٹ نے اسلام آباد پولیس کو شہباز گل کا 2 روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کرتے ہوئے حکام کو طبی معائنہ کرانے کا حکم دیا تھا۔
تاہم غداری کے مقدمے میں گرفتار شہباز گل کو راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں رکھا گیا تھا جو کہ پنجاب حکومت کے دائرہ اختیار میں آتی ہے۔
شہباز گل کو سانس لینے میں تکلیف کی شکایت کے بعد انہیں راولپنڈی ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹرز (ڈی ایچ کیو) ہسپتال منتقل کرنے کے انتظامات کیے گئے حالانکہ جیل حکام کو یقین تھا کہ ان کے پاس شہباز گل کے علاج کی سہولیات موجود ہیں۔
پی ٹی آئی کا دعویٰ ہے کہ شہباز گل کو قید کے دوران تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور انہیں عمران خان کے خلاف بیان دینے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔
مزید پڑھیں: شہباز گِل کے دوبارہ جسمانی ریمانڈ کا مقصد عمران خان کےخلاف بیان دلوانا ہے، اسد عمر
خیال رہے کہ شہباز گِل نے سیشن جج کی جانب سے جسمانی ریمانڈ پر دوبارہ پولیس کے حوالے کرنے کا فیصلہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔
شہباز گِل نے اپنے وکیل انتظار حسین کے ذریعے دوبارہ جسمانی ریمانڈ دینے کے اسلام آباد کی ایڈیشنل سیشن جج ریبا چوہدری کے فیصلے کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں چلینج کیا تھا جس میں ایڈیشنل سیشن جج، آئی جی اور ایس ایس پی اسلام آباد، ایس ایچ او کوہسار اور مدعی مقدمہ کو درخواست میں فریق بنایا گیا ہے۔
شہباز گِل کی میڈیکل رپورٹ عدالت میں جمع
دریں اثنا پولیس نے پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز (پمز) ہسپتال کی جانب سے جاری کردہ شہباز گل کی پہلی میڈیکل رپورٹ عدالت میں جمع کروا دی ہے۔
پمز اسپتال کی میڈیکل رپورٹ ڈیوٹی جج جوڈیشل راجا فرخ علی خان کی عدالت میں جمع کرائی گئی۔
میڈیکل رپورٹ میں کہا گیا کہ 4 سینئر ڈاکٹروں پر مشتمل ٹیم نے شہباز گل کا طبی معائنہ کیا۔
میڈیکل رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ شہبازگل کو بچپن سے سانس کا مسئلہ ہے اور ضرورت پڑنے پر برونکڈیلٹر استعمال کرتے ہیں، ان کو سانس لینے میں مسئلہ ہے اور جسم میں درد محسوس کر رہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: شہباز گل مزید 2 روزہ جسمانی ریمانڈ پر اسلام آباد پولیس کے حوالے
میڈیکل رپورٹ میں بتایا گیا کہ کندھے، گردن اور چھاتی کے بائیں جانب شہباز گل درد محسوس کر رہے ہیں، ان کا فوراً ای سی جی کیا گیا تھا۔
میڈیکل رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ شہبازگل کو کارڈیالوجسٹ اور پلمانولوجسٹ کی جانب سے طبی معائنہ درکارہے، ان کے مزید طبی معانے کہ ضرورت پڑھ سکتی ہے۔
میڈیکل بورڈ کی جانب سے مشورہ دیا گیا کہ شہباز گل کا ایکس رے، یورک خون اور دل کا ٹیسٹ کرنا ضروری ہے۔
مثال بنانے کیلئے آسان ترین ہدف چُنا گیا، عمران خان
دریں اثنا چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان نے شہباز گل کی ہسپتال منتقل کی ویڈیو شیئر کرتے ہوئے اسے 'معیار سے مسلسل گرتے ہوئے ایک بنانا ریپبلک میں ڈھلنے کے مناظر' قرار دیا۔
انہوں نے اپنی ٹوئٹ میں لکھا کہ 'ہماری بربریت دیکھ کر مہذب دنیا پر سکتہ طاری ہوگا، بدترین پہلو تو یہ ہے کہ منصفانہ عدالتی کارروائی کے بغیر جبر و تشدد سے مثال بنانے کے لیے ایک آسان ترین ہدف چُنا گیا ہے'۔
انہوں نے مزید کہا کہ 'جبکہ نوازشریف، مریم، مولانا فضل الرحمٰن اور آصف زرداری جیسے وہ تمام کردار جو ریاستی اداروں کیخلاف بغض و عناد سے بھرپور بیانات کے ذریعے انہیں ہر ممکن حد تک بدترین انداز میں بار بار نشانہ بناتے رہے ہیں، بلاخوفِ ملامت آزاد گھوم رہے ہیں'۔
شہباز گِل کے وینٹیلیٹر پر ہونے کا دعویٰ
دریں اثنا شہباز گل کے فیس بک اکاؤنٹ سے ان کے وینٹی لیٹر پر ہونے کا دعویٰ بھی سامنے آیا ہے۔
شہباز گل کے آفیشل فیس بک اکاؤنٹ پر انہیں اسٹریچر پر پمز اسپتال منتقل کرنے کی ایک ویڈیو شیئر کی گئی جس کے ساتھ یہ دعویٰ کیا گیا کہ وہ وینٹی لیٹر پر ہیں۔
ویڈیو کے کیپشن میں مزید کہا گیا کہ شہباز گِل کا منہ سوجا ہوا ہے اور انہیں سانس بھی نہیں آرہا۔
گزشتہ شب پمز کے باہر میڈیا سے بات کرتے ہوئے پی ٹی آئی کے سینیٹر اعجاز چوہدری نے کہا تھا کہ شہباز گل کو تقریباً رات 10 بجے کے قریب یہاں لایا گیا، وہ اسٹریچر پر تھے اور بڑی مشکل سے سانس لے رہے تھے۔
انہوں نے کہا کہ 'ایسا لگتا ہے جیسے وہ سانس نہیں لے پا رہے ہیں، سیکڑوں پولیس والوں نے انہیں گھیر رکھا ہے'۔
اعجاز چوہدری نے دعویٰ کیا کہ ڈاکٹروں نے تجویز دی تھی کہ شہباز گل کو ہسپتال میں داخل کیا جائے کیونکہ ان کی حالت نازک تھی۔
انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ شہباز گل ہسپتال کے جس کمرے میں ہیں وہاں پولیس اہلکار موجود ہیں جو ان کے جسمانی اور ذہنی دباؤ میں اضافہ کر رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ شہباز گل نے کوئی ایسی بات نہیں کہی جو دوسروں نے پہلے کبھی نہ کہی ہو۔
شہباز گل کا متنازع بیان
واضح رہے کہ پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) نے نجی ٹی وی چینل ‘اے آر وائے’ نیوز کو اپنے شو میں سابق وزیرِا عظم عمران خان کے ترجمان شہباز گل کا تبصرہ نشر کرنے پر شوکاز نوٹس جاری کیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ ان کا بیان ‘مسلح افواج کی صفوں میں بغاوت کے جذبات اکسانے کے مترادف تھا’۔
اے آر وائے کے ساتھ گفتگو کے دوران ڈاکٹر شہباز گل نے الزام عائد کیا تھا کہ حکومت، فوج کے نچلے اور درمیانے درجے کے لوگوں کو تحریک انصاف کے خلاف اکسانے کی کوشش کر رہی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: شہباز گِل کا متنازع بیان، عماد یوسف کا نام مقدمے سے خارج کرنے کا حکم
ان کا کہنا تھا کہ ‘فوج میں ان عہدوں پر تعینات اہلکاروں کے اہل خانہ عمران خان اور ان کی پارٹی کی حمایت کرتے ہیں جس سے حکومت کا غصہ بڑھتا ہے’۔
انہوں نے یہ الزام بھی عائد کیا تھا کہ حکمراں جماعت مسلم لیگ (ن) کا ‘اسٹریٹجک میڈیا سیل’ پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان اور مسلح افواج کے درمیان تفرقہ پیدا کرنے کے لیے غلط معلومات اور جعلی خبریں پھیلا رہا ہے۔