مقبوضہ کشمیر میں انسان دشمن خونخوار چیتا معصوم بچوں کو نشانہ بنانے لگا
مقبوضہ جموں و کشمیر کے ضلع بارہ مولہ کے علاقے میں خون خوار چیتے نے معصوم بچوں کو نشانہ بنا کر ایسی دردناک کہانیاں چھوڑی ہیں جس کو ان کی مائیں بھول نہیں پارہیں۔
قطری نشریاتی ادارے 'الجزیرہ' کی رپورٹ کے مطابق کشمیر کے ضلع بارہ مولہ کے ایک چھوٹے گاؤں کی رہائشی پروینہ گنائی آج بھی اس دردناک لمحے کو یاد کرکے غمگین ہوجاتی ہیں جب ان کے 14 سالہ بیٹے شاہد احمد کی لاش گاؤں کے قریب ٹکڑوں میں ملی تھی جس کو خونخوار چیتے نے نوچ لیا تھا۔
45 سالہ پروینہ گنائی مقبوضہ کشمیر کے ضلع بارہ مولہ کے چھوٹے سے گاؤں ترکنجان کی رہائشی ہیں اور اپنے معصوم بیٹے کو یاد کرکے ان کی آنکھوں میں آنسو آجاتے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق وہ المناک دن 12 جون کا تھا، جب پروینہ گنائی کا معصوم بیٹا شاہد احمد اسکول سے چھٹی کی وجہ سے اپنے بال کٹوانے کے بعد نہا کر اگلے دن کے لیے اپنا اسکول یونیفارم استری کر رہا تھا۔
مزید پڑھیں: انسان اور برفانی تیندوے میں بڑھتا ہوا تنازع
شاہد کی والدہ نے بتایا کہ اپنے کپڑے استری کرنے کے بعد شاہد اپنے چھوٹے بھائی کے ساتھ گائے کو چرانے کے لیے قریب ہی ایک جنگل میں گیا مگر پھر واپس نہیں آیا۔
الجزیرہ سے بات کرتے ہوئے شاہد کی والدہ پروینہ گنائی نے دکھی آواز میں کہا کہ ’شاہد ہر روز گائے کو چرانے لے جاتا تھا مگر اس دن جیسے ہی وہ جنگل میں پہنچے تو ایک تیندوا ان پر ٹوٹ پڑا اور اس کو نوچتے ہوئے جھاڑیوں میں لے گیا جبکہ چھوٹا بھائی آج بھی اپنے بڑے بھائی کی آخری چیخ اور پکار کو یاد کر کے رونے لگتا ہے۔'
سری نگر سے 100 کلومیٹر دور ہمالیہ کی اونچی اور گہری پہاڑیوں کے بیچ گاؤں سے تھوڑے فاصلے پر رہنے والی پروینہ گنائی اپنے معصوم بچے کی یادیں سناتے ہوئی مزید غمزدہ ہوگئیں۔
شاہد احمد کے چھوٹے بھائی شاکر احمد نے اپنے بھائی کو اپنی آنکھوں کے سامنے تیندوے کے پنجوں سے نوچتے ہوئے دیکھا، شاکر نے اس پر دھیمی آواز میں کہا کہ میں دیکھ رہا تھا کہ شاہد کو خونخوار تیندوا اپنے منہ میں لیے جارہا ہے مگر میں اپنے بھائی کی چیخیں سن کر وہیں برف کی طرح جم گیا تھا۔
12 سالہ شاکر احمد نے بتایا کہ ’اس لمحے مجھ پر خوف طاری ہوگیا تھا، میں بس یہ سوچ رہا تھا کہ اب یہ چیتا مجھے بھی مار دے گا مگر میں نے سوچا کہ اگر میں اس خونخوار تیندوے کا نشانہ بنا تو ہمارے والدین کو ہماری لاشیں تو کیا ہماری ہڈیاں بھی نہیں ملیں گی، بس یہی سوچ کر میں وہاں سے جان بچا کر گھر کی طرف بھاگا۔'
یہ بھی پڑھیں: اس تصویر میں چھپے تیندوے کو پکڑ سکتے ہیں؟
شاکر کی والدہ کا کہنا تھا کہ اپنے بھائی کو اپنی آنکھوں کے سامنے مرتے دیکھنے کے بعد شاکر شدید غم و تکلیف میں مبتلا ہوگیا ہے۔
جب گاؤں والوں کو یہ اطلاع ملی تو سیکڑوں علاقہ مکین بچے کو ڈھونڈنے جنگل کی طرف نکل پڑے اور بعد ازاں پولیس اور محکمہ جنگلات کے اہلکار بھی وہاں پہنچ گئے۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ صبح ہونے کے قریب شاہد کی مسخ شدہ لاش جھاڑیوں میں پائی گئی۔
تیندوے کا شکار اکثر بچے ہوتے ہیں
اپنے معصوم بچے کا ذکر کرتے ہوئے پروینہ گنائی نے کہا کہ ہم اپنے بیٹے کی کے لیے دوپہر کو گھر سے نکلے اور رات کو دو بجے ہمیں بچے کی لاش کے ٹکڑے ملے تھے۔
انہوں نے کہا کہ اس سے قبل ہم نے کبھی ایسا واقعہ نہیں دیکھا تھا، اگر ہمیں علم ہوتا کہ ایسا دردناک واقعہ ہوگا تو ہم ہرگز اپنے بیٹوں کو گائے چرانے کے لیے نہ بھیجتے۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ اس واقعے کے دو دن بعد، جب ایک خاندان گاؤں جارہا تھا تو 5 کلومیٹر دور ایک 6 سالہ بچی کو بھی تیندوے نے اپنا شکار بنایا۔
مزید پڑھیں: کیا اس تصویر میں تیندوے کو تلاش کرسکتے ہیں؟
بٹنگی گاؤں میں نشانہ بنے والی بچی کی والدہ حلیمہ بیگم نے بتایا کہ ’یہ سب میری آنکھوں کے سامنے اور چند سیکنڈ میں ہوا‘۔
ایک گھنٹے کی تلاش کے بعد لڑکی کی لاش گاؤں والوں نے تین کلومیٹر دور جنگل میں ڈھونڈ نکالی۔
حلیمہ بیگم نے کہا کہ آخر میں، میں صرف اس کی لاش کے لیے دعا کر رہی تھی تاکہ میں قبر کی زیارت کر سکوں۔
اسی ہفتے اسی ضلع میں ہلاک ہونے والا تیسرا بچہ چولن کلسی گھاٹی گاؤں کا رہنے والا 12 سالہ امیر منیر تھا۔
ہمالیائی خطے میں چیتے کے حملوں کا زیادہ تر شکار چھوٹے بچے ہوتے ہیں جو اکثر بے خبر ہوتے ہیں اور چیتے کا شکار ہوجاتے ہیں کیونکہ وہ اپنا دفاع کرنے سے قاصر ہوتے ہیں۔
الجزیرہ کے مطابق 6 جولائی کو، 4 سالہ مہراز آزاد کو اس کے چچا کے گھر سے ایک تیندوا آدھا میل دور شمالی ضلع کپواڑہ کے گاؤں راجوار کے جنگل میں نوچتے ہوئے لے گیا تھا۔
مزید پڑھیں: برفانی تیندوے کا تحفظ ۔ وادیٔ بھاشا میں لڑکیوں کی تعلیم کا ذریعہ
تاہم گاؤں والوں نے 30 منٹ کے اندر اس کو ڈھونڈ لیا لیکن اس کے چہرے اور جسم پر گہرے زخم تھے اور بعدازاں زخموں کے تاب نہ لاتے ہوئے وہ دم توڑ گیا۔
اسی ضلع کے مونابل ہریل گاؤں میں 31 جولائی کو ایک اور چار سالہ بچہ ثاقب الدین بدانا تیندوے کے حملے میں ہلاک ہوگیا۔
اس ماہ 8 اگست کو ایک ننھا بچہ جب واگورہ گاؤں میں اپنے گھر سے باہر نکلا تو اس پربھی تیندوے نے حملہ کیا تاہم اس کو جلدی سے بچا لیا گیا لیکن اس پر تیندوے کی چوٹیں جان لیوا ثابت ہوئیں۔
انسانی-جنگلی حیات کا تنازع
رپورٹ کے مطابق مقامی انتظامیہ نے 2006 میں انسانوں اور جنگلی حیات کے تنازعات کا ریکارڈ رکھنا شروع کیا تھا، اس کے بعد سے حکومتی اعداد و شمار کے مطابق کم از کم 230 افراد ہلاک اور دو ہزار 800 زخمی ہوچکے ہیں۔
صرف 22-2021 میں وادی میں 12 افراد ہلاک اور 31 زخمی ہوئے، جس سے لوگوں میں خوف و ہراس پایا جاتا ہے۔
حکومتی اعداد و شمار کے مطابق بھارت کے زیر تسلط کشمیر میں 2015 سے 2019 کے دوران جنگلات میں کم از کم 420 مربع کلومیٹر کی کمی واقع ہوئی ہے، جس کی وجہ بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں، لکڑی کی اسمگلنگ اور مکانات کی بڑھتی ہوئی مانگ ہے۔
اس کے نتیجے میں زیادہ جنگلی جانور انسانی بستیوں میں دیکھے جاتے ہیں، جس کی وجہ سے ایک مہلک تنازع پیدا ہوتا ہے جو کہ مطالعے کے مطابق ’خطرناک شرح سے‘ تجاوز کر گیا ہے۔
ماہرین نے جانوروں کی رہائش گاہوں پر تجاوزات کرنے والی انسانی بستیوں کے خلاف خبردار کیا ہے۔
کشمیر کے دیہات میں بسنے والے افراد کا کہنا ہے کہ چیتے کے علاوہ کالے ریچھ بھی محفوظ جنگلاتی علاقوں سے نکل کر رہائشی علاقوں میں آرہے ہیں۔
مزید پڑھیں: آخری سندھی شہزادہ
گزشتہ برس اقوام متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام کی ایک رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ انسانوں اور جنگلی جانوروں کے درمیان تنازع دنیا کی چند اہم ترین نسلوں کی طویل مدتی بقا کے لیے ایک بڑا خطرہ ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ بھارت انسانی-جنگلی حیات کے تنازع میں سے سب سے زیادہ متاثر ہوگا کیونکہ اس میں دنیا کی دوسری سب سے بڑی انسانی آبادی کے ساتھ ساتھ شیروں، ایشیائی ہاتھیوں، گینڈے اور ایشیائی شیروں اور دیگر انواع کی بڑی آبادی بھی موجود ہے۔
مقبوضہ کشمیر جیسی جگہ جہاں زیادہ تر پہاڑی علاقے جنگلات سے گھرے ہوئے ہیں، انسانی اور جنگلی حیات کے بڑھتے ہوئے تنازع کے خدشات کے باعث دیہات میں لوگ بے چین ہیں اور ان کی نیندیں حرام ہو رہی ہیں۔
خطے کے جنگلی حیات کے وارڈن راشد یحییٰ نقاش نے بتایا کہ پہلے جنگلات اور انسانی رہائش کے درمیان ایک بفرزون ہوا کرتا تھا لیکن اب وہ سب ختم ہوگیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ انسانوں اور جنگلی حیات کے تنازعات میں اضافے کی ایک وجہ ’شہر کی تعمیر میں ناقص منصوبہ بندی‘ ہے، جس میں حساس ماحول کا خیال نہیں رکھا گیا اور گزشتہ 40 برسوں میں خاص طور پر جنگلات کے قریب انسانی آبادیاں قائم ہوئی ہیں اور یہ سب اسی کا نتیجہ ہے۔