ڈیفالٹ ہونے کے بعد کیا ممالک دوبارہ ترقی کرسکتے ہیں؟ جواب ہے جی ہاں!
اس وقت دنیا بھر میں کمزور معیشت والے ممالک پر بڑھتے قرضوں کی وجہ سے دیوالیہ یا ڈیفالٹ ہونے کے خدشات منڈلا رہے ہیں۔
ڈیفالٹ کیا ہے، اس کی سادہ ترین تعریف یہ ہے کہ کوئی بھی انسان، ادارہ یا ملک اپنے لیے گئے ملکی اور بیرونی قرضوں کی اقساط بروقت ادا کرنے سے قاصر ہو اور مقررہ تاریخ پر قسط ادا نہ کرسکے، اس کو ڈیفالٹ یا نادہندگی کہتے ہیں۔
اس وقت سری لنکا کا دیوالیہ ہونا خبروں کی زینت بنا ہوا ہے جبکہ کہا جارہا ہے کہ دنیا کے 12 ترقی پذیر ملک دیوالیہ ہونے کے خدشے سے دوچار ہیں۔ جس وقت یہ سطور تحریر کی جارہی تھیں اس سے چند ہفتے قبل تک پاکستان کا نام بھی دیوالیہ ہونے کے خطرے سے دوچار ملکوں کی فہرست میں شامل کیا جارہا تھا مگر اب پاکستان ڈیفالٹ کے خطرے سے تقریباً نکل چکا ہے۔
فروری 2022ء میں آئی ایم ایف سے معاہدے کے بعد قرض ملنے کی توقع تھی مگر سابقہ حکومت کی جانب سے اٹھائے گئے اقدامات نے اس قرض کو تعطل میں ڈال دیا۔ اب امید ہے کہ پاکستان میں بلند ترین شرح سود، روپے کی قدر میں تیزی سے کمی، پیٹرول اور بجلی کی قیمتوں میں اضافے کے بعد اس مہینے آئی ایم ایف سے پاکستان کو قرض کی قسط جاری ہوجائے گی۔
مگر اہم بات یہ ہے کہ پاکستان نے اس دوران نہ صرف اپنے بیرونی قرضوں کی ادائیگیاں بروقت کیں بلکہ مقامی قرضوں کو بھی بروقت چکایا اور یوں بعض لوگوں کی خواہش کے باوجود ڈیفالٹ ہونے سے بچ گیا۔ مگر تجریہ کاروں کے مطابق دنیا کے ترقی پذیر ملکوں میں تقریباً 400 ارب ڈالر مالیت کے قرضوں کے ڈوبنے کا خدشہ موجود ہے جس میں سے ارجنٹینا کے 150 ارب ڈالر، ایکواڈور کے 40 ارب ڈالر اور مصر کے 45 ارب ڈالر کے قرضے شامل ہیں۔
عالمی اداروں کے مطابق 1960ء سے لے کر اب تک 147 ملک دیوالیہ ہوئے ہیں۔ روس-یوکرین جنگ کی وجہ سے ان کو پابندیوں کا سامنا ہے جس کی وجہ سے وہ اپنے قرضوں کی اقساط بروقت ادا کرنے میں ناکام ہے۔ روس اپنے 11 کروڑ 70 لاکھ ڈالر مالیت کی قسط ادا نہیں کرسکا ہے۔
کمزور معیشت اور غیر محتاط اخراجات وہ اہم وجوہات ہیں جو ملک کو ڈیفالٹ یا دیوالیہ کرنے کے لیے کافی ہیں۔ وہ ممالک جنہوں نے زرِمبادلہ میں قرض لیے ہوں انہیں زیادہ مشکلات کا سامنا ہوسکتا ہے کیونکہ اگر انہیں رقم کی ضرورت ہو تو بھی ان کا مرکزی بینک انہیں کرنسی چھاپ کر نہیں دے سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ زیادہ تر ڈیفالٹ کرنے والے ممالک اپنے غیر ملکی قرضوں پر نادہندہ ہوئے۔
اس تحریر میں ماضی میں نادہندہ ہونے والے ممالک بشمول ارجنٹینا اور یونان کے ڈیفالٹ کو تفصیل سے بیان کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ واضح رہے کہ اس تحریر میں پاکستانی معیشت کو موضوع نہیں بنایا گیا ہے کیونکہ ملکی معیشت پر آج کل بہت کچھ لکھا جاچکا ہے اور لکھا جارہا ہے۔
ڈیفالٹ ہونے سے مراد کیا ہے؟
جس طرح کوئی کاروباری کمپنی قرض لیتی ہے عین اسی طرح ملک بھی مختلف اداروں سے قرض لیتے ہیں اور قرض واپس بھی کرتے ہیں۔
اگر کوئی کمپنی نادہندہ ہوجائے تو اس کے خلاف ملکی قانون کے مطابق کارروائی ہوتی ہے اور عدالت کمپنی کے اثاثے فروخت کرکے اس کی رقم قرض دینے والوں کو واپس کرنے کا حکم دیتی ہے۔ لیکن اگر کوئی ملک ڈیفالٹ ہوجائے تو اس کے خلاف کسی کمپنی کی طرح کوئی قانونی چارہ جوئی تو نہیں ہوسکتی مگر اس ملک کی پوری قوم کو اس کی قیمت چکانا پڑتی ہے تاہم قرض دینے والے اپنے رقم کی وصولی کے لیے ملکی وسائل پر زبردستی قبضہ نہیں کرسکتے ہیں۔
ملک کے نادہندہ ہونے کی صورت میں اس ملک کو مزید قرض کا حصول مشکل ہوجاتا ہے۔ جب بھی کوئی ملک دیوالیہ ہوتا ہے تو وہ اپنے قرض دینے والوں کے ساتھ معاملات کو حل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
کسی بھی ملک کے دیوالیہ ہونے کے بعد سب سے پہلے اس ملک کے بنیادی شرح سود پر اثرات مرتب ہوتے ہیں اور عالمی منڈی میں جاری کیے گئے ایسے بانڈز جن کی ادائیگی کی تاریخ قریب ہو ان پر شرح سود بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے یوں اس ملک میں کام کرنے والے کاروباری اداروں کو بھی قرض زائد شرح سود پر ملتا ہے۔ بانڈز پر شرح سود بڑھنے سے تجارتی لین دین بھی بُری طرح متاثر ہوتی ہے اور مقامی بینک قرضوں پر بھی شرح سود بڑھا دیتے ہیں۔
جو ملک نادہندہ ہوجاتے ہیں انہیں بیرونی ذرائع سے قرض کی فراہمی تقریباً رک جاتی ہے اس لیے وہ مقامی ضروریات پورا کرنے کے لیے کرنسی نوٹوں کی چھپائی کرکے مقامی ادائیگیاں کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس سے ملکی پیداوار کے مقابلے میں دستیاب رقم بہت زیادہ ہوجاتی ہے۔ اس لیے اس ملک میں ہائپر انفلیشن کی صورتحال پیدا ہوتی ہے۔
اس کے علاوہ نادہندہ ملک کو اپنی بیرونی ادائیگیوں کے لیے سرمایہ دستیاب نہیں ہوتا ہے تو انٹرنیشنل کرنسی مارکیٹ میں اس کی کرنسی اپنی قدر کھونا شروع کردیتی ہے۔ اس سے افراطِ زر میں مزید اضافہ ہوتا ہے۔ اگر کوئی ملک بہت زیادہ درآمدات پر انحصار نہ کرتا ہو تو پھر اس کی کرنسی پر بہت زیادہ دباؤ نہیں پڑتا ہے۔
بڑھتی ہوئی مہنگائی اور کرنسی کی عدم دستیابی پر لوگوں کی بڑی تعداد بینکوں سے رقوم کو نکلوانا شروع کردیتی ہے اور بینکوں کے باہر صارفین کی قطاریں لگ جاتی ہیں۔ لوگ اس خطرے کا بھی شکار ہوجاتے ہیں کہ کہیں حکومت جبری طور پر ان کی رقوم پر قبضہ نہ کر لے۔ جب بہت بڑی تعداد میں لوگ بینکوں سے رقم نکلوانے کی کوشش کرتے ہیں اور بینکوں پر رش لگ جاتا ہے تو ایسی صورت کو رن آن بینک کہتے ہیں۔
کسی ملک کے ڈیفالٹ کی صورت میں پوری معیشت متاثر ہوتی ہے اور سرمایہ کاری کا ماحول تباہ ہوجاتا ہے۔ اس کے اثرات سے اسٹاک مارکیٹ بھی محفوظ نہیں رہتی۔ اسٹاک مارکیٹ میں سرمایہ کار حصص کی فروخت پر توجہ دیتے ہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ سرمائے کو محفوظ کرسکیں۔ ملک ڈیفالٹ ہونے کی صورت میں چند دنوں میں اسٹاک مارکیٹ 40 سے 50 فیصد تک اپنی کیپٹلائزیشن کھودیتی ہے۔
جب کوئی ملک ڈیفالٹ کرتا ہے تو اس کی بیرونی تجارت بھی متاثر ہوتی ہے۔ کوئی غیر ملکی بینک ایک ڈیفالٹ بینک کے لیٹر آف کریڈٹ کو تسلیم اور قبول نہیں کرتا ہے۔ اس سے اس ملک کی درآمدات تقریباً رک جاتی ہیں اور ملک کے اندر ضروری اجناس کی قلت پیدا ہوسکتی ہے۔
اس تمام صورتحال میں نادہندہ ملک کے اندر بے روزگاری میں تیزی سے اضافہ ہوتا ہے۔ حکومت اور کارپوریٹس دونوں اپنے کاروبار کو محدود کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور نئی ملازمت دینے کے بجائے پہلے سے موجود ملازمین کو فارغ کرکے اخراجات کم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس سے ملک کے اندر بے روزگاری تیزی سے بڑھ جاتی ہے۔
یعنی کسی ملک کے نادہندہ ہونے کے منفی اثرات پورے ملک کی معیشت کو لے بیٹھتے ہیں۔ ساتھ ہی ملک کے اندر مہنگائی، بے روزگاری، منفی سرمایہ کاری کی صورتحال کے علاوہ عام استعمال کی اشیا خصوصاً ایندھن کی شدید قلت پیدا ہوجاتی ہے۔
کونسے ممالک کب اور کتنی بار ڈیفالٹ ہوئے؟
تاریخ میں بہت سے ملک ایسے گزرے ہیں جو نادہندہ ہوئے۔ تاریخی کتب سے پتا چلتا ہے کہ یونان 377 سال قبل مسیح میں نادہندہ ہوا تھا۔ اسپین 1700ء میں 6 اور 1800ء میں 7 مرتبہ نادہندہ ہوا۔ اس کے بعد اسپین نے اپنے مالیاتی نظم و نسق کو بہتر کیا اور دیوالیہ ہونے سے محفوظ رہا۔ حکومتی ضمانتی قرضوں کا سب سے بڑا ڈیفالٹ آئس لینڈ بینک کا ہوا جس کے بعد ملک میں کساد بازاری ہوئی۔
امریکا
آج امریکا کو دنیا کی سب سے بڑی فوجی اور معاشی طاقت سمجھا جاتا ہے مگر 1840ء میں امریکی معیشت بھی دیوالیہ ہوئی ہے۔ اس وقت امریکا کی 26 میں سے 19 ریاستوں نے اپنے قرضوں پر ڈیفالٹ کا اعلان کیا تھا۔ اس ڈیفالٹ کی وجہ یہ تھی کہ امریکا میں تیزی سے نہری نظام کو قائم کرنے کی کوشش کی جارہی تھی جس کے لیے 8 کروڑ ڈالر خرچ ہوئے۔ اس رقم کی ادائیگی وعدے کے مطابق اور بروقت نہ ہوسکی۔
کچھ ایسی ہی صورتحال 1933ء میں پیش آئی جب قرضوں کی واپسی کا عمل شروع ہوا تو معاہدے کے تحت لیے گئے قرضے کے عوض امریکی حکومت نے سونا واپس کرنا تھا۔ مگر قرض کی مالیت امریکی حکومت کے پاس موجود سونے سے زائد ہوگئی جس کے بعد ایک قانون منظور کرکے قرض دینے والوں کو مقامی کرنسی میں ادائیگیاں کی گئیں۔
اس کے علاوہ 1979ء میں حکومت اور کانگریس کے درمیان تنازعے کی وجہ سے حکومت بروقت ادائیگیاں کرنے میں ناکام رہی۔ اسی طرح سال 2013ء میں امریکی حکومت اور کانگریس کے درمیان زیادہ سے زیادہ قرض کی حد کے معاملے پر ڈیڈ لاک پیدا ہوا اور کانگریس کی جانب سے قرض کی حد نہ بڑھائے جانے کی وجہ سے امریکی حکومت کئی ادائیگیوں کو بروقت نہ کرسکی۔ مگر چونکہ امریکی حکومت کی کرنسی ڈالر ہے جو دنیا کی ریزرو کرنسی ہے تو اس وجہ سے امریکا کو دیگر ملکوں کی طرح ڈیفالٹ کا سامنا نہیں ہوا۔
میکسیکو
میکسیکو میں 1994ء کے دوران مقامی کرنسی (پیسو) کی تیزی سے گراوٹ نے بحران پیدا کیا اور میکسیکو کی کرنسی پیسو نے ڈالر کے مقابلے میں اپنی قدر 15 فیصد کھو دی تھی۔ پیسو کی قدر میں تیزی سے ہونے والی کمی کی وجہ سے غیر ملکی سرمایہ کاروں نے اپنا سرمایہ نکالنا شروع کردیا اور میکسیکن اسٹاک ایکسچینج میں غیر ملکی سرمایہ کاروں نے تیزی سے حصص کو فروخت کیا۔ اس سے اسٹاک ایکسچینج کا انڈیکس منہ کے بل آگرا اور مکیسیکو نے مرکزی بینک کے فروخت کردہ بانڈز پر امریکی ڈالرز میں ادائیگی سے معذوری ظاہر کی۔ اس مالیاتی بحران کی وجہ سے میکسیکو کا جی ڈی پی 5 فیصد گرگیا۔
اس صورتحال میں آئی ایم ایف اور کینیڈا نے میکسیکو کو فنڈز فراہم کیے جبکہ امریکی صدر بل کلنٹن نے میکسیکو کے لیے 50 ارب ڈالر کے قرض کی منظوری دی۔ اس سے نہ صرف میکسیکو کی گرتی ہوئی معیشت کو بچانے میں مدد ملی بلکہ اس سے لاطینی امریکا کے ملکوں کی معیشت کو بھی دوبارہ اٹھنے میں مدد ملی۔ بصورت دیگر یہ مالیاتی بحران ان ملکوں کو طویل مدت تک متاثر کرسکتا تھا۔
روس
1998ء میں روسی حکومت کی ایما پر مرکزی بینک نے اس وجہ سے روسی کرنسی کی قدر میں کمی کا اعلان کیا کیونکہ وہ اپنے قرضوں کی ادائیگی سے قاصر تھا۔ اس کے بعد روسی معیشت تقریباً 6 سال تک سنبھل نہ سکی۔ روسی حکام کا کہنا تھا کہ روبل کرنسی کی قدر تیزی سے کم ہورہی تھی اور اس کو بچانے کے لیے روسی مرکزی بینک نے کیپٹل مارکیٹ میں 5 ارب ڈالر جھونک دیے مگر روبل کی قدر کو اپنی جگہ مستحکم رکھنے میں ناکام رہی۔
اس بحران کی وجہ سے اسٹاک مارکیٹ کو کاروبار شروع ہونے کے 35 منٹ بعد ہی بند کرنا پڑا۔ روس کے اس بحران کی وجہ سے امریکا، ایشیائی بالٹک اور یورپی ملکوں کی مارکیٹوں پر بھی منفی اثرات مرتب ہوئے۔ بعد ازاں یہ بات بھی سامنے آئی کہ آئی ایم ایف اور عالمی بینک کی جانب سے فراہم کردہ 5 ارب ڈالر کے قرض کی رقم بھی اس مالیاتی بحران میں چوری ہوئی۔
آئس لینڈ
آبادی کے لحاظ سے آئس لینڈ ایک چھوٹا سا ملک ہے مگر اس نے دنیا کے ایک بڑے مالیاتی بحران کو جنم دیا۔ اس بحران میں ملک کے 85 ارب ڈالر ڈوب گئے اور آئس لینڈ کے 3 بینک اپنے قلیل مدتی قرضوں کی ادائیگی کرنے میں ناکام رہے۔ اس پر آئس لینڈ کی حکومت کو مستعفی ہونا پڑا اور 3 لاکھ کی آبادی میں 50 ہزار شہری اپنی جمع پونجی سے محروم ہوگئے۔
اس بحران نے عالمی معیشت کو ہلاکر رکھ دیا۔ اس بحران کے بعد آئس لینڈ کی معیشت کئی سال تک معاشی بحران کا شکار رہی اور 2013ء میں اس کی معیشت نے 3 فیصد کی شرح سے ترقی کی۔
یونان
جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے کہ تاریخ انسانی میں اگر کسی پہلے ملک کے دیوالیہ ہونے کا سب سے قدیم سراغ ملتا ہے تو وہ یونان ہے۔ مگر تاریخ حاضر میں بھی یونان نے دیوالیہ ہونے کے نئے ریکارڈ قائم کیے ہیں۔
یونان یورپی یونین کا حصہ بننے سے قبل بھی مالیاتی نظم و نسق میں عدم توازن کی وجہ سے بحران کا شکار رہا ہے۔ 1992ء میں یورپی یونین کے قیام اور 2001ء میں یونان کو رکنیت ملنے کے بعد پوری یورپی معیشت یونان کے بحران کی وجہ سے متاثر رہی ہے۔
یونان نے 2001ء میں یورپی یونین میں شمولیت اختیار کی مگر اس کی معیشت 1997ء سے 2007ء کے درمیان عدم استحکام کا شکار تھی۔ حکومت نے 2004ء میں اولمپکس کے انعقاد کے لیے بڑے پیمانے پر قرض لیا جس کی وجہ سے قرض جو جی ڈی پی کا 6.1 فیصد تھا بڑھ کر 110 فیصد ہوگئے۔ اس کے علاوہ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں کو بھی تیزی سے بڑھایا گیا۔
یورپی کمیشن نے 2005ء میں یونان کو مالیاتی نگرانی میں لے لیا۔ سال 2008ء کے مالیاتی بحران کی وجہ سے بنیادی شرح سود میں تیزی سے اضافہ ہوا جس سے یونان کی قرض واپس کرنے کی صلاحیت بُری طرح متاثر ہوئی اور یونان اپنے بیرونی قرضوں پر ڈیفالٹ کرگیا۔
سال 2010ء میں آئی ایم ایف نے یونان کو 110 ارب یورو (146 ارب ڈالر) کا بیل آؤٹ دیا جبکہ یورپی یونین کے 80 ارب یورو کے قرض میں سے 22 ارب یورو جرمنی نے فراہم کیے۔ یونانی حکومت کو مالیاتی نظم و نسق بہتر بنانے کے وعدے پر یہ قرض دیا گیا تھا۔ بڑھتے ہوئے ٹیکسوں، مہنگائی، بے روزگاری اور تنخواہوں، پنشن اور سوشل سیکیورٹی میں کٹوتی کی وجہ سے یونان کو شدید عوامی ردِعمل کا سامنا بھی کرنا پڑا اور یونان میں بڑے پیمانے پر ہنگامہ آرائی اور جلاؤ گھیراؤ نے حکومتوں کو مفلوج کردیا۔ تمام تر معاونت کے باوجود یونان اپنے قرض واپس نہ کرسکا تو آئی ایم ایف نے 2012ء میں یونان کو مزید 130 ارب یورو بیل آؤٹ دینے کے علاوہ اس کے 53 فیصد سے زائد قرضوں کو معاف کرنے کا بھی فیصلہ کیا۔ یونان کو اپنے قرض اور جی ڈی پی کے تناسب کو 160 فیصد سے کم کرکے 120 فیصد پر لانے کی شرط عائد کی گئی۔
2015ء میں یونان ایک مرتبہ پھر آئی ایم ایف کو قرض کی قسط دینے میں ناکام رہا اور یوں اگست 2015ء میں یونان کو ایک دہائی سے بھی کم عرصے کو 86 ارب یورو کا تیسرا بیل آؤٹ دیا گیا۔ یونان نے ایک مرتبہ پھر ٹیکس اصلاحات، اخراجات میں کمی، سرکاری اداروں کی نجکاری، محنت کشوں کے قوانین میں نرمی کا وعدہ کیا۔
یونانی معیشت مسلسل اتار چڑھاؤ اور طویل مدتی مالیاتی بحران کے بعد اب دوبارہ اپنے پاؤں پر کھڑی ہوتی نظر آرہی ہے اور آئی ایم ایف کا کہنا ہے کہ یونان کی معیشت نے کورونا کے بعد توقع سے زیادہ ترقی کی ہے۔ یونانی معیشت سال 2022ء میں 3.5 فیصد کی شرح سے ترقی کرے گی۔ یونان نے معاشی اور مالیاتی بحران سے نکلنے کے لیے متعدد اصلاحات کی ہیں جن میں معیشت کو ڈیجیٹلائز کرنا، سرکاری اداروں کی نجکاری، مالیاتی پالیسی کو بہتر بنانا اور بینکوں کے حسابات کو درست کرنا شامل ہے۔
ارجنٹینا
یہ سال 2014ء کی بات ہے کہ میں نے عالمی مالیاتی نظام کے ایک طالب علم کی حیثیت سے ارجنٹینا کے معاملات دیکھنا شروع کیے۔ مجھے یہ جان کر سب سے زیادہ حیرت ہوئی کہ موجودہ معاشی نظام میں اگر کسی ملک کو سب سے زیادہ ڈیفالٹ کا سامنا کرنا پڑا ہے تو وہ ارجنٹینا ہے۔ ارجنٹینا نے معاشی ترقی اور پھر تنزلی کے بہت سے ادوار دیکھے ہیں اور گزشتہ تقریباً 150 سال میں یا یوں کہیے کہ جدید تاریخ میں یہ ملک 9 مرتبہ ڈیفالٹ ہوا ہے۔
ارجنٹینا کا پہلا ڈیفالٹ 1827ء میں اس وقت ہوا جب ملک کو آزاد ہوئے صرف 11 سال ہوئے تھے۔ اس بحران سے قبل ارجنٹینا دنیا کے خوشحال ترین ملکوں میں شامل ہوتا تھا مگر اخراجات میں غیر معمولی اضافے نے ارجنٹینا کے قرض واپس کرنے کی صلاحیت کو بُری طرح متاثر کیا۔ معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ ارجنٹینا کی تاریخ ہے کہ وہ بہت زیادہ قرض لیتا ہے اور مالیاتی یا زری استحکام کا مظاہرہ نہیں کرتا ہے۔
آزادی کے فوری بعد 1816ء میں ارجنٹینا نے اپنے ملک کو غیر ملکی سرمایہ کاروں کے لیے کھولا، ترقی کے عمل کو جاری رکھنے کے لیے ارجنٹینا نے لندن میں بانڈز فروخت کیے مگر برطانوی مرکزی بینک نے بنیادی شرح سود میں اضافہ کردیا۔ یوں ارجنٹینا کو 2 سال بعد ان بانڈز پر ڈیفالٹ کرنا پڑا اور ارجنٹینا نے آئندہ 30 سال تک اس قرض کو چکانے میں لگا دیے۔
اس کے بعد ارجنٹینا نے ملک میں ریلوے کا جال بچھانے کے لیے قرض لیا۔ برطانوی بینکوں نے ارجنٹینا کے ریلوے نظام میں بڑی سرمایہ کاری کی، مگر حکومت قرض کی بروقت ادائیگی میں ناکام رہی اور اس کے بعد معیشت کو دلدل سے نکالنے میں مزید 4 سال لگ گئے۔ یہ ارجنٹینا کا دوسرا ڈیفالٹ تھا
1900ء کے بعد ارجنٹینا کی معیشت کے لیے بہترین دور رہا۔ یہاں نہ سرمائے کی قلت تھی اور نہ زرعی شعبے میں کام کرنے والے غیر ملکی محنت کشوں کی۔ مگر پہلی جنگِ عظیم کی وجہ سے معیشت کو نقصان ہوا اور بعد ازاں عظیم کساد بازاری نے ارجنٹینا کی معیشت کو متاثر کیا۔ بے روزگاری نے 1930ء میں سماجی عدم استحکام پیدا کیا اور مارشل لا لگ گیا۔ یوں 1931ء میں ارجنٹینا نے تیسری مرتبہ ڈیفالٹ کیا۔
1946ء میں ارجنٹینا میں کاروباری اداروں کو قومیانے کا سلسلہ شروع ہوا مگر 1956ء میں مارشل لا نے معیشت کو بحران میں مبتلا کردیا اور ارجنٹینا کو چوتھے ڈیفالٹ کا سامنا کرنا پڑا۔
فوجی حکمرانوں نے معیشت چلانے کے لیے امریکی اور برطانوی بینکوں سے بڑے پیمانے پر قرض لیا۔ اس طرح غیر ملکی قرضہ 8 ارب ڈالر سے 46 ارب ڈالر تک جاپہنچا۔ اس دوران امریکا میں بڑھتی مہنگائی کو قابو کرنے کے لیے شرح سود 20 فیصد کردی گئی۔ اس سے پورے لاطینی امریکا میں قرضوں کا بحران پیدا ہوا اور ارجنٹینا سمیت 27 ملکوں نے اپنے قرضے ری اسٹرکچر کیے۔
ارجنٹینا 1980ء کی دہائی میں بحران کا شکار رہا اور مہنگائی کو قابو میں کرنے میں ناکام رہا۔ معاشی ترقی کے باوجود ارجنٹینا کا بیرونی قرض 100 ارب ڈالر کو پہنچ گیا تھا۔ اس کی ادائیگی بروقت نہ ہوسکی اور پانچویں مرتبہ ملک کو ڈیفالٹ کا سامنا کرنا پڑا۔
موجودہ صدی کے آغاز پر مہنگائی کو قابو نہ رکھنے کی وجہ سے عوام پریشان تھے۔ ارجنٹینا کو 95 ارب ڈالر کے بانڈز کی ادائیگی کرنا تھی مگر ایک مرتبہ پھر وہ بروقت ادائیگی نہ کرسکا اور اسے 2001ء میں ڈیفالٹ کا سامنا کرنا پڑا۔ اس کے بعد قرضوں کی نتظیمِ نو کرنے کا معاہدہ 2005ء میں ہوا۔ اس میں قرض دینے والوں کو 70 فیصد قرض چھوڑنا پڑا اور انہیں محض 30 فیصد واپس ملی۔
سال 2014ء میں ارجنٹینا نے ایک مرتبہ پھر ڈیفالٹ کیا۔ اس کے بعد 2020ء میں ارجنٹینا کو ایک مرتبہ پھر ادائیگیوں کے مسائل کا سامنا رہا۔ 2018 میں اس نے 56 ارب ڈالر کی ادائیگیاں کرنا تھی جس پر پھر ڈیفالٹ ہوا۔
جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے کہ دنیا کے بیشتر ممالک نے جدید معاشی نظام میں کسی نہ کسی وقت ڈیفالٹ یا نادہندگی کا سامنا کیا ہے۔ اوپر چند ملکوں کی مثالیں دی گئی ہیں۔ ان میں کچھ ملکوں کو ایک یا 2 مرتبہ ڈیفالٹ کا سامنا کرنا پڑا مگر ان ملکوں نے خود کو سنبھالا اور اپنے معاشی نظام اور مالی نظم ونسق کو بہتر بنایا جس سے وہ مستحکم ترقی کے ساتھ ساتھ نادہندہ ہونے سے بھی بچتے رہے ہیں۔ اس لیے گھبرانے کی ضرورت نہیں، اگر پاکستان بھی اپنے مالیاتی نظم و نسق کو بہتر بنالے تو وہ بھی باآسانی مستقبل میں ڈیفالٹ جیسی صورتحال سے بچ سکتا ہے، اور ہماری دعا ہے کہ ایسا ہی ہوگا۔
تبصرے (2) بند ہیں