پنجاب میں گرفتاریوں کا خوف، مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں نے اسلام آباد میں پناہ لے لی
پنجاب میں مسلم لیگ (ق) اور پی ٹی آئی کی مخلوط حکومت کی جانب سے شریف خاندان کے قریبی ساتھیوں کے گرد مختلف مقدمات کے ذریعے گھیرا تنگ کیے جانے کے پیش نظر مسلم لیگ (ن) کے رہنما گرفتاری سے بچنے کے لیے اسلام آباد چلے گئے ہیں جہاں ان کی جماعت برسراقتدار ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق لاہور پولیس نے گزشتہ روز پنجاب اسمبلی حملہ کیس میں وزیر اعظم کے معاون خصوصی عطا اللہ تارڑ اور مسلم لیگ (ن) کے سابق وزیر رانا مشہود کے خلاف کارروائی کا آغاز کر دیا۔
یہ کیس وزیراعلیٰ پرویز الٰہی کی جانب سے 16 اپریل کو وزارت اعلیٰ کے پچھلے انتخابات کے دوران مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں کی مبینہ غنڈہ گردی کے الزام پر درج کروایا گیا تھا۔
پولیس کی ایک ٹیم نے مسلم لیگ (ن) کے دونوں رہنماؤں کی رہائش گاہوں پر چھاپہ مارا تاہم انہیں خالی ہاتھ واپس لوٹنا پڑا کیونکہ ملزمان اسلام آباد فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے تھے، اس کیس میں مطلوب وزیراعظم کے ایک اور معاون ملک احمد خان پہلے ہی وفاقی دارالحکومت میں موجود ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: حکومت کی شہباز گل کے جسمانی ریمانڈ کیلئے اسلام آباد ہائیکورٹ میں درخواست
موجودہ سیاسی منظر نامے میں بظاہر ایسا لگتا ہے کہ مسلم لیگ (ن) پنجاب کے مرکزی رہنما گرفتاری کے خوف سے فی الحال صوبے کی حدود میں داخل ہونے کا ارادہ نہیں کر سکتے، اسی طرح پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چند رہنما شہباز گل کی اسلام آباد میں گرفتاری کے بعد وفاقی دارالحکومت کا رخ کرنے سے احتیاط برت رہے ہیں، پنجاب بمقابلہ مرکز کے اس جھگڑے میں کوئی بھی فریق (پی ٹی آئی یا مسلم لیگ ن) سیاسی درجہ حرارت کو کم کرنے کے لیے تیار نظر نہیں آرہا۔
پی ٹی آئی رہنماؤں اور مظاہرین کے خلاف 25 مئی کو اسلام آباد میں 'پُرامن' لانگ مارچ کے دوران پولیس کی کارروائی کو پارٹی قیادت پہلے ہی غیر قانونی قرار دے چکی ہے جوکہ مبینہ طور پر وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ اور وزیر اعظم شہباز شریف کے بیٹے حمزہ شہباز کے حکم پر کی گئی تھی جو اس وقت وزیر اعلیٰ تھے۔
پنجاب میں پی ٹی آئی کی قیادت پر مبینہ تشدد کے واقعہ میں حمزہ شہباز کا ’مرکزی کردار‘ سمجھا جاتا ہے جوکہ اپنے گرد گھیرا تنگ ہونے کا خطرہ محسوس کرتے ہوئے پہلے ہی ملک چھوڑ کر برطانیہ جانے میں کامیاب ہوچکے ہیں۔
پی ٹی آئی کی جانب سے رانا ثنا اللہ پر الزام عائد کیا گیا تھا کہ انہوں نے 25 مئی کو پارٹی کے حامیوں کو اسلام آباد پہنچنے سے روکنے کے لیے 'فاشسٹ ہتھکنڈے‘ استعمال کیے جس کی قیمت انہیں چکانی پڑے گی۔
مزید پڑھیں: ‘انتقامی کارروائی کسی کےخلاف نہیں ہونی چاہیے’، شیریں مزاری کی گرفتاری پر مذمتی بیانات
وفاقی وزیر داخلہ نے پنجاب حکومت کو خبردار کیا کہ ان کے خلاف کسی بھی کارروائی سے مرکز اور پنجاب کے درمیان کشیدگی بڑھے گی اور صوبے میں گورنر راج نافذ ہو جائے گا۔
دوسری جانب شریف خاندان کی ہدایت پر وفاقی وزیر داخلہ نے ایف آئی اے کو حکم دیا کہ وہ ممنوعہ فنڈنگ کیس میں مبینہ طور پر ملوث ہونے پر عمران خان اور پی ٹی آئی کے دیگر رہنماؤں کے خلاف سخت کارروائی کرے۔
پی ٹی آئی کے سابق وزیر فواد چوہدری نے بھی خبردار کیا کہ اگر بنی گالا میں عمران خان کی رہائش گاہ پر چھاپہ مارا گیا تو اس کے اثرات لاہور میں شریف خاندان کی رہائش گاہ جاتی امرا پر بھی پڑیں گے۔
ایک ٹوئٹ میں عطا اللہ تارڑ نے کہا کہ پولیس نے لاہور میں ان کی اس رہائش گاہ پر چھاپہ مارا جہاں وہ 15 برس پہلے رہتے تھے۔
یہ بھی پڑھیں: رانا ثنا اللہ کےخلاف فرد جرم کی کارروائی ایک بار پھر مؤخر
انہوں نے وزیر داخلہ پنجاب کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’ ہاشم ڈوگر صاحب میرا خیال تھا آپ وزیر ہیں مگر آپ تو انتہائی غیر سنجیدہ کردار نکلے، جس گھر میں، میں 15 سال پہلے رہتاتھا وہاں پولیس بھیج کر کسی راہگیر کو ہراساں کر کے کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں، یہ حال ہے آپ کا، خاک وزارت چلانی ہے آپ نے۔ ملک دشمن بیانیے کے دفاع میں اتنا آگے نہ جائیں‘۔
ہاشم ڈوگر نے عطا اللہ تارڑ کی ٹوئٹ کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ’عطا تارڑ آپ پیش ہو جائیں قانون آپ کا انتظار کر رہا ہے، آج پولیس نے لاہور میں آپ کے گھر نوٹس دیا ہے، اگر قانون کی طاقت سمجھتے ہیں تو لاہور میں پیش ہو جائیں‘۔
لاہور پولیس کے سربراہ غلام محمود ڈوگر نے بتایا کہ عطا تارڑ اور رانا مشہود کو پنجاب اسمبلی حملہ کیس کی تحقیقات میں پیش ہونے کے لیے نوٹس بھیجے گئے تھے۔
تاہم پی ٹی آئی کے رہنما فواد چوہدری اور فوکل پرسن اظہر مشوانی نے دعویٰ کیا کہ عطا اللہ تارڑ کے خلاف کارروائی 25 مئی کو پارٹی کارکنوں پر تشدد کے سلسلے میں شروع کی گئی تھی، انہیں چھپنے کی بجائے اپنی پوزیشن واضح کرنے کے لیے سامنے آنا چاہیے۔