حکومت کی شہباز گل کے جسمانی ریمانڈ کیلئے اسلام آباد ہائیکورٹ میں درخواست
وفاقی حکومت نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما شہباز گل کے جسمانی ریمانڈ کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دائر کرتے ہوئے جوڈیشل مجسٹریٹ کی جانب سے کے حکم کو کالعدم قرار دینے کی استدعا کردی۔
ایڈوکیٹ جنرل اسلام آباد جہانگیر جدون نے شہباز گل کے جسمانی ریمانڈ کی استدعا مسترد ہونے کے خلاف درخواست دائر کی جس کو رجسٹرار نے پیر کو سماعت کے لیے مقرر کر دی۔
مزید پڑھیں: اسلام آباد: شہباز گل کے جسمانی ریمانڈ میں توسیع کی استدعا مسترد
اسلام آباد ہائی کورٹ کے قائم مقام چیف جسٹس عامر فاروق درخواست پر سماعت کریں گے۔
ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نے درخواست میں شہباز گل اور دیگر کو فریق بناتے ہوئے استدعا کی ہے کہ جوڈیشل مجسٹریٹ کا حکم کالعدم قرار دے کر شہباز گل کا جسمانی ریمانڈ منظور کرلیا جائے۔
انہوں نے درخواست میں کہا کہ عدالت قرار دے کہ شہباز گل کیس میں جوڈیشل حکم نہیں تھا بلکہ انتظامی حکم دیا گیا ہے۔
واضح رہے کہ اسلام آباد پولیس نے 9 اگست کو پی ٹی آئی رہنما شہباز گل کو بغاوت اور عوام کو ریاستی اداروں کے خلاف اکسانے کے الزام میں گرفتار کیا تھا اور ابتدائی طور پر 2 روزہ جسمانی ریمانڈ دیا گیا تھا۔
دوران سماعت سرکاری وکیل کا کہنا تھا کہ شہباز گل کا میڈیا ٹرائل نہیں ہو رہا، قانونی کارروائی آگے بڑھا رہے ہیں، شہباز گل کی ایف آئی اے فرانزک رپورٹ مثبت آئی ہے، شہباز گل کا ٹرانسکرپٹ اداروں کے خلاف ہے۔
پراسیکوٹر نے مزید کہا تھا کہ جب موبائل مل جائے گا فرانزک ہوجائے گا تو پتا چل جائے گا۔
یہ بھی پڑھیں: شہباز گل 2 روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے
عدالت میں شہباز گِل نے جسمانی ریمانڈ کی درخواست پر اعتراض کرتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ پولیس، جسمانی ریمانڈ کو صرف تشدد کے مقاصد کے لیے استعمال کر رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ان پر مرضی کے بیانات دینے کے لیے دباؤ ڈالا جارہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘اے آر وائی نیوز’ پر ان کی جانب سے دیے گئے بیان کے لیے کوئی موبائل فون استعمال نہیں کیا گیا، لائیو ٹرانسمیشن کے دوران ریمارکس 8 اگست کو نشر کیے گئے جو کہ محرم کی نویں تاریخ تھی جبکہ موبائل فون سروس معطل تھی۔
شہباز گل نے کہا کہ وہ اپنے بنی گالا آفس میں نصب لینڈ لائن فون کے ذریعے نیوز چینل سے بات کر رہے تھے اور ان کے مزید جسمانی ریمانڈ کی منظوری کا کوئی جواز نہیں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ مزید ریمانڈ کی منظوری کا مطلب صرف ملزم کو مزید ٹارچر کے مقاصد کے لیے پولیس کے حوالے کرنا ہوگا۔
فریقین کے دلائل سننے کے بعد عدالت نے شہباز گل کے جسمانی ریمانڈ کی پولیس کی استدعا مسترد کرتے ہوئے انہیں جوڈیشل ریمانڈ پر بھیج دیا تھا۔
جس کے بعد سرکاری وکیل رانا حسن عباس نے شہباز گل کے جسمانی ریمانڈ کی استدعا مسترد کرنے کے خلاف نظر ثانی کی اپیل دائر کی تھی تاہم ایڈیشنل سیشن جج محمد عدنان خان نے اپیل مسترد کر دی تھی۔
شہباز گل کا متنازع بیان
رواں ہفتے کے آغاز میں پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) نے نجی ٹی وی چینل ‘اے آر وائی’ نیوز کو اپنے شو میں سابق وزیرِا عظم عمران خان کے ترجمان شہباز گل کا تبصرہ نشر کرنے پر شوکاز نوٹس جاری کیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ ان کا بیان ‘مسلح افواج کی صفوں میں بغاوت کے جذبات اکسانے کے مترادف تھا’۔
اے آر وائی کے ساتھ گفتگو کے دوران ڈاکٹر شہباز گل نے الزام عائد کیا تھا کہ حکومت، فوج کے نچلے اور درمیانے درجے کے لوگوں کو تحریک انصاف کے خلاف اکسانے کی کوشش کر رہی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: شہباز گِل کا متنازع بیان، عماد یوسف کا نام مقدمے سے خارج کرنے کا حکم
ان کا کہنا تھا کہ ‘فوج میں ان عہدوں پر تعینات اہلکاروں کے اہل خانہ عمران خان اور ان کی پارٹی کی حمایت کرتے ہیں جس سے حکومت کا غصہ بڑھتا ہے’۔
انہوں نے یہ الزام بھی عائد کیا تھا کہ حکمراں جماعت مسلم لیگ (ن) کا ‘اسٹریٹجک میڈیا سیل’ پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان اور مسلح افواج کے درمیان تفرقہ پیدا کرنے کے لیے غلط معلومات اور جعلی خبریں پھیلا رہا ہے۔
شہباز گل نے کہا تھا کہ جاوید لطیف، وزیر دفاع خواجہ آصف اور قومی اسمبلی کے سابق اسپیکر ایاز صادق سمیت دیگر حکومتی رہنماؤں نے ماضی میں فوج پر تنقید کی تھی اور اب وہ حکومتی عہدوں پر ہیں۔
پیمرا کی جانب سے نوٹس میں کہا گیا کہ اے آر وائی نیوز پر مہمان کا دیا گیا بیان آئین کے آرٹیکل 19 کے ساتھ ساتھ پیمرا قوانین کی بھی خلاف ورزی ہے۔