دوا ساز اداروں اور ڈرگ ریگولیٹری باڈی میں رسہ کشی بحران میں تبدیل ہونے کا خطرہ
مقامی کمپنیوں کی جانب سے متعدد ادویات کی پیداوار روکنے کے فیصلے کے بعد ادویات ساز اداروں اور ڈرگ ریگولیٹری باڈی کے درمیان رسہ کشی بحران میں تبدیل ہونے کا خطرہ ہے جس کی وجہ سے مارکیٹ میں ادویات کی قلت پیدا ہو گئی ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سرکاری اور نجی شعبے کے معروف ہسپتالوں کے ماہرین صحت کی طرف سے مرتب کی گئی تقریباً 40 مختلف ادویات کی فہرست اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ مقامی طور پر تیار کردہ کئی گولیاں، شربت، انجیکشن اور مرہم یا قطرے اب دستیاب نہیں ہیں۔
مزید پڑھیں: ادویہ سازی کے اجزا پر سیلز ٹیکس 17 فیصد سے کم کر کے ایک فیصد مقرر
جولائی میں حکام کے لیے فہرست مرتب کرنے والی ٹیم کا حصہ بننے والے ایک سینئر فارماسسٹ نے ڈان کو بتایا کہ ان ادویات میں کئی علامات کے نسخے شامل ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ مثال کے طور پر لیتھیم کاربونیٹ کے تمام برانڈز دماغی صحت کے مسائل کے علاج کے لیے استعمال ہوتے ہیں اور جنہیں اکثر 'خودکشی سے بچاؤ کی دوائیں' کہا جاتا ہے، وہ مارکیٹ میں دستیاب نہیں ہیں۔
اس کے علاوہ، ضروری دوائیں، بشمول بچوں میں توجہ کی کمی ہائپر ایکٹیویٹی ڈس آرڈر کے علاج کے لیے میتھیلفینیڈیٹ اور بچوں اور بڑوں میں مرگی کے علاج کے لیے استعمال ہونے والے کلونازپم کے قطرے اور گولیاں پچھلے کئی ہفتوں سے دستیاب نہیں ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ یہ سلسلہ یہاں ختم نہیں ہوتا، تپ دق، مرگی، پارکنسنز، امراض قلب اور دیگر امراض کے مریضوں کے لیے ادویات بھی بازار میں دستیاب نہیں ہیں لیکن مجھے نہیں معلوم کہ اس صورتحال کی وجہ سے اب تک کہیں کوئی ہنگامہ کھڑا کیوں نہیں ہوا۔
ماہرین صحت نے اس بحران کے اثرات کا سامنا کرنا شروع کر دیا ہے اور وہ حکام سے فوری مداخلت کے خواہاں ہیں، صورتحال اتنی گمبھیر ہے کہ صحت کی شعبے کے کچھ پیشہ ور افراد نے ڈان سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ فہرست میں شامل مصنوعات کی تعداد ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھ رہی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ادویات تجویز کرنے پر ڈاکٹروں کو تحائف دینے پر پابندی
قلت کے پیچھے مسئلہ ایسے پروڈیوسرز کا ہے جو بین الاقوامی مارکیٹ میں خام مال کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے بارے میں شکایت کر رہے ہیں جس کے نتیجے میں پیداواری لاگت میں اضافہ ہوتا ہے اور وہ مصر ہیں کہ تمام ادویہ کی قیمتوں میں 40 فیصد اضافے سے ہی بڑھتی ہوئی قیمتوں سے پیدا ہونے والے فرق کو پورا کیا جا سکتا ہے۔
پاکستان فارماسیوٹیکل مینوفیکچررز ایسوسی ایشن کے قاضی منصور دلاور نے کہا کہ ابھی کئی دوائیں مقامی مارکیٹ میں دستیاب نہیں ہیں کیونکہ ان کی پیداواری لاگت کئی گنا بڑھ گئی ہے اور مینوفیکچررز کے لیے ان ادویات کو تیار کرنا ناممکن ہو گیا ہے۔
تاہم اس مطالبے کو حکومتی مزاحمت کا سامنا ہے جس نے گزشتہ ماہ ادویات کی بڑھتی ہوئی قلت پر تشویش کا اظہار کیا تھا اور وزیر اعظم شہباز شریف نے بحران کو دیکھنے کے لیے ایک ٹاسک فورس قائم کی تھی۔
ٹاسک فورس نے دواسازی کی صنعت کے رہنماؤں سے ملاقات کی جنہوں نے پیداوار کی بڑھتی ہوئی لاگت کا حوالہ دیتے ہوئے ادویات کی قیمتوں میں اضافے کے لیے اپنی تجاویز پیش کیں۔
جہاں ایک طرف ٹاسک فورس اپنے مینڈیٹ کو پورا کرنے کے لیے کام کر رہی ہے، شہریوں کو ادویات کی فراہمی کی شدید قلت کا سامنا ہے۔
مزید پڑھیں: ادویات کی قیمتوں میں اضافے کے خلاف لاہور ہائیکورٹ میں درخواست
فارماسیوٹیکل انڈسٹری کا دعویٰ ہے کہ مقامی مینوفیکچررز نے بین الاقوامی مارکیٹ میں بڑھتی ہوئی قیمتوں کی وجہ سے خام مال کی درآمد بند کر دی ہے، حکومت کی جانب سے قیمتوں میں اضافے کی اجازت دینے سے انکار کے باوجود وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ادویات کی تیاری ان کے لیے ناممکن ہو گئی ہے۔
تازہ درآمدی اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ ضروری اور اہم ادویات کی تیاری کے لیے مقامی فارماسیوٹیکل کمپنیوں خاص طور پر چین سے خریدے گئے خام مال کی مقدار میں تیزی سے کمی آئی ہے، درآمد کنندگان اور ان کے وینڈرز کچھ '200 مالیکیولز' کا حوالہ دیتے ہیں جو بین الاقوامی مارکیٹ میں ان کی زیادہ قیمتوں کی وجہ سے اب درآمد نہیں کیے جا رہے ہیں۔
پی پی ایم اے کے دلاور کے مطابق وبائی پابندیوں کے خاتمے کے بعد بین الاقوامی تجارت کھولنے کے بعد یہ صورتحال پیدا ہوئی ہے، اس وقت خام مال کی قیمتوں میں حیران کن شرح سے اضافہ ہوا۔
ان کا کہنا تھا کہ اس نے کئی پروڈیوسرز کو اپنے کاروباری منصوبوں پر نظرثانی کرنے پر مجبور کیا، یہ صورتحال برقرار رہی، 200 سے زیادہ جینرکس اب مارکیٹ میں دستیاب نہیں ہوں گی۔
ایک درآمد کنندہ سے ڈان نے گفتگو کی تو انہوں نے بتایا کہ یہ تیسرا ہفتہ ہے جب کوئی نیا آرڈر نہیں دیا گیا ہے، موجودہ پیداوار تمام خام مال کے موجودہ اسٹاک پر مبنی ہے جو کچھ پروڈیوسروں کے لیے دستیاب تھا لیکن یہ زیادہ دیر تک نہیں چلے گا۔ جلد یا بدیر، پیداوار یقینی طور پر رک جائے گی۔
تاہم حکام صنعت کے ردعمل کو 'کسی حد تک مبالغہ آرائی' قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ایسا لگتا ہے کہ یہ دوائیوں کی قیمتوں میں ہر طرف سے اضافے کی منظوری حاصل کرنے کی کوشش ہے۔
اگرچہ ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان کی طرف سے کوئی بھی ریکارڈ پر بات کرنے کے لیے دستیاب نہیں تھا، لیکن ریگولیٹر کے ایک اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ڈان کو بتایا کہ یہ قلت اتنی سنگین نہیں تھی جتنی بیان کی جا رہی ہے۔
مزید پڑھیں: فارما انڈسٹری کا ادویات کی قیمتوں میں 25 فیصد اضافے کا مطالبہ
انہوں نے کہا کہ کچھ ادویات کی کمی ہے لیکن یہ اتنی بڑی نہیں ہے جتنا دعویٰ کیا جا رہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ تمام ادویات کی قیمتوں میں مجوزہ اضافے کی منظوری حاصل کرنے کا ایک طریقہ معلوم ہوتا ہے جو ممکن نہیں ہے، نصف درجن سے زائد ادویات کے لیے سپلائی چین کے کچھ مسائل تھے جو مارکیٹ میں دستیاب نہیں ہیں، کچھ حقیقی مسائل ہیں اور اب تک تقریباً 35 ادویات کی نشاندہی کی جا چکی ہے، ہم نے ان 35 کا معاملہ ان کی قیمتوں پر نظرثانی کی تجویز کے ساتھ منتقل کیا ہے۔