اے این پی کا 2016 کے سانحہ کوئٹہ کی رپورٹ پر عملدرآمد کا مطالبہ
عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے صدر اسفندیار ولی خان نے کوئٹہ کے سرکاری ہسپتال پر دہشت گردانہ حملے پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں بنائے گئے انکوائری کمیشن کی رپورٹ میں درج سفارشات پر عمل درآمد کا مطالبہ کیا ہے، دہشت گردانہ حملے میں 60 سے زائد وکلا جاں بحق ہوگئے تھے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سانحہ کوئٹہ کی چھٹی برسی کے موقع پر پارٹی کے سیکریٹری اطلاعات زاہد خان کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان میں اے این پی کے سربراہ نے دہشت گردی کے خلاف بنائے گئے نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد پر بھی زور دیا جو ملک کی تمام سیاسی جماعتوں نے اتفاق رائے سے پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر دہشت گردوں کے حملے کے بعد مرتب کیا گیا تھا۔
اسفند یار ولی خان کا خیال تھا کہ قاضی فائز عیسیٰ کی رپورٹ پر اس کی روح کے مطابق عمل درآمد سے ہی دہشت گردی کا خاتمہ ممکن ہے۔
یہ بھی پڑھیں: کوئٹہ کے سول ہسپتال میں خودکش دھماکا، 70افراد ہلاک
انہوں نے اس طرح کے سانحات کا سامنا کرنے کے باوجود بار اور بینچ کے تقدس کے لیے وکلا برادری کی جدوجہد کو بھی سراہا۔
انہوں نے کہا کہ ملک میں دہشت گردی کے تناظر میں وکلا برادری نے اب تک جو قربانیاں دی ہیں وہ رائیگاں نہیں جائیں گی۔
اے این پی کے سربراہ نے کہا کہ دہشت گردوں نے مہلک حملے میں وکلا کی ایک پوری نسل کو ختم کر دیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ کچھ سازشی عناصر اب بھی خطے میں امن و امان کو برباد کرنے کے لیے سرگرم ہیں۔
مزید پڑھیں: کوئٹہ دھماکے کے بعد سیفٹی چیک
انہوں نے کوئٹہ میں وکلا پر ہونے والے دہشت گردانہ حملے کو ملک کے بڑے سانحوں میں سے ایک بڑا سانحہ قرار دیا۔
8 اگست 2016 کو دہشت گردوں نے کوئٹہ کے سرکاری ہسپتال پر حملہ کیا تھا جہاں اس وقت کے بلوچستان بار ایسوسی ایشن کے صدر بلال انور کاسی پر حملے کے بعد وکلا کی بڑی تعداد جمع تھی۔
سپریم کورٹ نے ازخود نوٹس لیتے ہوئے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں انکوائری کمیشن تشکیل دیا تھا اور کمیشن کی 110 صفحات پر مشتمل رپورٹ دسمبر 2016 میں شائع ہوئی تھی جس میں 18 سفارشات شامل تھیں۔
رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ پاکستان کے عوام مسلسل دہشت گردانہ حملوں کا نشانہ بن رہے ہیں، یہ حملے بلا روک ٹوک جاری ہیں، یہ حملے موثر جواب کے مستحق ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: کوئٹہ پولیس ٹریننگ کالج پر حملہ، 61اہلکار جاں بحق، 117زخمی
اس میں مزید کہا گیا تھا کہ پاکستانی عوام کو ناکام بنانے والوں کا احتساب ہونا چاہیے، معاملات مزید ایسے نہیں چل سکتے جیسے وہ چلائے جاتے رہے ہیں، اعلیٰ سطح کے احتساب کے بغیر نظام میں تبدیلی کا امکان نہیں ہے۔
رپورٹ میں ریاست پر زور دیا گیا تھا کہ وہ نفرت پھیلانے والوں اور قتل عام کرنے والوں کے خلاف طاقت کا استعمال کرتے ہوئے اپنی رٹ کو نافذ کرے۔
مزید پڑھیں: اچھے اور بُرے طالبان کا فرق ختم کیا جائے: اسفند یار ولی
رپورٹ میں ریاست پر یہ زور دیا گیا تھا کہ وہ انسداد دہشت گردی ایکٹ (اے ٹی اے) نیشنل کاؤنٹر ٹیررازم اتھارٹی ایکٹ، پاکستان پینل کوڈ، اور سب سے بڑھ کر پاکستان کے آئین کی سختی سے پابندی کرے۔
رپورٹ میں تجویز کیا گیا تھا کہ اے ٹی اے کو نافذ کرنے کی ضرورت ہے اور دہشت گردوں، دہشت گرد تنظیموں کو بلا تاخیر کالعدم قرار دیا جانا چاہیے۔
رپورٹ میں مزید تجویز کیا گیا تھا کہ دہشت گردوں اور ان کی تنظیموں کو جلسے کرنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے اور جو لوگ کالعدم تنظیموں کے کارکن ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں ان کے خلاف اے ٹی اے کے مطابق کارروائی کی جانی چاہیے۔