یوکرین کا روس پر ایک بار پھر جوہری پلانٹ پر گولہ باری کا الزام
یوکرین نے روس پر یورپ کے سب سے بڑے نیوکلیئر پاور پلانٹ زاپوریزہیا پر دوبارہ گولہ باری کا الزام عائد کرتے ہوئے ماسکو پر ’جوہری دہشت گردی‘ پر نئی بین الاقوامی پابندیاں لگانے کا مطالبہ کیا ہے۔
غیر ملکی خبر رساں ایجنسی ’رائٹرز‘ کے مطابق یوکرین کی سرکاری نیوکلیئر پاور کمپنی کا کہنا ہے کہ روسی فوج نے ہفتے کی رات دوبارہ گولہ باری کرتے ہوئے تنصیب کے تین ریڈی ایشن سینسرز کو نقصان پہنچایا جس سے ایک اہلکار بھی زخمی ہوگیا۔
مزید پڑھیں:روس-یوکرین جنگ کے نتائج پر امریکا نے پاکستان کو خبردار کردیا
یوکرین کے صدر ولودیمیر زیلنسکی نے ٹوئٹر پر لکھا کہ روسی جوہری دہشت گردی پر عالمی برادری کی طرف سے ردعمل میں روسی جوہری صنعت اور جوہری ایندھن پر سخت پابندیاں عائد کرنے کی ضرورت ہے۔
روس کے زیر قبضہ علاقے میں واقع پلانٹ پر بھی جمعہ کو گولہ باری کی گئی تھی جبکہ ماسکو ان حملوں کا ذمہ دار یوکرین کی افواج کو ٹھہراتا ہے۔
یوکرین کی جوہری کمپنی اینرگوٹم نے کہا کہ روسی راکٹ حملوں نے پلانٹ ذخیرہ کی خشک کرنے کی سہولت کو نشانہ بنایا ہے جہاں جوہری ایندھن کے 174 کنٹینرز کھلی فضا میں محفوظ کیے گئے تھے۔
کمپنی نے کہا کہ اس کے نتیجے میں تابکاری کی صورت حال میں خرابی یا جوہری ایندھن کے کنٹینرز سے تابکاری کے رساؤ کی صورت میں بروقت پتا لگانا اور ردعمل ابھی تک ممکن نہیں ہے۔
مزید پڑھیں: روس یوکرین پر حملے کیلئے جھوٹا بہانہ بنا سکتا ہے، امریکا
'انٹرفیکس' نیوز ایجنسی کی طرف سے جاری کیے گئے ایک بیان میں مقبوضہ اینرودر کی روسی نصب شدہ انتظامیہ نے کہا کہ یوکرین نے 220 ملی میٹر یوراگن پر متعدد راکٹ لانچر سسٹم کا استعمال کرتے ہوئے حملہ کیا۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ راکٹ حملوں سے انتظامی عمارتوں اور ذخیرہ کرنے کی سہولت کے ملحقہ علاقے کو نقصان پہنچا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: روس کا یوکرین پر حملہ، دفاعی اثاثے تباہ کرنے کا دعویٰ، مرکزی ایئرپورٹ کے قریب دھماکے
عالمی ایٹمی توانائی ایجنسی (آئی اے ای اے) کے سربراہ نے کہا کہ جمعہ کی گولہ باری سے جوہری تباہی کے خطرے کا خدشہ ہے کیونکہ گولے ایک ہائی وولٹیج پاور لائن سے ٹکرائے ہیں جس سے پلانٹ کے آپریٹرز کو تابکار رساؤ کا پتا نہ چلنے کے باوجود ایک ری ایکٹر کو منقطع کرنے پر مجبور کیا گیا ہے۔
زاپوریزہیا پلانٹ پر روسی افواج نے مارچ میں جنگ کے ابتدائی مرحلے میں قبضہ کر لیا تھا لیکن اب بھی اسے یوکرین کے تکنیکی ماہرین چلا رہے ہیں۔