ڈالر کی اونچی اڑان اور اسٹیٹ بینک کی مجرمانہ غفلت
روپے کی قدر میں تیزی سے گراوٹ کے بعد اگست کی ابتدا سے انٹر بینک مارکیٹ میں استحکام دیکھنے میں آیا اور 3 اگست کو روپے کی قدر میں اچانک بہتری اور ڈالر کی قدر میں تیزی سے گراوٹ کا عمل شروع ہوا۔
اب جس وقت یہ سطور ضبط تحریر کررہا ہوں اس وقت تک ڈالر کی قدر میں انٹر بینک میں 16 روپے کی کمی واقع ہوگئی ہے۔ سوال یہ ہے کہ پاکستان کو زرِمبادلہ قرض کی فراہمی ابھی تک کسی طرف سے بھی شروع نہیں ہوئی تو یہ کمی کیوں واقع ہوئی کہ ڈالر 240 سے کم ہوکر 224 روپے کی سطح پر آگیا ہے۔
اس پر ماہرینِ معیشت کا کہنا تھا کہ روپے کی قدر میں گراوٹ کی اصل وجہ آئی ایم ایف کی جانب سے 1.2 ارب ڈالر قرض کی متوقع منظوری، غیر ملکی اداروں سے قرض ملنے کے روشن امکانات اور دوست ملکوں کی جانب سے معاونت ہے۔ اس کے علاوہ عالمی مارکیٹ میں ایندھن کی قیمت میں کمی کے ساتھ ساتھ غذائی اجناس کا سستا ہونا بھی اس کی وجوہات میں شامل ہے۔
اس کے برعکس میری نظر میں ان سب سے بڑی بھی ایک وجہ موجود ہے۔ جو بھی باتیں ماہرینِ معیشت کررہے ہیں وہ صرف توقعات ہیں اور ان میں سے کوئی بھی فنڈز ابھی تک پاکستان کو موصول نہیں ہوئے ہیں۔
میرے خیال سے روپے کی قدر میں ہونے والی اس تبدیلی کی وجہ سٹے بازی ہے جس میں پاکستان کے بینک بڑی تعداد میں ملوث پائے گئے ہیں۔ اس پر بات کرنے سے قبل اس صورتحال کا جائزہ لیتے ہیں کہ روپے کی قدر میں کن وجوہات کی بنا پر کمی ہورہی تھی اور پھر دیکھیں گے کہ ملکی اداروں کی جانب سے کیا اقدامات کیے گئے جس نے روپے کی قدر میں کمی کا سلسلہ نہ صرف روکا بلکہ ڈالر کو کمزور بھی کیا۔
سب جانتے ہیں کہ ملک اس وقت ایک مشکل دور سے گزر رہا ہے۔ سری لنکا کے بیرونی قرضوں کے نادہندہ ہونے کی وجہ سے پاکستان سمیت 12 ملکوں کے بارے میں کہا جارہا تھا کہ ان کے ڈیفالٹ ہونے کے خدشات بڑھ گئے ہیں۔ پاکستان نے آئی ایم ایف سے جو معاہدہ کیا تھا اس کو بحال کرنے میں شرائط کڑی سے کڑی ہوتی جارہی ہیں۔
گزشتہ حکومت نے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمت میں 10 روپے اور بجلی کی فی یونٹ قیمت میں 5 روپے کم کردی تھی۔ اس سے پاکستان میں پیٹرول کی قیمت اس کی قیمت خرید سے بھی کم ہوگئی تھی۔ موجودہ حکومت نے چند ہفتوں کے اندر اندر اس قیمت میں اضافہ کیا۔ حکومت نے ملکی معاہدوں کی روشنی میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں سبسڈی ختم کردی اور بجلی کی فی یونٹ قیمت میں کمی کو واپس لینے کے علاوہ دیگر سخت اقدامات اٹھائے مگر آئی ایم ایف کی جانب سے ڈو مور کا مطالبہ جاری رہا۔ یوں پاکستان کے ڈیفالٹ کرنے کی آوازیں ہر طرف سے سنائی دینے لگیں۔
یہ ایک غیر معمولی اور ہنگامی صورتحال تھی۔ ایسے میں ڈالر کی قدر میں تیزی سے اضافہ ہوا اور روپیہ تیزی سے گرنے لگا۔ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت کے خلاف جب تحریک عدم اعتماد جمع کروائی گئی تو اس وقت ایک ڈالر 178روپے کا تھا۔ یہ مسلسل گراوٹ کے بعد 240 روپے کی سطح پر پہنچ گیا یعنی نئی حکومت کے قیام کے بعد روپے کی قدر میں 62 روپے کی نمایاں کمی ہوئی اور یہ بات کہی جانے لگی کہ اگر موجودہ حکومت نے بھی یہی کچھ کرنا تھا تو اس کو حکومت میں آنے کی ضرورت کیا تھی۔
اس صورتحال کے پیچھے بینکوں کی زیادہ منافع کمانے کی ہوس تھی۔ یعنی بینک انٹر بینک مارکیٹ میں زیادہ منافع کمانے کے لیے ڈالر کو مہنگا فروخت کررہے تھے۔ یوں انٹر بینک مارکیٹ ایک جوئے خانے میں تبدیل ہوگئی تھی۔ اس بات کی پہلی مرتبہ نشاندہی سابق وزیرِ خزانہ شوکت ترین نے گزشتہ سال نومبر میں کی تھی کہ روپے کی قدر میں سٹہ کھیلا جارہا ہے۔ شوکت ترین کے اس اعلان کے باوجود اسٹیٹ بینک یا وفاقی حکومت نے کوئی اقدام نہیں اٹھایا اور شوکت ترین حکومت سے نکلنے کے بعد بھی روپے کی قدر میں سٹے بازی کی باتیں کرتے رہے۔
انٹر بینک مارکیٹ میں ہونے والی سٹے بازی کے بارے میں دیگر کئی ذرائع سے بھی اطلاعات موصول ہورہی تھیں جس میں ایوان ہائے تجارت و صعنت اور برآمدی ایسوسی ایشنز بھی شامل تھیں۔ ان کا کہنا تھا کہ انٹر بینک میں ڈالر کو مارکیٹ کے ریٹس سے زیادہ پر فروخت کیا جارہا ہے۔
اس حوالے سے ایکسچینج کمپنیز ایسوسی ایشن پاکستان کے جنرل سیکریٹری ظفر پراچہ نے بتایا کہ 'بینکوں میں کھلے عام مارکیٹ ریٹ سے زائد پر ڈالر کی فروخت ہورہی تھی جس سے مارکیٹ میں افراتفری کا ماحول پیدا ہوگیا تھا۔ اوپن مارکیٹ میں 3 ریٹ چل رہے تھے، ایک آفیشل ریٹ جو ایکسچینج کمپنیاں جاری کرتی ہیں دوسرا نان آفیشل ریٹ اور تیسرا ریٹ ہنڈی کا جبکہ انٹر بینک میں صورتحال اس سے زائد مخدوش تھی۔ اس میں روپے کے 2 ریٹ چل رہے تھے ایک ریٹ وہ جو آفیشل اسکرین پر دکھائی دے رہا تھا جبکہ دوسرا ریٹ وہ جس پر بینکر، امپورٹر اور ایکسپورٹر سے ڈالر خرید اور فروخت کررہے تھے'۔
ظفر پراچہ کا کہنا ہے کہ 'اصل مسائل کی جڑ انٹر بینک مارکیٹ تھی کیونکہ اوپن مارکیٹ گزشتہ کئی ماہ سے انٹر بینک سے کم ریٹ پر آپریٹ ہورہی تھی لہٰذا اگر قیمت بڑھ رہی تھی تو اس کی اصل وجہ انٹر بینک مارکیٹ ہے'۔
انٹر بینک میں ہونے والی سٹے بازی کی وجہ سے روپے کی قدر میں گراوٹ کی ایک اور وجہ ڈالر کی ہولڈنگ بھی تھی۔ یعنی برآمد کنندہ گان نے ڈالر کو بروقت پاکستان لانے کے بجائے اس کو بیرون ملک ہولڈ کرنا شروع کردیا تھا۔
روپے کی قدر میں کمی کی ایک اور بڑی وجہ ڈالر کی اسمگلنگ بھی تھی۔ جس وقت پاکستان میں ڈالر کی قدر 240 روپے ہوگئی تھی اس وقت پشاور کی مارکیٹ میں ڈالر 250 روپے اور افغانستان میں 255 روپے میں فروخت ہورہا تھا، یعنی ملک کی فری مارکیٹ میں آنے والا ڈالر ایکسچینج کمپینوں کے بجائے بلیک مارکیٹ میں اصل مارکیٹ کے مقابلے 10 سے 15 روپے مہنگا فروخت ہورہا تھا جس سے اسمگلرز بڑے پیمانے پر فائدہ اٹھا رہے تھے۔
ظفر پراچہ کا کہنا تھا کہ ڈالر کی اسمگلنگ کے بارے میں انہوں نے 28 جولائی سے قبل ہی حکام کو آگاہ کردیا تھا۔ ظفر پراچہ کے مطابق افغانستان میں بھارتی ایجنٹس پاکستان سے آئے ڈالر کو بڑے پیمانے پر خرید رہے تھے۔
روپے کی قدر میں یہ سب کچھ ہورہا تھا اور کھلے عام انٹر بینک مارکیٹ کے علاوہ اسمگلرز ڈالر کو سرحد پار لے جارہے تھے مگر اس تمام صورتحال میں اسٹیٹ بینک کی جانب سے مکمل خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ اس کی ناک کے نیچے انٹر بینک مارکیٹ میں ڈالر کی قدر میں سٹے بازی ہورہی تھی جس کی متعدد فورمز پر نشاندہی کے باوجود کوئی اقدام نہیں اٹھایا گیا۔
مگر دباؤ پڑنے پر بالآخر اسٹیٹ بینک کی انتظامیہ کو ہوش آیا اور اسٹیٹ بینک نے انٹر بینک مارکیٹ میں اگست 2022ء سے مسٹری شاپنگ کا سلسلہ شروع کیا جس میں اسٹیٹ بینک کے مقرر کردہ ایجنٹس نے انٹر بینک مارکیٹ سے ڈالر کی خریداری کے عمل کا جائزہ لیا جس میں ان خبروں کی تصدیق ہوئی کہ انٹر بینک مارکیٹ میں سٹے بازی کا عمل جاری ہے۔ اس حوالے سے اسٹیٹ بینک نے 3 اگست کو ایک اعلامیہ جاری کیا جس میں کہا گیا کہ اس نے بینکوں اور ایکسچینج کمپنیوں کی نگرانی سخت کردی ہے۔
اس حوالے سے ایکسچینج کمپنیوں کا کہنا ہے کہ اسٹیٹ بینک کی جانب سے سخت اقدامات کی وجہ سے اوپن مارکیٹ میں ڈالر کے خریدار موجود نہیں ہیں اور ان ریٹس پر انٹر بینک مارکیٹ سے کم ہیں اور ایکسچینج کمپنیاں یومیہ تقریباً 25 لاکھ ڈالر انٹر بینک مارکیٹ میں فروخت کررہی ہیں۔
اسٹیٹ بینک کی مسٹری شاپنگ میں یہ بات واضح ہونے کے باوجود کہ انٹر بینک مارکیٹ میں ڈالر کی قدر پر سٹہ ہورہا ہے اسٹیٹ بینک نے کمرشل بینکوں کو بچانے کے لیے ایکسچینج کمپنیوں کے خلاف کریک ڈاون شروع کردیا ہے۔
اسٹیٹ بینک کے مطابق ضوابط کی خلاف ورزی پر 2 ایکسچینج کمپنیوں کی 4 برانچوں کے آپریشن معطل کردیے ہیں جبکہ کچھ عرصہ قبل بعض ایکسچینج کمپنیوں پر جرمانے بھی عائد کیے گئے اور مختلف ایکسچینج کمپنیوں کے 13 فرنچائز کے انتظامات ختم کردیے گئے تھے۔ تاہم اسٹیٹ بینک نے یہ نہیں بتایا کہ کب یہ اقدامات کیے گئے ہیں۔
روپے کی قدر میں کمی کے حوالے سے بینکوں میں ہونے والی سٹے بازی پر اسٹیٹ بینک کو ایک مکمل اور جامع تحقیق کرتے ہوئے اس کے شواہد سے عوام کو آگاہ کرنا چاہیے تاکہ یہ معلوم ہوسکے کہ کس طرح بینکوں میں موجود سٹے بازی کا ماحول ملکی معیشت اور استحکام سے کھیل رہا ہے۔
تبصرے (2) بند ہیں