‘صاف چلی شفاف چلی کے پاؤں جل گئے‘
’صاف چلی شفاف چلی ... تحریک انصاف چلی‘ کا نعرہ ملک میں ایک بیانیہ بن کر خوب مقبول ہوا اور دیکھتے ہی دیکھتے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) ملک کی بڑی سیاسی جماعت کا روپ دھارنے میں کامیاب ہوئی۔
علمِ سیاسیات کے مطابق سیاسی جماعت کی تعریف کچھ یوں کی جاتی ہے کہ ‘مختلف افراد پر مشتمل ایک گروہ، قانون، قاعدہ، ضوابط اور ملکی دستور کے مطابق اقتدار کے حصول کی کوشش کرتا ہے‘۔
ایک عام شہری کیا جانے کہ سیاسی جماعت کس طرح کام کرتی ہے۔ ہمارے ہاں تو سیاسی جماعت کے ورکروں اور عہدیداروں کو بھی علم نہیں ہوتا کہ ان کی جماعت کس طرح کام کررہی ہے۔ بہرحال تحریک انصاف کے بارے میں 8 سال سے زیرِ التوا ایک مقدمے میں پاکستان الیکشن کمیشن نے تمام تر رکاوٹیں ڈالے جانے کے باوجود بالآخر فیصلہ سنا دیا کہ پاکستان تحریک انصاف نہ انصاف چاہتی ہے اور نہ ہی شفاف ہے بلکہ یہ جھوٹ پر انحصار کرتی ہے اور انصاف کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرتی ہے۔
جمعرات کو پی ٹی آئی شاہراہِ دستور پر الیکشن کمیشن کے خلاف مظاہرے کا اعلان کرچکی ہے۔ ہزاروں لوگوں کو باآسانی جمع کرنے والی تحریک انصاف اگلے چند روز تو فی الحال فیصلے کا رخ موڑنے پر اپنا وقت صرف کرے گی۔ یہاں اہم بات یہ ہے کہ جس چیف الیکشن کمشنر کی تعیناتی خود وزیرِاعظم عمران خان کی رضا مندی سے ہوئی تھی اور وہ ان کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملا رہے تھے، مگر اب وہی عمران خان ان پر شدید الزامات لگا رہے ہیں۔
صورتحال یہ ہے کہ عمران خان جوڈیشل کمیشن میں بذریعہ شفاف، ایماندار اور قانون کی بالادستی کے لیے کام کرنے والے صدرِ مملکت عارف علوی کے ذریعے یا از خود درخواست دینا چاہتے ہیں جہاں وہ اس خواہش کا اظہار کریں گے کہ ججوں کی طرح چیف الیکشن کمشنر راجہ سکندر سلطان کو برطرف کردیا جائے۔
مزید پڑھیے: پی ٹی آئی کے خلاف 8 برس پرانا ممنوعہ فنڈنگ کیس، کب کیا ہوا؟
عمران خان یہ صلاحیت بدرجہ اتم رکھتے ہیں کہ وہ کسی پر بھی الزام لگا کر اس کی اتنی تشہیر کریں کہ وہ سچ بنتا دکھائی دے مگر قانون کے ساتھ کھیلتے کھیلتے اب وہ قانون کے شکنجے میں اس طرح پھنس رہے ہیں کہ صادق اور امین کی گردان ان کو ایک بار پھر یاد کرنا پڑ سکتی ہے۔
ممنوعہ فنڈنگ کے بارے میں پاکستان کے قوانین بہت واضح ہیں اور دستوری طور پر ان کو پورا تحفظ حاصل ہے۔ یہ بات واضح رہے کہ الیکشن کمیشن کے فیصلے کے بعد بات تو ابھی شروع ہوئی ہے ختم نہیں ہوئی۔ چونکہ ابھی جرم کی سزا کا تعین نہیں ہوا اس لیے اس کو سنجیدگی کے ساتھ نہیں لیا جارہا مگر جوں جوں کارروائی آگے بڑھے گی فضا بہت کشیدہ ہوتی چلی جائے گی۔
پی ٹی آئی کے فیصل واڈا کو جھوٹے بیانِ حلفی پر نااہلی کی سزا مل چکی ہے اور اب باری ہوگی چیئرمین عمران خان کی۔ آئین کی دفعہ 62 (ون) (ایف) کے تحت جو شخص پارسا اور امین نہ ہو وہ انتخاب لڑنے کا اہل نہیں ہوتا اور خان صاحب پر تو ایماندار نہ ہونے کے مہر الیکشن کمیشن نے ثبت کردی ہے اور عدالتی فیصلے کے مطابق جو شخص اس معیار پر پورا نہ اترے اور اس نے جھوٹا حلف نامہ داخل کیا ہو وہ ساری زندگی کے لیے رکن اسمبلی نہیں بن سکتا اور نہ ہی پارٹی کا عہدیدار رہ سکتا ہے۔
یہ سزا سابق وزیرِاعظم میاں نواز شریف، جہانگیر ترین اور فیصل واڈا کو تو اب تک دی جا چکی ہے۔ کیا اگلی باری عمران خان کی ہے یا ان کی جماعت سے تعلق رکھنے والی ارکانِ قومی اسمبلی تاشفین صفدر، کنول شوذب یا ملیکہ بخاری کی ہے۔ معاملات زیرِ سماعت ہیں مگر بادی النظر میں ہر 3 خواتین نے جھوٹے حلف نامے داخل کروا رکھے ہیں اور الیکشن کمیشن نے 2018ء میں ان کے کاغذاتِ نامزدگی مسترد کردیے تھے۔ ملیکہ بخاری تو فیصلہ پر تبصرہ کررہی تھیں اور یہ تبصرہ صرف تنقید پر مبنی تھا۔
مزید پڑھیے: پی ٹی آئی پر ممنوعہ فنڈنگ ثابت، قانونی نتائج کیا ہوسکتے ہیں؟
پی ٹی آئی کا ایک مؤقف یہ بھی ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ن) اور جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی) کے فنڈز کے مقدمات پر بھی فیصلہ کیا جائے۔ درست مطالبہ ہے اگر ان جماعتوں پر بھی یہی الزام ہے تو ان کے خلاف بھی ایسا ہی فیصلہ آنا چاہیے، مگر کیا تحریک انصاف 8 سال انتظار کرے گی، یقیناً نہیں۔ یہ تو اسمبلی سے مستعفی ہوکر اس کے منظور ہونے پر عدالت جاتے ہیں۔
جہاں تک معاملہ انصاف کا ہے تو پی ٹی آئی ملک میں غریب اور امیر کے انصاف کے دوہرے معیار کے بارے میں شور مچاتے نہ تھکتی تھی۔ اس جماعت نے ابھی کل ہی اعلان کیا ہے کہ ان کو تجربہ نہیں تھا اس لیے جماعتی انتخابات میں گڑبڑ ہوتی رہی ہے۔ اب بھلا جو جماعت اپنی تنظیم درست طریقے سے نہ بنا سکے اور اس میں عہدیداروں پر الزام لگتا ہو کہ پیسے دے کر ووٹ حاصل کررہے تھے یا اسمبلی کے ارکان پیسے لے کر ووٹ ڈال دیتے ہوں، اب وہ پوری جماعت ہی کرپشن کا شکار ہو یا یہ سلسلہ ملکی یا صوبائی سطح پر ہو، اس بارے میں اگر شیشے میں اپنی تصویر صاف اور شفاف نظر نہ آتی ہو تو اس کا مطلب ہے کہ آوے کا آوا ہی بگاڑ کا شکار ہے۔
ہماری ملکی تاریخ گواہ ہے کہ وزیرِاعظم پھانسی چڑھا، کئی وزرائے اعظم جیلوں میں بند رہے، سیاسی جماعتوں بشمول جماعت اسلامی اور نیشنل عوامی پارٹی پر پابندی لگی۔ اگر ایسے میں صاف چلی شفاف چلی کو بھی چہرے کا اصل روپ دکھا دیا جائے تو کوئی معیوب بات نہیں ہوگی۔
ریاستِ مدینہ کا ماڈل تقلید کا دعویٰ کرنے والے اس کی پارسائی کا بھی نمونہ بنیں تو پھر اور کیا چاہیے اور اگر ملک میں انتشار پھیلانے کے لیے غیرقانونی فنڈنگ کا سہارا لینا ہے تو پھر یہی کہا جاسکتا ہے کہ انگور کھٹے ہیں۔ بخشو بی بلی چوہا لنڈور اہی بھلا۔ عمران خان کرکٹ کے کھلاڑی ہیں اور اگر مغربی دنیا کو وہ سب سے زیادہ جانتے ہیں تو بورس جانسن کے غیر قانونی اقدام اور ہارنے کو بھی مدِنظر رکھیں۔
تبصرے (4) بند ہیں