عمران خان کا اسلام آباد میں الیکشن کمیشن کے باہر 4 اگست کو احتجاج کا اعلان
سابق وزیراعظم اور چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان نے اسلام آباد میں الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) کے دفتر کے باہر 4 اگست کو احتجاج کا اعلان کیا ہے جس میں وہ چیف الیکشن کمشنر (سی ای سی) سکندر سلطان راجا سے استعفے کا مطالبہ کریں گے۔
پی ٹی آئی کے چیئرمین کا نیشنل کونسل اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ میرا یہاں آنے کا مقصد ہے کہ اپنے آئین کو اپ ڈیٹ کریں، کسی بھی ادارے یا ملک کی کامیابی کا راز یہ ہے کہ وہ مستقل بنیادوں پر غلطیوں سے سیکھ کر تبدیلی کرتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمارے سامنے ایک پیپلز پارٹی واحد جماعت تھی جو چار سال میں اقتدار میں آگئی لیکن وہ اس عمل سے نہیں گزری جس سے ہم گزرے ہیں، ملک میں دو پارٹیوں کا نظام تھا، ہمارے سامنے دونوں جماعتیں سکڑ گئیں، ایک جماعت صرف سینٹرل پنجاب جبکہ دوسری صرف اندورن سندھ تک محدود ہوگئی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: معاشی حالات کے پیش نظر انتخابات بہت جلد ہو سکتے ہیں، عمران خان
ان کا کہنا تھا کہ جماعت کبھی ترقی نہیں کرسکتی جب تک وہ ادارہ نہ بنے اور اس میں میرٹ نہ ہو، میرٹ اس وقت آتا ہے جب پارٹی میں انتخابات ہوتے ہیں، ہم نے اپنی جماعت میں 11 مہینے کا بہت بڑا الیکشن کروایا تھا، کیونکہ پاکستان کی سیاسی جماعتوں کے اندر انتخابات کا رجحان نہیں ہے۔
عمران خان نے کہا کہ کرکٹ کی تاریخ میں نیوٹرلز امپائرز نہیں ہوتے تھے اس کی وجہ سے میدانوں میں جھگڑے ہوتے تھے کہ امپائرز کی وجہ سے میچ ہارے ہیں، جبکہ نیوٹرلز امپائر آنے کے بعد صورتحال یکسر مختلف ہوگئی ہے، اب ہارنے والا شکست کو تسلیم کرتا ہے۔
سابق وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان میں بھی ماسوائے 1970 کے انتخابات کے کوئی بھی شکست تسلیم نہیں کرتا، اسی لیے ہم نے الیکٹرونک ووٹنگ مشین (ای وی ایم) لانے کا فیصلہ کیا تھا، موجودہ الیکشن کمشنر نے اس کو سبوتاژ کرنے کی بھرپور کوشش کی، الیکشن کمیشن کا کام ہوتا ہے کہ حکومت جو نظام بناتی ہے اس پر علمدرآمد کرے۔
ان کا کہنا تھا کہ الیکشن کمشنر نے بھرپور کوشش کی ای وی ایم کو نہ آنے دے، اسی طرح دونوں جماعتوں نے بھی الیکٹرونک ووٹنگ مشین کی مخالفت کی۔
مزید پڑھیں: عمران خان کا عالمی تنظیموں سے یٰسین ملک کی جان بچانے کا مطالبہ
عمران خان نے کہا کہ پنجاب کی 20 نشستوں پر ہونے والے ضمنی انتخابات سے قبل 2 ہفتے ہم صرف یہ کوشش کر رہے تھے کہ دھاندلی کو کیسے روکیں، صاف اور شفاف انتخابات کے حوالے سے این جی او کی رپورٹ ہے کہ انتخابات میں دھاندلی کے 163 طریقے ہیں، ایک بار ای وی ایم مشینیں آجائیں تو اس سے دھاندلی کے 130 طریقے ختم ہو جاتے ہیں۔
'عام انتخابات سے فارغ ہو کر پارٹی میں انتخابات کروائیں گے'
چیئرمین تحریک انصاف نے کہا کہ جیسے ہی ہم عام انتخابات سے فارغ ہوں گے تو فوری طور پر پارٹی کے اندر ٹیکنالوجی کا استعمال کرکے بڑے پیمانے پر انتخابات کروائیں گے، تاکہ جو لوگ نچلی سطح پر محنت کر رہے ہیں وہ پارٹی میں اوپر آسکیں۔
ان کا کہنا تھا کہ قومی جماعتوں کے ختم ہونے کی سب سے بڑی وجہ یہی ہے کہ ان جماعتوں میں کوئی میرٹ نہیں ہے۔
عمران خان نے کہا کہ پارٹی کا نظریہ بہت اہمیت کا حامل ہے، ہمارے اپنی جماعت کے لوگ اور عہدیدار کو بھی نظریے کا صحیح طریقے سے نہیں پتا، پاکستان کو جو مشکلات ہیں اس کی بڑی وجہ پاور کی سیاست ہے، اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ان کا کوئی نظریہ نہیں ہوتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ 1988 سے یہ دونوں جماعتیں ایک دوسرے کو برا بھلا کہہ رہی ہیں، کرپشن کے مقدمات ان لوگوں نے ایک دوسرے کے خلاف بنائے، نواز شریف کے خلاف حدیبیہ پیپر ملز میں منی لانڈرنگ کا کیس پیپلز پارٹی نے بنایا تھا، اسی طرح سرے محل اور آصف زرداری کے خلاف سوئس بینک میں 60 ملین ڈالر کا مقدمہ مسلم لیگ (ن) نے بنایا تھا، دونوں ایک دوسرے پر الزامات لگاتے تھے کہ انہوں نے پاکستان کے عوام کا پیسہ چوری کیا ہے۔
سابق وزیر اعظم نے کہا کہ 2008 میں میثاق جمہوریت کے نام پر دونوں جماعتوں نے فیصلہ کیا کہ ہماری حکومتیں کرپشن کی وجہ سے ختم ہوئی ہیں، پھر انہوں نے 10 سال ملک کو لوٹا، ان کا کوئی نظریہ نہیں تھا، جو لوگ ایک دوسرے کے خلاف تھے وہ سب لوگ تحریک انصاف کے خلاف ہوگئے۔
یہ بھی پڑھیں: عمران خان فنانشل ٹائمز پر مقدمہ کرکے خود کو ایماندار ثابت کریں، محمد زبیر
ان کا کہنا تھا کہ ان لوگوں نے کہا کہ ہم مہنگائی کی وجہ سے حکومت گرانا چاہتے ہیں، اللہ نے ساری قوم کے سامنے اس مفادات کی سیاست کو بے نقاب کر دیا، ان لوگوں نے ساڑھے تین مہینے میں جو کچھ کیا ہے، اس سے واضح ہے کہ ان کو معیشت اور مہنگائی سے کوئی دلچسپی نہیں تھی، ان کا ایک ہی مقصد تھا کہ این آر او لیں۔
انہوں نے کہا کہ اگر ہماری حکومت گرانی ہی تھی تو کوئی منصوبہ بندی تو کرتے، مفتاح اسمٰعیل بیٹھ کر بتاتا کہ ہم یہ یہ اقدامات کریں گے تو ہماری معیشت ٹھیک ہو جائے گی، آپ غور کریں کہ مہنگائی عروج پر ہے، معیشت تباہی کا شکار ہے، انہوں نے اسمبلی سے نیب قانون میں ترمیم کرکے 1100 ارب روپے کی کرپشن معاف کروائی۔
عمران خان کا کہنا تھا کہ جب تحریک عدم اعتماد لائی گئی اس وقت ڈالر کی قدر روپے کے مقابلے میں 178 روپے تھی جبکہ آج اس کی قیمت 250 روپے پر پہنچ گئی ہے، اسی طرح شرح سود 11 فیصد تھی جبکہ آج شرح سود 15.5 فیصد ہے، مارچ میں ٹیکس کلیکشن کی شرح نمو 32 فیصد تھی، جولائی میں اس کی گروتھ 10 فیصد پر آ گئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے دور میں برآمدات اور ترسیلات زر میں ریکارڈ سطح پر اضافہ ہو رہا تھا جبکہ آج یہ دونوں چیزیں نیچے جا رہی ہیں، یہ سب سے خطرناک ہے کیونکہ یہ ہمیں ڈیفالٹ کی طرف لے کر جا رہی ہیں۔
مزید پڑھیں: آزادی مارچ: عمران خان کا نئے انتخابات کی تاریخ کے اعلان تک اسلام آباد کے ڈی چوک میں قیام کا عزم
سابق وزیراعظم کا کہنا تھا کہ مارچ میں بیرونی خسارہ 50 کروڑ ڈالر تھا جبکہ آج بیرونی خسارہ 2.6 ارب ڈالر پر پہنچ گیا ہے، ہمارے دور میں 'ایس پی آئی ' کے حساب سے مہنگائی 17 فیصد تھی جبکہ آج مہنگائی کی شرح 38 فیصد ہے۔
'کورونا کے باوجود سب سے زیادہ نوکریاں ہمارے دور میں دی گئیں'
انہوں نے کہا کہ کورونا کے باوجود سب سے زیادہ نوکریاں ہمارے دور میں دی گئیں، عالمی بینک نے رپورٹ میں کہا تھا کہ برصغیر میں سب سے کم بیروزگاری ہمارے دور میں تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ جب ہمارے خلاف تحریک عدم اعتماد لائی گئی تو اس وقت ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر 16.4 ارب ڈالر کے تھے جبکہ آج زرمبادلہ کے ذخائر آدھے ہوگئے ہیں، اسی طرح بڑی صنعتوں کی شرح نمو 26 فیصد تھی جو کہ کم ہو کر 10 فیصد پر آ گئی ہے۔
عمران خان نے کہا کہ کیا ضرورت ہے ان لوگوں کو جو دیکھ رہے تھے کہ سازش ہو رہی ہے، اور انہوں نے فیصلہ کیا کہ کچھ نہیں کریں گے، جو کچھ اس ملک کے ساتھ ہو رہا ہے آج وہ بھی اس کے ذمہ دار ہیں، پاکستان ان ممالک کی فہرست میں چوتھے نمبر پر ہے جو سری لنکا کے بعد ڈیفالٹ کرنے جا رہا ہے۔
انہوں نے کہا آج آرمی چیف امریکی نائب وزیر خارجہ کو فون کر رہے ہیں کہ آئی ایم ایف سے سفارش کرکے پیسے دلوا دیں تو آپ سوچیں کہ ملک کے کیا حالات ہیں، اس حکومت کی ساکھ اتنی خراب ہے کہ انہیں آرمی چیف کو کہنا پڑ رہا ہے کہ فون کریں۔
'کسی نے ماحولیات کا نہیں سوچا، جنگلات کٹوا دیے'
ان کا کہنا تھا کہ ان لوگوں نے ملک کے مستقبل کا بھی نہیں سوچا، ہماری حکومت نے بلین ٹرمی سونامی کا منصوبہ شروع کیا، کسی نے ماحولیات کا نہیں سوچا تھا بلکہ انہوں نے انگریز کے دور میں بنائے گئے جنگلات کٹوا دیے، پچاس سالوں میں ڈیم نہیں بنائے، ہم نے ڈیم بنانا شروع کیے۔
مزید پڑھیں: تحریک انصاف سے حکومت نہ لی جاتی تو ملک ٹکڑے ٹکڑے ہوجاتا، مولانا فضل الرحمٰن
عمران خان نے کہا کہ ڈاکٹر عشرت حسین نے کتاب میں لکھا تھا کہ کیسے بنگلہ دیش اور بھارت 1990 کے بعد پاکستان سے آگے نکلے، وہ اس لیے آ گے نکلے کیونکہ ان کی حکومتیں ٹھیک ہوگئیں جبکہ ہمارے ملک میں لوٹنے کے لیے یہ دو خاندان آ گئے، انہوں نے جتنا پیسہ بنایا ہے میں گارنٹی کرتا ہوں کہ ان کو خود نہیں پتہ کہ ان کے باہر ممالک میں کتنے بلین ڈالرز پڑے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ کبھی بھی اس ملک میں اجازت نہیں دینی چاہیے کہ کوئی اس ملک کی قیادت کرے جس کا سب کچھ پاکستان میں نہ ہو، کیا وجہ ہے کہ پاکستان کے وزیراعظم اور وزیر بننا چاہتے ہیں لیکن پیسہ ملک سے باہر ہے، اگر باہر پیسہ رکھا ہوا ہے تو اس کی تین وجوہات ہیں یا تو وہ چوری کا پیسہ ہے، یا پھر آپ ٹیکس بچانا چاہتے ہیں جس کی وجہ سے آپ پیسہ باہر بھیج دیتے ہیں لیکن تیسری کیٹیگری ہے وہ اس لیے پیسہ باہر بھیجتی ہے کہ پاکستان کسی بھی وقت دیوالیہ ہو سکتا ہے، اس ملک کی قیادت ان لوگوں کو کرنی چاہیے جس کا سب کچھ پاکستان میں ہو، اس کا جینا مرنا پاکستان میں ہو۔
عمران خان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں پنجاب اور خیبرپختوانخوا کی اسمبلیوں نے الیکشن کمیشن کے خلاف قرار داد منظور کی ہیں کہ انہیں اس الیکشن کمشنر پر کوئی اعتماد نہیں ہے، اس کا مطلب ہے کہ پاکستان کی 80 فیصد آبادی کو الیکشن کمیشن پر اعتماد نہیں ہے، ہم نے جمعرات 4 اگست کو الیکشن کمیشن کے سامنے پُرامن احتجاج کرنا ہے کہ الیکشن کمشنر استعفیٰ دے، کسی صورت بھی الیکشن کمشنر کی نگرانی میں آئندہ انتخابات نہیں ہونے چاہئیں۔
'ہم فلمیں دیکھ رہے تھے کہ پتا چلا لوگ سڑکوں پر نکلے ہوئے ہیں'
عمران خان نے 9 اپریل کی رات ایوان وزیراعظم سے جانے کے بعد کی صورتحال بیان کرتے ہوئے بتایا کہ جس دن میں وزیر اعظم ہاؤس سے ڈائری لے کر گھر گیا، میں اور بشریٰ بیگم اگلے دن آرام سے بیٹھ کر سوچ رہے تھے کہ بڑی دیر کے بعد آرام ملا ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ ہم رات کو فلمیں وغیرہ دیکھ رہے تھے، میں نے جب رات کو گیارہ بجے فون دیکھا تو پتہ چلا کہ لوگ سڑکوں پر نکلے ہوئے ہیں، تھوڑی دیر بعد ٹی وی پر دیکھا کہ لوگ سڑکوں پر نکلے ہوئے ہیں، اس دن سب سے زیادہ خوشی مجھے اس لیے ہوئی کہ قوم میں شعور آگیا ہے اور ہم قوم بن گئے ہیں۔