کیا موجودہ معاشی بحران واقعی اب تک کا سخت ترین معاشی بحران ہے؟
معاشی بحرانوں سے نمٹنے والوں کے لیے ہر معاشی بحران ایسا ہوتا ہے کہ جس کی ماضی میں کوئی نظیر نہیں ہوتی۔ ہمارے موجودہ معاشی بحران اور اس پر ہونے والے تبصروں پر بھی یہی بات صادق آتی ہے۔
یہ گزشتہ 3 برسوں کے دوران ملک کو درپیش کم از کم تیسرا معاشی بحران ہے۔ 2019ء کا موسمِ بہار اور موسمِ گرما بھی ہمارے معاشی مستقبل کے حوالے سے غیر یقینی کا دور تھا اور سب کے ذہنوں میں یہ سوال تھا کہ آیا پاکستان آئی ایم ایف کے پاس کے پاس جائے گا یا نہیں۔
جولائی 2019ء میں جب آئی ایم ایف نے پاکستان کے لیے 6 ارب ڈالر کا اعلان کیا تو ساتھ یہ بھی کہا کہ پاکستان کی معیشت ’ایک نازک موڑ پر‘ تھی اور ’بہت زیادہ مالیاتی ضروریات اور کمزور اور غیر متوازن ترقی کی وجہ سے اہم اقتصادی چیلنجوں کا سامنا کر رہی تھی‘۔ واضح رہے کہ اعلان کردہ 6 ارب ڈالر کی 7ویں اور 8ویں قسط ہمیں اگست کے مہینے میں ملنی ہے۔ اس وقت کئی اقدامات اٹھائے گئے جن کے نتیجے میں استحکام بحال ہوا۔
جولائی 2019ء کے آخر سے فروری 2020ء کے آخر یعنی کورونا وبا کے آغاز سے بالکل پہلے تک روپے کی قدر میں 4 فیصد بہتری آئی اور ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر 154 روپے ہوگئی۔ اسی طرح اس دورانیے میں ملک کے کُل ذخائر میں بھی 5 ارب ڈالر کا اضافہ ہوا۔
بعدازاں 2019ء میں ادائیگیوں کے توازن کے بحران کے بعد جب دوبارہ معاشی استحکام حاصل ہوا تو ہمیں مارچ 2020ء میں دوسرے بحران کا سامنا کرنا پڑا جو اس وقت واقعی بے نظیر معلوم ہورہا تھا۔ اس وقت آئی ایم ایف کی منیجنگ ڈائریکٹر کرسٹلینا جیورجیوا نے کورونا بحران کے حوالے سے کہا کہ ’ایک غیر معمولی عالمی بحران کے لیے ایک غیر معمولی عالمی ردِعمل کی ضرورت ہے‘۔ بلاشبہ دنیا نے اتنے بڑے پیمانے پر ایسا بحران نہیں دیکھا تھا جس میں معاشی چیلنجز بھی تھے اور صحتِ عامہ کے چیلنجز بھی۔
مزید پڑھیے: کیا پاکستان بھی سری لنکا کی طرح دیوالیہ ہو سکتا ہے؟
اس کے باوجود پاکستان نے بہتر اور بروقت اقدامات کے ساتھ اس بحران کا مقابلہ کیا جس سے لوگوں کی جانیں بھی بچائی گئیں اور ان کا ذریعہ معاش بھی، ساتھ ہی فوری معاشی بحالی کا بھی آغاز ہوا۔
ایک ایسے ملک کے لیے جو تاریخی طور پر معاشی بدانتظامی کا شکار تھا کورونا کے حوالے پاکستان کے ردِعمل کو بین الاقوامی سطح پر نوٹ کیا گیا۔ اس کی ایک اہم وجہ احساس پروگرام کے تحت کیش ٹرانسفر اسکیم تھی جس میں غریبوں کے تحفظ اور حکومت اور مرکزی بینک کے فعال معاشی اقدامات کو بھی سراہا گیا۔ اس کے علاوہ جہاں کورونا کے دوران دیگر ممالک کے قرضوں میں اضافہ ہوا وہیں پاکستان کا پبلک ڈیٹ تو جی ڈی پی تناسب 5 فیصد کم ہوا۔
یعنی ہم حالیہ 2 معاشی بحرانوں سے کامیابی کے ساتھ نمٹ چکے ہیں۔ تو پھر ہمیں یہ اعتماد کیوں نظر نہیں آرہا ہے کہ ہم اس مرتبہ بھی معاشی بحران سے نمٹ لیں گے۔
یہ سوال اس وجہ سے بھی اہم ہے کہ ہمارے قرضوں کی صورتحال اور مجموعی ذخائر کی سطح بھی آئی ایم ایف پروگرام سے قبل 2019ء کے ادائیگیوں کے توازن کے بحران کے مقابلے کہیں بہتر ہے۔ جون 2019ء کے اختتام پر ہمارے مجموعی ذخائر کم ہوکر 7 ارب ڈالر رہ گئے تھے، اس کے برعکس جون 2022ء کے اختتام پر یہ ذخائر 10 ارب ڈالر تھے۔ اسٹیٹ بینک کی فارورڈ لائبلیٹیز بشمول سواپس جو ذخائر کے ممکنہ قلیل مدتی اخراجات کا ایک پیمانہ ہیں ماضی میں 8 ارب ڈالر تھے جو اب 4 ارب ڈالر ہیں۔
درحقیقت ہمارے ریزرو بفرز کا معیار ماضی کے مقابلے میں تقریباً 7 ارب ڈالر بہتر ہے۔ 2019ء کی پہلی ششماہی میں ہمارا اوسط ماہانہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ تقریباً اسی حد پر تھا جس پر آج ہے باوجود اس کے کہ آج تیل کی قیمتیں تقریباً 40 ڈالر زیادہ ہیں۔ مزید یہ کہ ہمارا پبلک ڈیٹ جون 2022ء میں جی ڈی پی کا 75 فیصد تھا جو 2 سال قبل جی ڈی پی کا 80 فیصد تھا۔ مارکیٹ کا کے ایس ای 100 انڈیکس جو بنیادی چیزوں کے بجائے جذبات اور دیگر چیزوں پر کام کرتا ہے کورونا کے دوران 27 ہزار پوائٹس تک گر گیا تھا لیکن آج تقریباً 40 ہزار پوائنٹس پر ہے۔
تاہم ان بہتر اشاریوں کے بعد بھی تاثر یہی ہے کہ ہمیں اس سے زیادہ سنگین بحران کا کبھی سامنا نہیں کرنا پڑا۔ اس تاثر کی 3 بنیادی وجوہات ہیں کہ آخر کیوں گزشتہ 2 برسوں میں 2 بحرانوں سے نمٹنے اور بہتر اشاریوں کے باوجود یہ معاشی بحران انتہائی سنگین نظر آتا ہے۔
مزید پڑھیے: پاکستان کے لیے میثاق معیشت ناگزیر کیوں ہے؟
پہلی وجہ
اس تاثر کی پہلی وجہ موجودہ سیاسی کشیدگی اور مستقبل کی معاشی پالیسی سازی اور غیر یقینی پر پڑنے والے اس کے اثرات ہیں۔ 2019ء میں اور پھر کورونا کے دوران مستقبل قریب کے سیاسی سیٹ اپ کے حوالے سے کوئی زیادہ ابہام نہیں تھا۔ آج صورتحال اس کے بالکل برعکس ہے جس کا اثر اکثر معاشی فیصلوں پر بھی پڑتا ہے۔ مزید یہ کہ ہر نئی سیاسی پیشرفت مستقبل کے لیے فیصلہ سازی کے راستے میں مزید تبدیلیوں کا باعث بنتی ہے۔
دوسری وجہ
اس وقت عالمی سطح پر شرح سود 2019ء یا پھر کورونا کے دور کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے۔ یہ اہم ہے کیونکہ اس سے بیرونی فنانسنگ کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے تجارتی طور پر قرض لینے کی ہماری صلاحیت پر براہِ راست اثر پڑتا ہے۔ 2019ء کے وسط میں 10 سالہ امریکی شرح سود تقریباً 2 فیصد تھی جو کورونا بحران کے دوران 0.5 فیصد تک گرگئی۔ آج یہ شرح 3 فیصد کے قریب ہے۔ اس کے علاوہ ابھرتی ہوئی منڈیوں سے قرض لینے کے لیے امریکی شرح سود پر پریمیم میں تیزی سے اضافہ ہوا۔
تیسری وجہ
گزشتہ 2 بحرانوں کے برعکس آج سری لنکا جیسے ان ممالک کی تعداد زیادہ ہے جنہوں نے بہت زیادہ قرضہ لے رکھا ہے اور اب اس حوالے سے پریشانی کا شکار ہیں۔ اگرچہ کچھ حوالوں سے پاکستان کی صورتحال سری لنکا سے بہتر ہوسکتی ہے لیکن معاشی انتظام کے حوالے سے سری لنکا کے ساتھ تشبیہہ دیے جانا بھی خدشات کو جنم دے سکتا ہے۔ مزید یہ کہ پاکستان کے لیے یہ بات نقصاندہ ہے کہ عالمی ادارے اسے قرضوں کے بحران میں جکڑے یا ڈیٹ ڈسٹریس کا شکار ممالک کی فہرست میں شامل کرلیں۔ پھر آئی ایم ایف سے معاہدے کے اعلان کے باوجود تینوں کریڈٹ ریٹنگ ایجینسیز کی جانب سے پاکستان کی معاشی درجہ بندی میں کمی تجزیہ کاروں کو یہ وجہ فراہم کرتی ہے کہ وہ ہمیں ڈیٹ ڈسٹریس کا شکار ممالک میں شامل کریں۔
تو یہ چیزیں ہمارے مستقبل کے بارے میں کیا بتاتی ہیں؟ بدقسمتی سے اوپر بیان کی گئی 3 وجوہات میں سے صرف پہلی وجہ یعنی سیاسی عدم استحکام ہی ہمارے قابو میں ہے یا یوں کہیں کہ کسی حد تک ہمارے قابو میں ہے۔ دیگر 2 عوامل یعنی عالمی شرح سود اور قرضوں کے بحران میں جکڑے ممالک کی تعداد میں ہونے والا اضافہ ایسی چیزیں ہیں جو آنے والے مہینوں میں برقرار رہیں گی۔ کچھ بھی ہو ان میں تبدیلی ہمارے اختیار میں نہیں ہے۔
اچھی خبر یہ ہے کہ استحکام لانے کے لیے یہ پہلی وجہ ہی سب سے زیادہ اہم ہے۔ اگر اہم معاشی اسٹیک ہولڈرز یہ محسوس کرتے ہیں کہ ایک خاص سیاسی سیٹ اپ، بھلے وہ کوئی بھی سیٹ اپ ہو، مستقبل میں مستحکم رہے گا تو وہ یہ نتیجہ اخذ کریں گے ہمارے معاشی مسائل جتنے گھمبیر نظر آتے ہیں حقیقت میں اتنے گھمبیر ہیں نہیں۔
یہ مضمون 31 جولائی 2022ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔
تبصرے (1) بند ہیں