ممنوعہ فنڈنگ کیس کا فیصلہ فی الفور سنایا جائے، وفاقی وزیر داخلہ
وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنااللہ نے ایک بار پھر الیکشن کمیشن سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ممنوعہ فنڈنگ کیس کا فیصلہ فی الفور سنائے اور حقائق کے مطابق کارروائی بھی کرے۔
اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے رانا ثنااللہ نے کہا کہ ممنوعہ فنڈنگ پر محفوظ کیے گئے فیصلے کے لیے کہا جا رہا تھا کہ اس ہفتے سنایا جائے مگر کل اس ہفتے کا بھی آخری دن ہے اس لیے اب تمام سیاسی جماعتوں بشمول پاکستان مسلم لیگ (ن) کا یہ مطالبہ ہے کہ ’ممنوعہ فنڈنگ‘ کیس کا فی الفور فیصلہ سنایا جائے۔
ان کا کہنا تھا کہ ممنوعہ فنڈنگ پر محفوظ فیصلہ الیکشن کمیشن کو لکھنا ہے اور اس کا اعلان بھی اس کو کرنا ہے تو پھر اس میں کونسی رکاوٹ ہے یا ایسا کیا معاملہ ہے کہ محفوظ کیا گیا فیصلہ سنایا نہیں جارہا۔
مزید پڑھیں: فاٹا کا انضمام ختم کرنے پر کوئی بات نہیں ہوگی، رانا ثنااللہ
انہوں نے کہا کہ یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ 300 سے زائد لوگ اور کمپنیاں ہیں جنہوں نے عمران خان کو غیر ملکی ممنوعہ فنڈنگ کی ہے اور ان میں ایسے لوگ اور کمپنیاں بھی شامل ہیں جن کا براہ راست تعلق بھارت اور اسرائیل سے ہے۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ عمران خان سب کے لیے کہتا ہے کہ ریڑھی والے، چپڑاسی وغیرہ کے بینک اکاؤنٹس میں رقم منتقل ہوئی مگر وہ یہ بھی تو بتائیں کہ ساڑھے 75 کروڑ ڈالرز کس کے اکاؤنٹ میں آئے اور جیسے ہی یہ تحقیقات آگے بڑھے گی تو 7 ارب ڈالرز سامنے آئیں گے اور یہ بھی کہ وہ پیسے کس کے اکاؤنٹ میں منتقل کیے گئے۔
ان کا کہنا تھا کہ ان (تحریک انصاف) کے اپنے لوگوں نے کہا کہ ان کے نام پر اکاؤنٹس کھولے جائیں اور اس میں رقوم منتقل کی جائے جن میں عامر کیانی، سیف اللہ نیازی، ڈاکٹر ہمایوں، کرنل یونس رضا، طارق شیخ، سردار اطہر شامل ہیں جو فوری طور پر گرفتار ہونے چاہئیں کیونکہ ان لوگوں کے خلاف منی لانڈرنگ کا مقدمہ بھی بنتا ہے اور یہ ایک ایسا عمل ہے جس کی قانون میں کوئی گنجائش نہیں اور نہ ہی یہ عمل ملک کے مفاد میں ہے۔
رانا ثنااللہ نے کہا کہ ہماری الیکشن کمیشن سے استدعا ہے کہ نہ صرف فیصلہ سنایا جائے بلکہ جو حقائق سامنے آئے ہیں کارروائی بھی ان کے تحت کی جائے تاکہ قوم ایسے شخص سے آزاد ہو جو خود بھی مکمل طور پر گمراہ ہے اور دوسروں کو بھی گمراہ کر رہا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: رانا ثنااللہ کےخلاف منی لانڈرنگ کی تحقیقات شروع
'اگر قوم نے عمران خان کی شناخت نہیں کی تو یہ بڑے حادثے سے دوچار کرے گا'
انہوں نے کہا کہ جس شخص کو یہ معلوم ہے کہ تحریک انصاف نے ڈیڑھ کروڑ کے قریب ووٹ حاصل کیے ہیں جبکہ مسلم لیگ (ن) نے اکیلے نے ایک کروڑ 28 لاکھ ووٹ حاصل کیے ہیں اور موجودہ اتحاد نے 2018 کے انتخابات میں ڈھائی کروڑ کے قریب ووٹ حاصل کیے تو اس (عمران خان) پاگل شخص کو کوئی سمجھائے کہ کیا اکثریت کو تم اس ملک سے باہر پھینک دو گے۔
وفاقی وزیر نے عمران خان کو مخاطب کرکے کہا کہ تم (عمران خان) اپنے مخالفین کو چور ڈاکو کہتے ہو مگر اپنے اردگرد جو چور اور ڈاکو بیٹھے ہیں اس پر کوئی جواب نہیں اور جس طرح تم نے گھٹیا طریقے سے لوٹ مار کی ہے اس کا آج تک جواب دینے کے لیے تیار نہیں، نہ صرف یہ بلکہ 50 ارب روپے کی ڈکیتی تم نے خود کی ہے جو کاغذات میں ثابت ہے اور اس ڈکیتی سے تم نے 5 ارب روپے کی ملکیت خریدی ہے جس کی تمہاری اور تمہاری اہلیہ کے نام پر رجسٹری ہے تو آج تک تم نے اس بات کا جواب نہیں دیا۔
انہوں نے کہا کہ اگر تاریخ میں کسی پاگل اور احمق انسان کی مثال ملتی ہے تو وہ ہٹلر ہے جس نے اسی طرح اپنی قوم کو جذبات میں کرکے تباہ کیا اور اگر پاکستانی قوم نے اس شخص (عمران خان) کی شناخت نہیں کی تو یہ جس حادثے سے قوم کو دوچار کرنے جارہا ہے اس کا ہمیں مستقبل قریب میں بڑے نقصان سے دوچار ہونا پڑے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم بات کی ذمہ داری لیتے ہیں اور کریڈٹ بھی لیں گے کہ ہم نے ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچایا اور آج کوئی بھی یہ بات نہیں کر رہا کہ ملک دیوالیہ ہو جائے گا۔
مزید پڑھیں: کالعدم ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات آئین کے تحت ہوں گے، رانا ثنااللہ
'عمران خان اپنی حکومتیں تحلیل کرکے انتخابات کا اعلان کیوں نہیں کرتا'
رانا ثنااللہ نے کہا کہ میرا لیڈر نواز شریف کل بھی اور آج بھی اس بات پر قائم ہے کہ انتخابات ہونے چاہئیں اور اب ہم اگر الیکشن کی طرف جاتے ہیں تو عمران خان کہتا ہے پہلے چیف الیکشن کمشنر کو تبدیل کریں، مگر چیف الیکشن کمشنر کو مقرر کرنے کا ایک آئینی طریقہ کار ہے جس کا نام اس وقت اس عمران خان نے خود دیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ عمران خان ہم سے یہ مطالبہ کر رہا ہے کہ حکومت انتخابات کا اعلان کرے، اس کی اپنی بھی حکومتیں ہیں ان کو تحلیل کرکے انتخابات کا اعلان کیوں نہیں کرتا۔
عمران خان کو گرفتار کرنے سے متعلق سوال پر ان کا کہنا تھا کہ گرفتار کرنے کا اختیار حکومت کے پاس نہیں بلکہ نیب اور وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے پاس ہے اور یہ ادارے مقدمات میں تفتیش کر رہے ہیں، اگر کوئی چیز ثابت ہوتی ہے تو مقدمہ بنائیں اور گرفتار کریں، اگر ثابت نہیں ہوتا تو گرفتار نہ کریں۔