• KHI: Fajr 5:34am Sunrise 6:53am
  • LHR: Fajr 5:12am Sunrise 6:37am
  • ISB: Fajr 5:19am Sunrise 6:46am
  • KHI: Fajr 5:34am Sunrise 6:53am
  • LHR: Fajr 5:12am Sunrise 6:37am
  • ISB: Fajr 5:19am Sunrise 6:46am

حکومتی مشیر کے دورہ واشنگٹن سے وزارتِ خارجہ کا اظہار لاتعلقی، سفارتی حلقوں میں تشویش

شائع July 28, 2022
22 جولائی کو وزارت خارجہ کے ترجمان نے اس ملاقات سے لاتعلقی کا اظہار کر دیا— فائل فوٹو : ٹوئٹر
22 جولائی کو وزارت خارجہ کے ترجمان نے اس ملاقات سے لاتعلقی کا اظہار کر دیا— فائل فوٹو : ٹوئٹر

معیشت کی بحالی کی کوششوں کے سلسلے میں امریکا کا تعاون حاصل کرنے کے لیے وزیر اعظم شہباز شریف کے معاون خصوصی طارق فاطمی کو امریکی محکمہ خارجہ بھیجنے اور بعد ازاں اسے ’نجی دورہ‘ قرار دینے کے فیصلے نے واشنگٹن کے سفارتی حلقوں کو تشویش میں مبتلا کردیا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق طارق فاطمی گزشتہ ہفتے امریکی دارالحکومت واشنگٹن پہنچے اور پاکستانی سفیر سمیت سفارت خانے کے حکام کے ساتھ گفتگو کی۔

انہوں نے 21 جولائی کو امریکی نائب وزیر خارجہ وینڈی شرمین سے ان کے دفتر میں ملاقات کی، اسی روز وینڈی شرمین نے اپنے آفیشل ٹوئٹر اکاؤنٹ پر ایک مختصر پیغام پوسٹ کیا جس میں انہوں نے لکھا کہ ’میں نے وزیر اعظم پاکستان کے معاون خصوصی طارق فاطمی سے ملاقات کی تاکہ اقتصادی اور تجارتی تعلقات کو بڑھا کر تعلقات کو وسعت دینے کے اہداف کے لیے ہمارے اشتراک کی توثیق کی جاسکے‘۔

انہوں نے مزید لکھا کہ امریکا مل کر کام کرنے اور دونوں ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات کے 75 سال کا جشن منانے کا منتظر ہے۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان مشکلات سے دوچار معیشت کی بحالی کے لیے امریکی امداد کا خواہاں

محکمہ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے بھی ملاقات کی تصدیق کرتے ہوئے مزید کہا کہ ملاقات کے دوران گفتگو افغانستان، علاقائی استحکام اور روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کے یوکرین پر حملے کے نتیجے میں پاکستان اور دنیا بھر میں خوراک کی سلامتی پر پڑنے والے تباہ کن اثرات پر مرکوز تھی۔

پاکستانی سفارتخانے نے بھی اسی حوالے سے ایک پریس ریلیز جاری کی اور پاکستان میں میڈیا نے بھی اس ملاقات کی کوریج کی۔

کچھ حلقوں کی جانب سے قیاس کیا گیا کہ طارق فاطمی کو رواں سال ستمبر میں نیویارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے دوران امریکی صدر جو بائیڈن اور وزیر اعظم شہباز شریف کے درمیان ملاقات کا بندوبست کرنے کے لیے بھیجا گیا تھا۔

تاہم 22 جولائی کو اسلام آباد میں وزارت خارجہ کے ترجمان نے اس ملاقات سے لاتعلقی کا اظہار کر دیا۔

ایک نیوز بریفنگ کے دوران اس ملاقات کے ایجنڈے سے متعلق سوال پر ترجمان وزارت خارجہ نے کہا کہ ’طارق فاطمی واشنگٹن کے نجی دورے پر ہیں، امریکی حکام کے ساتھ ان کی ملاقات میں دفتر خارجہ نے کوئی کردار ادا نہیں کیا‘۔

مزید پڑھیں: امریکا پاکستان کے ساتھ تعلقات کی تعیمرِ نو کیلئے تیار ہے، ڈونلڈ بلوم

اس ملاقات کے حوالے سے ترجمان وزارت خارجہ کی جانب سے یہ بیان امریکی فریق کے لیے اضطراب کا سبب بنا اور واشنگٹن کے حلقوں نے تشویش ظاہر کی۔

امریکی دارالحکومت میں پاکستان کا ایک ایسے ملک کے طور پر تاثر ابھر رہا ہے جہاں ملک کے اندرونی سیاسی خدشات اکثر دوسرے ممالک کے ساتھ تعلقات پر غالب آ جاتے ہیں، چاہے وہ تعلقات امریکا جیسی سپر پاور کے ساتھ ہی کیوں نہ ہوں۔

امریکا میں خدمات سرانجام دینے والے 2 سابق پاکستانی سفارت کاروں نے نشاندہی کی کہ ایسا دوسری بار ہوا ہے، اس سے قبل کیبل گیٹ تنازع کے دوران ایسا ہوا اور اب ایک سینئر پاکستانی عہدیدار کے واشنگٹن کے دورے کے بعد یہ معاملہ دیکھنے میں آیا ہے۔

دونوں سینئر پاکستانی سفارت کاروں میں سے ایک نے کہا کہ ’پہلے واقعے میں ایک خفیہ سفارتی کیبل کا استعمال ایک ایسی حکومت کے لیے عوامی حمایت حاصل کرنے کے لیے کیا گیا جسے عدم اعتماد کے اقدام کا سامنا تھا، دوسرے معاملے میں حکومت بظاہر معیشت کی بحالی کے لیے کوششوں میں تعاون کے لیے ایک سینئر عہدیدار کو واشنگٹن بھیجتی ہے لیکن پھر اس سے انکار کر دیتی ہے، بظاہر ایسا اس لیے کیا گیا کیونکہ حکومت کو کچھ حلقوں کے ناراض ہونے کا خدشہ ہے‘۔

یہ بھی پڑھیں: امریکی سینیٹر کا پاکستان کے ساتھ تعلقات کو وسعت دینے کی ضرورت پر زور

سفارتی ذرائع نے اس عجیب و غریب پیش رفت پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ’سرکاری بیانات میں کوئی غیر معمولی بات نہیں ہے، تردید سمیت ایسا کچھ بھی نہیں جس کی وضاحت کی ضرورت ہو‘۔

واشنگٹن کی نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی میں بین الاقوامی تعلقات پڑھانے والے حسن عباس نے اس حوالے سے اپنی رائے دی کہ ’خاص طور پر موجودہ صورتحال میں ڈپٹی سیکریٹری کے طور پر سینئر عہدیدار سے نجی ملاقات کا امکان بہت کم ہے، ایسی ملاقاتیں ریاستی تعاون کے بغیر نہیں ہوتیں‘۔

انہوں نے کہا کہ ’پاکستان کا اپنا مؤقف اس طرح تبدیل کرنا ملک میں ادارہ جاتی ہم آہنگی کے بارے میں غیر ضروری سوالات ایک ایسے وقت میں اٹھاتا ہے جب پاکستان کو معاشی استحکام اور افغانستان کے حوالے سے علاقائی پالیسی کے لیے ہر قسم کی حمایت کی ضرورت ہے‘۔

کارٹون

کارٹون : 21 نومبر 2024
کارٹون : 20 نومبر 2024