جب تک حکم نہ دیں دعا زہرہ کو پیش نہ کیا جائے، عدالت
کراچی کی مقامی عدالت نے دعا زہرہ کو پیش کیے جانے کے بعد سرکاری وکیل کو حکم دیا ہے کہ اب جب تک عدالت حکم نہ دے دعا زہرہ کو پیش نہ کیا جائے۔
دعا زہرہ کو پولیس نے آج کراچی سٹی کورٹ میں جوڈیشل مجسٹریٹ شرقی آفتاب احمد بگھیو کی عدالت میں سخت سیکیورٹی میں پیش کیا۔
دعا زہرہ کے مبینہ شوہر اور مرکزی ملزم ظہیر احمد نے گزشتہ روز عدالت سے دعا زہرہ کو پیش کرنے کی استدعا کی تھی، جس پر عدالت نے دعا زہرہ کو پیش کرنے کا حکم جاری کیا تھا۔
آج عدالت میں دوران سماعت دعا زہرہ کے والد مہدی کاظمی اور ظہیر احمد کے وکلا نے اپنے اپنے دلائل پیش کیے۔
عدالت نے کہا کہ ہمارا آج بچی کو پیش کرنے کا حکم اس بات کو یقینی بنانا تھا کہ وہاں ماحول ٹھیک ہے، عدالت نے سرکاری وکیل کو حکم دیا کہ اب جب تک عدالت حکم نہ دے دعا زہرہ کو پیش نہ کیا جائے، جب عدالت ضرورت محسوس کرے گی تو دعا زہرہ کو پیش کرنے کے احکامات جاری کریں گے۔
یہ بھی پڑھیں: عدالتی حکم پر دعا زہرہ کو لاہور سے کراچی منتقل کر دیا گیا
ظہیر احمد کے وکیل فاروقی ایڈووکیٹ نے استدعا کی کہ دعا زہرہ کو بھی وکیل کرنے کا موقع دیا جائے، بچی سے پوچھا جائے کہ وہ سرکاری وکیل سے مطمئن ہیں یا کوئی اور وکیل کرنا چاہتی ہیں، جس پر عدالت نے ریمارکس دیے کہ دعا سے ملاقات کی درخواست جب آئے گی اس وقت دیکھا جائے گا۔
مدعی مقدمہ نے اس استدعا کی مخالفت کی اور مؤقف اختیار کیا کہ بچی سے جب پہلے لاہور میں ملاقات کرائی گئی تو ان گنت وکالت نامے سائن کرائے گئے۔
انہوں نے مزید کہا کہ کچھ میڈیا حضرات ملزم کی فیملی کے ساتھ پریس کانفرنس کر رہے ہیں، کچھ لوگوں نے جسٹس اقبال کلہوڑو پر الزامات لگائے ہیں، کہا جارہا ہے اپنے مائی باپ کو خوش کیا جارہا ہے، ہم پہلے دن سے کہہ رہے ہیں کہ میڈیا کو دور رکھا جائے، قانون کے مطابق میڈیا میں بچی کا نام نہیں لیا جاسکتا ہے۔
درخواست گزار ظہیر احمد کے وکیل نے کہا کہ اگر مدعی مقدمہ یقین دہانی کرادیں تو ہم بھی میڈیا میں بیان بازی نہیں کریں گے۔
مزید پڑھیں: پولیس کا دعا زہرہ کے مبینہ اغوا کے وقت ظہیر احمد کی کراچی میں موجودگی کا دعویٰ
عدالت کی جانب سے کہا گیا کہ ہم نے آج چائلڈ پروٹیکشن افسر سے پوچھا کہ بچی کیسی ہے، ہمارا مقصد بچی کے حقوق کا تحفظ کرنے ہے۔
بعد ازاں عدالت نے کیس کی مزید سماعت یکم اگست تک ملتوی کردی۔
اس سے قبل دعا زہرہ کو پیش کیے جانے کے دوران پولیس کا جارحانہ رویہ دیکھنے میں آیا، عدالت میں صحافیوں کے ساتھ بدتمیزی کی گئی، نئے تفتیشی افسر سعید رند کے ہمراہ موجود سادہ لباس اہلکار صحافیوں کو دھکے دیتے رہے، سعید رند نے صحافیوں کو ڈرانے کے لیے پستول بھی نکال لی اور سب کو پیچھے ہٹنے کو کہا۔
یہ بھی پڑھیں: ’دعا زہرہ کی عمر15 سے 16 سال ہے‘، میڈیکل بورڈ کی رپورٹ عدالت میں جمع
خیال رہے کہ گزشتہ روز جوڈیشل مجسٹریٹ نے تفتیشی افسر کو ہدایت کی تھی کہ وہ دعا زہرہ کو بدھ کو (آج) مکمل سیکیورٹی کے ساتھ عدالت میں پیش کریں۔
جوڈیشل مجسٹریٹ آفتاب احمد بگھیو نے یہ حکم دعا کے مبینہ شوہر ظہیر احمد کی جانب سے سندھ چائلڈ پروٹیکشن اتھارٹی (ترمیمی) ایکٹ 2021 کے سیکشن 17(2) کے تحت جووینائل جسٹس سسٹم ایکٹ 2018 کے سیکشن 3 کے تحت دائر درخواست پر جاری کیا تھا۔
ظہیر احمد کے وکیل عامر ریاض نے دلائل دیتے ہوئے کہا تھا کہ یہ ایک قانونی تقاضہ ہے کہ جب بھی چائلڈ پروٹیکشن افسر کی جانب سے کسی بھی بچے کو تحویل میں لیا جائے تو افسر کا فرض ہے کہ وہ بچے کو 24 گھنٹے کے اندر قریبی مجسٹریٹ کے سامنے پیش کرے۔
انہوں نے مزید کہا کہ 24 گھنٹے کے اندر مجسٹریٹ کے سامنے پیش کرنے کا مقصد دعا زہرہ کے حقوق کا تحفظ یقینی بنانا ہے۔
مزید پڑھیں: سندھ ہائیکورٹ کا دعا زہرہ کو لاہور سے کراچی منتقل کرنے کا حکم
انہوں نے مزید کہا کہ لاہور کے ایک جوڈیشل مجسٹریٹ نے بھی دعا زہرہ کی تحویل کی اجازت دیتے ہوئے اسے کراچی کی ٹرائل کورٹ کے سامنے پیش کرنے کا یہی حکم دیا ہے۔
جج نے مشاہدہ کیا کہ ایک قانونی سوال تھا کہ کیا دعا کو مخصوص مدت کے اندر ٹرائل کورٹ میں پیش کیا جانا ہے یا اسے اس وقت پیش کیا جا سکتا ہے جب معاملہ سماعت کے لیے مقرر ہے۔
مجسٹریٹ نے رائے دی کہ چائلڈ پروٹیکشن ایکٹ 2021 میں سیکشن 17(2) (ترمیم) اور چائلڈ میرج ریسٹرینٹ رولز 2016 کے رول 10 کے تحت دعا زہرہ کو فوری طور پر پیش کیا جانا ضروری ہے۔
درخواست منظور ہونے پر مجسٹریٹ نے تفتیشی افسر کو ہدایت کی کہ وہ 27 جولائی کو (آج) صبح 9:30 بجے دعا زہرہ کو پیش کریں۔
یہ بھی پڑھیں: سندھ پولیس کی عدالت سے دعا زہرہ اغوا کیس کو کالعدم قرار دینے کی سفارش
انہوں نے مزید حکم دیا کہ تفتیشی افسر دعا زہرہ کو چائلڈ پروٹیکشن افسرکے ہمراہ عدالت میں پیش کریں اور دونوں جانب سے کسی بھی شخص کو دعا سے ملنے کا موقع نہ ملے۔
عدالت نے یہ بھی حکم دیا تھا کہ دعا زہرہ کی پیشی کے وقت کیس کے وکلا کے علاوہ کوئی اور شخص کمرہ عدالت میں موجود نہیں ہوگا۔
قبل ازیں لاہور کی ضلع کچہری کے مجسٹریٹ نے عدالت میں پیشی سے قبل کسی سے ملاقات نہ کروانے کی ہدایت کرتے ہوئے دعا زہرہ کو لاہور سے کراچی بھیجنے کا حکم دیا تھا۔
لاہور کے جوڈیشل مجسٹریٹ رضوان احمد نے دعا زہرہ کو عدالت میں پیشی کے لیے کراچی منتقل کرنے سے متعلق تحریری حکم جاری کرتے ہوئے کہا تھا کہ دعا زہرہ کو بحفاظت جوڈیشل مجسٹریٹ غربی کراچی کی عدالت میں پیش کیا جائے۔
مزید پڑھیں: عدالت نے دعا زہرہ کو شیلٹر ہوم بھیجنے کا حکم دے دیا
رواں ہفتے سندھ ہائی کورٹ نے دعا زہرہ کے والد مہدی علی کاظمی کی درخواست پر عدالتی کارروائی میں پیش ہونے کے لیے ان کی بیٹی کو لاہور سے کراچی منتقل کرنے کا حکم دیا تھا۔
اس سے قبل دعا زہرہ نے اپنے والدین کی طرف سے مسلسل دھمکیوں کا حوالہ دیتے ہوئے دارالامان بھیجنے کی درخواست کی تھی اور لاہور کی عدالت سے رجوع کیا تھا جہاں انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا تھا کہ ان کے اپنے شوہر ظہیر کے ساتھ بھی اچھے تعلقات نہیں رہے۔
پس منظر
رواں سال 16 اپریل کو دعا زہرہ کے والدین نے کراچی میں فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (یاف آئی آر) درج کرائی تھی، جس میں الزام لگایا گیا کہ ان کی بیٹی کو اس وقت اغوا کر لیا گیا جب وہ کچرا پھینکنے کے لیے گھر سے باہر نکلی تھی۔
اس واقعے کی خبر سامنے آنے کے بعد سوشل میڈیا پر بڑا شور مچ گیا تھا اور حکومت سندھ کو کارروائی کرنے پر مجبور کیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: دعا زہرہ کے والد نے سندھ ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کرلیا
بعدازاں 26 اپریل کو اوکاڑہ سے دعا زہرہ بازیاب کرایا گیا تھا، اس دن ایک ویڈیو بیان میں دعا زہرہ نے کہا تھا کہ اس سے اغوا نہیں کیا گیا مگر اس نے اپنی خوشی سے ظہیر کے ساتھ نکاح کیا ہے۔
اس نے کہا تھا کہ اس نے اپنی مرضی سے اپنا گھر چھوڑا ہے اور کہا تھا کہ میں نے اپنی مرضی سے شادی کی ہے، مجھے کسی نے مجبور نہیں کیا اور میں یہاں اپنے شوہر کے ساتھ خوش ہوں، اس لیے خدا کے واسطے مجھے پریشان مت کیا جائے۔
علاوہ ازیں دعا زہرہ نے ایک ویڈیو پیغام جاری کیا تھا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ‘میرے گھر والے زبردستی میری شادی کسی اور سے کروانا چاہتے تھے، مجھے مارتے پیٹتے تھے، مجھے کسی نے بھی اغوا نہیں کیا، میں اپنی مرضی سے گھر سے آئی ہوں اور اپنی پسند سے ظہیر سے شادی کی ہے’۔
انہوں نے کہا تھا کہ میرے اہل خانہ میری عمر غلط بتا رہے ہیں، میں 14 سال کی نہیں بلکہ بالغ ہوں، میری عمر 18 سال ہے۔
مزید پڑھیں: دعا زہرہ کی بازیابی کیلئے والد کی درخواست پر فریقین کو نوٹس
بعد ازاں سندھ ہائی کورٹ کے حکم پر 6 جون کو کیے گئے میڈیکل ٹیسٹ میں اس بات کا تعین کیا گیا تھا کہ دعا کی عمر 17 سال ہے۔
دعا زہرہ کی عمر کے تعین کے لیے دوسری مرتبہ میڈیکل بورڈ تشکیل دیا تھا اور اس بورڈ نے 4 جولائی کو اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ جسمانی معائنے کے بعد دعا زہرہ کی عمر 14 سے 15سال کے درمیان ہے۔
بورڈ کے مطابق دانتوں کی جانچ کے مطابق ان کی عمر 13 سے 15 سال کے درمیان ہے جبکہ ہڈیوں کی جانچ کے بعد ان کی عمر 16 سے 17 سال تک بتائی گئی ہے۔
ڈاؤ میڈیکل کالج کی پرنسپل ڈاکٹر صبا سہیل کی زیر سربراہی قائم 10 رکنی خصوصی میڈیکل بورڈ نے نتیجہ اخذ کیا تھا کہ دعا زہرہ کی عمر 15 سے 16 سال کے درمیان ہے اور 15 سال کے زیادہ قریب ہے۔
یہ بھی پڑھیں: دعا زہرہ کے نکاح کی ویڈیو وائرل
کراچی پولیس نے 16 جولائی کو ایڈیشنل سیشن جج شرقی کی عدالت میں دعویٰ کیا کہ دعا زہرہ کے مبینہ اغوا کے وقت ظہیر احمد کراچی میں موجود تھے جبکہ یہ رپورٹ پولیس کے گزشتہ مؤقف کے برعکس تھی۔
رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ ملزم ظہیر احمد کا سی ڈی آر ریکارڈ حاصل کیا گیا، جس میں انکشاف ہوا کہ دعا زہرہ کے مبینہ اغوا کے وقت ظہیر احمد کراچی میں موجود تھا اور سی ڈی آر ریکارڈ عدالت میں جمع کرا دیا گیا ہے۔
رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ ظہیر احمد کی گرفتاری اور دعا زہرہ کی بازیابی کے لیے پنجاب جانے کے لیے بھی محکمہ داخلہ سندھ سے اجازت حاصل کی جارہی ہے۔
دعا زہرہ نے 19 جولائی کو اپنے والدین کی جانب سے ملنے والی ‘مسلسل دھمکیوں’ کا حوالہ دیتے ہوئے لاہور کی عدالت سے رجوع کیا کہ انہیں دارالامان بھیجا جائے اور یہ بھی بتایا کہ ظہیر کے ساتھ ان کے ‘تعلقات اچھے نہیں’ ہیں، عدالت نے ان کی درخواست منظور کرتے ہوئے شیلٹر ہوم منتقل کردیا تھا۔