روس کا 2024 کے بعد بین الاقوامی خلائی اسٹیشن سے الگ ہونے کا فیصلہ
روس کی خلائی ایجنسی کے نئے مقرر کردہ چیف نے صدر ولادیمیر پیوٹن کو بتایا کہ روس نے 2024 کے بعد بین الاقوامی خلائی اسٹیشن سے علیحدہ ہونے کا فیصلہ کیا ہے۔
ڈان اخبار میں شائع خبررساں ادارے ’اے ایف پی‘ کی رپورٹ کے مطابق یہ اعلان یوکرین میں روس کی جانب سے فوجی مداخلت کے ردعمل میں ماسکو پر عائد سخت پابندیوں کے نتیجے میں روس اور مغربی ممالک کے درمیان پیدا ہونے والے تناؤ کے بعد سامنے آیا ہے، روس اور امریکا نے بین الاقوامی خلائی اسٹیشن پر شانہ بشانہ کام کیا ہے جو 1998 سے مدار میں ہے۔
جولائی کے وسط میں روسکوسموس کے سربراہ تعینات ہونے والے یوری بوریسوف نے صدر پیوٹن کو بتایا کہ ’یقیناً ہم اپنے شراکت داروں کے لیے اپنی تمام ذمہ داریاں پوری کریں گے لیکن 2024 کے بعد اس اسٹیشن کو چھوڑنے کا فیصلہ کیا گیا ہے‘۔
یہ بھی پڑھیں: روسی اداکارہ خلا میں بننے والی پہلی فلم کی شوٹنگ کیلئے اسپیس اسٹیشن روانہ
انہوں نے کہا کہ ’میرا خیال ہے کہ اس وقت تک ہم ایک روسی آربٹل اسپیس اسٹیشن کی تیاری پر کام شروع کردیں گے‘ جسے انہوں نے روسی خلائی پروگرام کی بنیادی ترجیح قرار دیا، جواب میں ولادیمیر پیوٹن نے اس خیال کی تائید کی۔
فوجی پس منظر کے حامل سابق نائب وزیر اعظم یوری بوریسوف نے دمتری روگوزین کی جگہ یہ عہدہ سنبھالا ہے جو ایک قوم پرست سیاست دان ہیں اور اپنے طنزیہ بیانات اور عجیب رویے کے سبب مشہور ہیں۔
اب تک خلائی تحقیق ان چند شعبوں میں سے ایک تھی جس میں یوکرین اور دیگر معاملات پر کشیدگی کے باوجود روس کا امریکا اور اس کے اتحادیوں کے ساتھ تعاون متاثر نہیں ہوا تھا۔
مزید پڑھیں: خلا میں پہلی فلم کی شوٹنگ، روسی اداکارہ اور ہدایت کار کی 12 روز بعد زمین پر واپسی
یوری بوریسوف نے متنبہ کیا کہ خلائی صنعت ایک ’مشکل صورتحال‘ سے دوچار ہے، انہوں نے سمت شناسی، مواصلات اور ڈیٹا کی ترسیل کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ہم ضروری خلائی سروسز کی فراہمی سے روسی معیشت کی معاونت کریں گے۔
روسی خلائی پروگرام کے اہم کارناموں میں 1961 میں پہلے انسان کو خلا میں بھیجنا اور 4 سال قبل پہلا سیٹلائٹ لانچ کرنا شامل ہے اور یہ روس میں قومی تفاخر کا ایک اہم ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔
تاہم روسی خلائی ایجنسی کو حالیہ برسوں میں کرپشن اسکینڈلز اور متعدد سیٹلائٹس اور خلائی جہازوں کے ضائع ہونے سمیت کئی ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔