• KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm
  • KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm

سپریم کورٹ کے فیصلے سے حصول انصاف کیلئے توقعات کو دھچکا لگا ہے، وزیراعظم

شائع July 27, 2022
وزیراعظم شہباز شریف نے سپریم کورٹ کے فیصلے کو دھچکا قرار دیا—فائل/فوٹو: ڈان نیوز
وزیراعظم شہباز شریف نے سپریم کورٹ کے فیصلے کو دھچکا قرار دیا—فائل/فوٹو: ڈان نیوز

وزیراعظم شہباز شریف نے سپریم کورٹ کی جانب سے پنجاب اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ مسترد کرنے کے فیصلے پر مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ عدالتی فیصلے سے حصول انصاف کے لیے توقعات کو دھچکا لگا ہے۔

سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر بیان میں وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ ' آئین نے ریاستی اختیار پارلیمنٹ، انتظامیہ اور عدلیہ کو تفویض کیے ہیں، آئین نے سب اداروں کو متعین حدود میں کام کرنے کا پابند کیا ہے'۔

انہوں نے کہا کہ 'کوئی ادارہ کسی دوسرے کے اختیار میں مداخلت نہیں کرسکتا، آئین اور پارلیمنٹ کی بالادستی پر کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے'۔

وزیراعظم نے کہا کہ 'عدلیہ کی ساکھ کا تقاضا اور قرین انصاف یہی تھا کہ فل کورٹ تشکیل دیا جاتا تاکہ انصاف نہ صرف ہوتا بلکہ ہوتا ہوا نظر بھی آتا لیکن عدالتی فیصلے سے قانون دان برادری، سائلین، میڈیا اور عوام کی حصول انصاف کے لیے توقعات کو دھچکا لگا ہے'۔

پاکستان کے عوام کو آئین اور پارلیمان کی بالادستی واپس لے کر دیں گے، مریم اورنگزیب

وفاقی وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب نے سپریم کورٹ کی جانب سے پنجاب کے ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ مسترد کرنے کے فیصلے پر کہا ہے کہ عدلیہ کو ان جکڑی ہوئی چیزوں سے نکالنے کی جدوجہد کا آغاز ہوا ہے، پاکستان کے عوام کو آئین اور پارلیمان کی بالادستی واپس لے کر دیں گے۔

اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے مریم اورنگزیب کا کہنا تھا کہ سابق وزیراعظم نوازشریف کی عدلیہ بحالی کی جدوجہد تھی، آج سے اس کا دوسرا باب شروع ہوا ہے۔

— فوٹو: ڈان نیوز
— فوٹو: ڈان نیوز

مریم اورنگزیب کا کہنا تھا کہ فل کورٹ کی تشکیل کے لیے دائر درخواست نے پہلے ہی اس تین رکنی بینچ پر عدم اعتماد کر دیا تھا، جب کل فل کورٹ کی درخواست مسترد ہوئی تو ہمارے وکلا نے آج سپریم کورٹ میں تین رکنی بینچ کی کارروائی کا بائیکاٹ کرکے بھی عدم اعتماد کا اظہار کیا تھا کہ آج جو فیصلہ آئے گا، وہ فیصلہ نہ عوام کو قابل قبول ہوگا، نہ فریقین کو قابل قبول ہوگا کیونکہ یہ نہیں ہوسکتا کہ پنجاب کے اوپر چوری کرکے آر ٹی ایس سٹم بیٹھا کر 2018 میں مسلط کیا تھا اس کو دوبارہ پنجاب پر مسلط کریں۔

یہ بھی پڑھیں: آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے لیے سپریم کورٹ کا فل کورٹ سماعت کرے، وفاقی وزیر قانون

انہوں نے کہا کہ یہ مسئلہ آئینی، پارلیمانی اور دو خطوط کا ہے، ایک خط عمران خان نے لکھا تھا جس کی وجہ سے حمزہ شہباز کو ڈالے جانے ووٹوں میں سے 25 ووٹوں کو نکال دیا جاتا ہے، اور ووٹ ڈالنے والے اراکین کو ڈی سیٹ کر دیا جاتا ہے، عمران خان کا خط پارٹی سربراہ کی حیثیت سے لکھا جاتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ چوہدری شجاعت حسین بطور پارٹی سربراہ اپنے اراکین اسمبلی کو ہدایات جاری کی تھی کہ وہ عمران خان کے امیدوار کو ووٹ نہ ڈالیں اور حمزہ شہباز کو ووٹ کاسٹ کریں، سپریم کورٹ کے اسی فیصلے کے مطابق ڈپٹی اسپیکر نے رولنگ دی کہ مسلم لیگ (ق) کے 10 اراکین کے ووٹوں کو مسترد کیا جاتا ہے۔

وفاقی وزیر اطلاعات مریم نواز کا کہنا تھا کہ چوہدری شجاعت حسین کی جانب سے بطور پارٹی سربراہ لکھا جانے والا خط حرام ہے جبکہ عمران خان کا بطور پارٹی سربراہ لکھا جانے والے خط کی وجہ سے 25 ووٹوں کو شمار نہیں کیا جاتا جبکہ چوہدری شجاعت حسین کی جانب سے لکھے جانے والے خط کے باوجود پرویز الہیٰ کو ڈالے گئے ووٹوں کو شمار کیا جاتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اسی وجہ سے ہم نے فل کورٹ تشکیل دینے کا مطالبہ کیا تھا کیونکہ تین رکنی بینچ بننے سے لے کر اب تک انصاف ہوتا ہوا نظر نہیں آ رہا تھا، اسی لیے حکومتی اتحاد کے تمام سیاسی قائدین سمیت تمام اطراف سے یہی آوازیں آئیں کہ ہمیں فل کورٹ چاہیے، اگر فل کورٹ بن جاتا تو آج کا فیصلہ مختلف ہوتا، ایک شخص کی خاطر آئین کی تشریح میں فرق ڈالا جا رہا ہے، اپنی مرضی سے آئین کی تشریح کی جا رہی ہے۔

مزید پڑھیں: مسلم لیگ (ن) کا جارحانہ حکمت عملی اپنانے کا فیصلہ

مریم اورنگزیب نے کہا کہ آوازیں آرہی تھیں کہ پانچ رکنی بینچ نے تین بار کے منتخب وزیراعظم نوازشریف کو نکالا تھا، اس دن کے فیصلے کے بعد سے آج تک ملک میں معاشی تباہی، بے روزگاری، افلاس، بھوک، افراتفری، فساد اور نفرت کے بیج بوئے گئے، آج کا فیصلہ اسی کا تسلسل ہے اور اثرات بھی ویسے ہی ہوں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ آج کا فیصلہ ملک میں مزید تقسیم پیدا کرے گا، ملک میں مزید انتشار پیدا ہوگا اور انصاف پر زیادہ انگلیاں اٹھائی جائیں گی، اس لیے فل کورٹ بنانا چاہیے تھا۔

مریم اورنگزیب نے کہا کہ آپ کو یاد ہوگا کہ سابق وزیراعظم نواز شریف کی عدلیہ بحالی کی جدوجہد تھی، آج سے اس کا دوسرا باب شروع ہوا ہے، آئین کی بالادستی، پارلیمان کی بالادستی اور عدلیہ کو ان جکڑی ہوئی چیزوں سے نکالنے کی جدوجہد کا آغاز ہوا ہے، پاکستان کے عوام کو آئین اور پارلیمان کی بالادستی واپس لے کر دیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے عوام کا اصل مینڈیٹ جو 2018 میں چوری ہوا، جو اس وقت کے عدالتی فیصلے نے چوری کیا جب نواز شریف کو اپنی کرسی سے ہٹایا گیا، آج کے فیصلے کو بھی آئین اور پارلیمان کی بالادستی میں تبدیل کریں گے۔

یہ بھی پڑھیں: عمران خان نے چور دروازے سے ملاقات مسترد ہونے پر الیکشن کمشنر پر یلغار کر دی، مریم اورنگزیب

پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما ملک احمد خان نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ایک بحث کل سے چل رہی ہے کہ ڈائریکشن پارٹی سربراہ کی ہوگی یا پارلیمانی پارٹی کی، اس حوالے سے وکلا کا مؤقف تھا کہ فل کورٹ تشکیل دیں۔

ان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے اس فیصلے سے ایک انتہائی غیر مناسب صورتحال پیدا ہوئی ہے، اس سے پنجاب اسمبلی کی خودمختاری متاثر ہوئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے یہ تقاضا کرتے ہوئے کہ انصاف کی توقع نہیں ہے، عدالتی کارروائی کا بائیکاٹ کیا تھا، یہ معمولی واقعہ نہیں ہے اس کے دور رس اثرات مرتب ہوں گے۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024