انشورنس کارڈ اور ابوظہبی کا صحت کا نظام
ابوظہبی منتقل ہونے کے بعد شروع کے چند ماہ بہت مشکل تھے۔ یہ معاشرہ، یہ لوگ اور یہ نظام سمجھ ہی نہیں آتا تھا، خصوصاً صحت کا نظام تو بہت ہی مختلف تھا۔
یہاں اسپتال نہایت ہی عمدہ اور شاندار تھے، ایسے کہ ہمارے ہاں کے فائیو اسٹار ہوٹل بھی نہیں ہوتے۔ مگر وہاں اور پاکستان میں ایک بنیادی فرق تھا اور وہ یہ کہ امارات میں اگر اسپتال پرائیوٹ ہے تو اس کی سہولیات محدود بھی ہوں گی اور اس کی صورتحال خستہ حال بھی، مگر اس کے برعکس سرکاری اسپتال نہ صرف شاندار اور چم چم کرتے ہیں بلکہ وہاں سہولیات بھی اعلیٰ اور عمدہ ہوتی ہیں۔
جب انسان نیا نیا کہیں جاتا ہے تو عموماً وہ ویسا ہی نظام اور ویسی ہی چیزوں کو اپنے آس پاس ڈھونڈتا ہے جن کا وہ عادی ہوتا ہے، وہ اس سے بے نیاز ہوتا ہے کہ کیا اچھا ہے اور کیا بُرا چنانچہ ہم بھی ایک تو نئے تھے، دوسرا شروع میں فیملی انشورنس نہیں تھی تو خوب جان مار کر کوئی چھوٹا سا ڈھابے جیسا اسپتال ڈھونڈتے، جہاں ڈاکٹر اور نرس ہم سے پاکستانی اوکھے اور لٹھ مار انداز میں بات کرکے ہمیں اپنائیت کا احساس بھی دلاتے اور 50، 60 درہم لے کر ایک نسخہ بھی پکڑا دیتے۔
مگر جب انشورنس آگئی تو بھی وہ ایک زحمت لگتی۔ کسی بڑے اسپتال میں جاکر بیٹھو، پھر ایک نرس کے ساتھ جاؤ جو پہلے آپ کا ٹمپریچر اور بی پی چیک کرے، وزن نوٹ کرے، آپ اور آپ کے سارے خاندان کی بیماریوں، دوائیوں اور الرجیوں کی ہسٹری لے، سب کو کمپیوٹر میں رجسٹر کرے اور بلآخر ایک فائل بناکر تیار کر لے اور آپ پھر جاکر ڈاکٹر کی باری کے انتظار میں بیٹھ جائیں۔
ڈاکٹر کے پاس لے جانا بھی اسی نرس کی ذمہ داری تھی۔ ڈاکٹر آپ کو چیک کرتا، پوری توجہ سے آپ کے مسائل سنتا، پوری ذمہ داری اور شائستگی سے آپ کے سوالات کے جواب دیتا اور آپ سے تفصیلات جاننے کے بعد ان کو کمپیوٹر میں درج بھی کرتا جاتا اور کم و بیش 20، 25 منٹ بعد آپ کو کیمیائی ناموں سے بھرا پرنٹ شدہ نسخہ پکڑا دیتا جسے ہر کسی کے لیے پڑھنا ممکن نہیں ہوتا۔ پاکستان میں تو ہر ایک فرد آگمنٹن، فلیجل اور اریتھرامائسن کے نام یاد رکھتے ہیں مگر یہاں نسخے پر صرف کیمیائی نام لکھے ملتے ہیں جن میں سے دوائیوں کے نام اخذ کرنا فارماسسٹ کی نوکری تھی۔
ہم 2 منٹ میں ڈاکٹر کے کمرے سے نکالے جانے والی پاکستانی مخلوق تھے لہٰذا ہم سے کہاں برداشت ہوتے ایسے تاخیری حربے۔ ہمیں تو عادت تھی دھکے لگا کر آگے گھسنے کی، عملے پر چیخ چلا کر جلدی اندر جانے کی کہ ہم سے زیادہ تو آج تک کسی نے انتظار نہیں کیا نہ ہم سے زیادہ کبھی کوئی بیمار ہی ہوا اور ڈاکٹر 2 منٹ میں ہمیں دوائیوں کے نام بتا دیتا جسے جاکر ہم فٹا فٹ فارمیسی سے خرید لیتے۔
مگر امارات میں فارمیسی میں صرف وہی فرد نوکری کرسکتا ہے جس نے کم از کم بی فارمیسی کر رکھا ہو اور یہ اسی کی ڈیوٹی ہوتی کہ وہ ہمیں نسخہ کسی بھی دستیاب نام اور کمپنی کا ڈھونڈ کر دے اور ہمیں باقاعدہ اس کی ڈوز سمجھائے۔ یہ نہیں کہ ڈاکٹر کو اپروچ کرلیا گیا ہے تو وہ اب سب کو آگمنٹن ہی لکھے جا رہا ہے۔ ڈاکٹر کسی کمپنی کے نام کی دوا تجویز نہیں کرسکتا تھا اس کا کام صرف اس دوا کا کیمیائی نام لکھنا تھا۔ نرس، ڈاکٹر، کمپیوٹر اور فارماسسٹ یہ چاروں مل کر عرب امارات میں وہ کام کرتے ہیں جو پاکستان میں ایک اکیلا اور تگڑا ڈاکٹر کرتا ہے اور محض 5 سے 10 منٹ میں کرتا ہے۔
کچھ وقت گزرا تو آہستہ آہستہ سرکاری اسپتالوں کے ساتھ فلرٹ کرنا شروع کیا۔ چونکہ انشورنس کی سہولت میسر آچکی تھی تو اس سے فائدہ حاصل کرنے کی ہمت کی اور سچ پوچھیے تو آنکھوں پر لگی پٹی کھلنے لگی۔
یقیناً پہلی مرتبہ فائل بننے میں کچھ وقت لگا، لیکن جب وہ بن گئی تو دوسرے تیسرے وزٹ پر ڈاکٹر کے سامنے ہماری ساری ہسٹری کھل جاتی۔ پچھلی بار کب بیمار ہوئے اور کیا کھایا تھا؟ اس بار کیا ہوا، کچھ بتانا نہ پڑتا، سب کچھ کمپیوٹر میں درج ہوتا۔ صاف ستھرے چم چم کرتے اعلٰی معیار کے وی وی آئی پی اسپتال، عملہ جی سر، یس میم کرتا، جھک جھک خدمت کرتا، بیٹھنے کے لیے خوبصورت نفیس صوفے، بچوں کے کلینکس میں خوبصورت کھلونوں اور تصاویر سے بھرے ویٹنگ رومز تاکہ بچے بور نہ ہوں، عزت اور توجہ دیتا ڈاکٹر اور مفت کا علاج (سچ تو یہ ہے کہ غریب پاکستانی کو اتنی عزت کی عادت ہی نہیں ہوتی چنانچہ کوئی ذٓرا سا بڑھ کر حال پوچھتا تو وہ گھبرا جاتے ہیں)۔
فیس کی مد میں صرف برائے نام کچھ فیصد ادا کرنا اور سیکڑوں کی دوا لے کر اور علاج کروا کر گھر لوٹ آنا۔ کسی سرجری یا مجبوری میں اسپتال داخل ہونا پڑتا تو ایسی دیکھ بھال میسر آتی جس کا تصور بھی پاکستان میں نہیں، پھر اسپتال کے کھانے بھی ایسے کہ انسان فائیو اسٹار ہوٹل کو بھول جائے۔ زندگی میں اتنی سہولیات اور آسانیاں بھی کبھی ہوسکتی ہیں یہ ہم پاکستانیوں کو کہاں معلوم تھا۔
مریض قابلِ توجہ اور اہمیت کا حامل ہوتا ہے یہ بھی ہم نے امارات میں ہی جانا۔ ڈاکٹر، نرس اور اسپتال کا کام مریض کی صحت، عزت اور زندگی کا خیال رکھنا ہے اسے مجروح کرنا نہیں یہ بھی ہم نے ان بدوؤں کے دیس میں جانا۔ سستی سے سستی دوا بھی 20، 30 درہم سے شروع ہوتی اور 100، 200 اور 300 درہم تک جاتی۔ مگر ہمیں کیا پروا تھی ہمیں تو اپنی خوراک کے حساب سے پوری 300، 400 درہم کی دوا 40، 50 درہم میں مل جاتی۔ وہ بھی پوری نسخے کے مطابق نہ اس سے کم نہ اس سے زیادہ۔
ہم پاکستانیوں کو عادت ہے کہ چند ایک اینٹی بائیوٹک کا نام یاد کرلیتے ہیں اور پھر کچھ بھی ہوجائے تو نزدیکی فارمیسی سے وہ لے کر کھا لیتے ہیں۔ باقی سائیڈ افیکٹ اور اینٹی بائیوٹک کا پروٹوکول جانے ہماری بلا۔ مگر یہاں پر پورا ابوظہبی اور پورا دبئی ڈھونڈ لو، مجال ہے جو کوئی فارمیسی والا چپکے سے 2 کیا ایک ہی گولی اینٹی بائیوٹک کی دے دے۔ بغیر نسخے کے اینٹی بائیوٹک بیچنا جرم ہے جس کی جرأت سوائے چند ایک ایشیائی لوگوں کے کوئی نہیں کرتا۔
ہم نے بھی بلآخر ڈھونڈ ہی لیا شارجہ میں ایک انڈین جو چپکے سے آگمنٹن کی ایک ڈبی ہمیں پکڑا دیتا۔ کیا کریں ہماری بُری عادتیں جتنی سیدھا کر لو کہیں نہ کہیں رہ ہی جاتی ہیں۔ قوانین چاہے ہمارے ہی بھلے کے ہوں ہم اپنی مرضی سے ان کو توڑتے رہنا چاہتے ہیں۔ عوام کی صحت اور تحفظ حکمرانوں کی ذمہ داری ہے اور یہ سارا نظام اسی ذمہ داری کو بھرپور طریقے سے پورا کرنے کے لیے بنایا گیا تھا۔
ڈاکٹر بھی اتنی جلدی اینٹی بائیوٹک نہیں لکھ سکتے۔ 2، 3 چکر لگوا کر جب یقین ہوگا کہ اب اینٹی بائیوٹک کے بغیر گزارا نہیں تب ہی لکھتے ہیں ورنہ غیر ضروری اینٹی بائیوٹک دینے پر ڈاکٹر کا لائسنس منسوخ ہوسکتا ہے۔
دراصل ہمیں تو عادت ہوچکی تھی کہ ڈاکٹر نے ایک لائٹ منہ میں ماری، دو ہاتھ کمر پر اور فٹ سے کاغذ پر گندی سی تحریر میں اینٹی بائیوٹک لکھ کر پکڑا دی تو اب یہاں فوراً اینٹی بائیوٹک نہ ملتی تو ہم بھی جھنجھلا جاتے۔ جلدی سے ختم کیوں نہیں ہوتی بیماری؟ آخر ڈاکٹر اینٹی بائیوٹک کیوں نہیں دیتا؟
ایک بار بیٹے کا ٹانسلز کا آپریشن تھا۔ وی وی آئی پی کمرے میں 2، 3 دن کا قیام اور آپریشن جس کی اصل قیمت ہزاروں درہموں میں تھی لیکن انشورنس کے ساتھ سیکڑوں میں ہوگیا۔ اس دوران ہونے والا ایک واقعہ بھی یاد آگیا کہ میرے بیٹے کو ڈرپ لگانے والے عملے کو رگ نہیں مل رہی تھی اور انہوں نے بچے کے بازو پر 4، 5 بار سرنج لگا کر اسے رُلا رُلا کر بُرا حال کردیا۔ ہم نے بس اتنا کیا کہ گوگل میپ پر جاکر کمنٹ میں سب لکھ دیا۔ بس پھر کیا تھا، وہاں تو انکوائری کی لائینیں لگ گئیں کہ یہ ہوا کیسے؟ آپریشن پر جانے سے پہلے بچے کو اتنا کیوں رُلایا گیا، عملے کو ڈرپ کیوں نہیں لگانی آئی، اتنے سوراخ کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ جانے کس کس کی نوکری گئی اور معذرتیں الگ ہوئیں۔
اب ہم پاکستان میں ہیں اور دارالحکومت کے بڑے اور مہنگے ہسپتال جاتے ہیں مگر نہ وہ صفائیاں، چم چم کرتے فرش اور دیواریں نظر آتی ہیں نہ وہ عزت دیتا عملہ۔ اور تو اور قابل سے قابل باہر کا پڑھا لکھا ڈاکٹر بھی دوسرے ہی سوال پر چڑھ دوڑتا ہے کہ یہ کوئی سوال ہے کرنے والا، یا یہ کہ میرا وقت ضائع ہوگیا۔
ایمرجنسی میں ایک بار بیٹے کو لیے بھاگے گئے تو لیڈی ڈاکٹر 5 کلو میک اپ اور کھلے استری شدہ بال لیے ایمرجنسی میں بیٹھی ویڈیو کال پر مصروف تھی۔ کال بند ہوتے ہوتے 3، 4 منٹ اور ضائع کیے اور اس کے بعد بھونڈے انداز میں ہماری طرف متوجہ ہوئیں کہ کیا مسئلہ ہے۔ ان کو کوئی بتائے کہ بی بی آپ ہمارے لیے یہاں بیٹھی ہیں ہم کوئی آپ کے بیڈروم میں تھوڑا گھس آئے ہیں۔ ایمرجنسی میں یقینی طور پر ایمرجنسی جیسی کوئی صورتحال نہیں ہوتی۔ میڈیکل افسر کمرے سے نکلنا شان میں گستاخی جبکہ چھوٹا عملہ چھوٹے سے ایمرجنسی وارڈ میں باآواز بلند خوش گپیاں کرنا اور دھیرے دھیرے کام کرنا اپنا حق اور فرض سمجھتا ہے۔
پیسے بھی سارے ہماری ہی جیب سے جاتے ہیں اور شور کرکے عملے کو مجبور بھی خود ہی کرنا پڑتا ہے کہ خدا کے لیے کچھ کردو۔ کئی بار بچوں کو ایمرجنسی میں لے جانا پڑا۔ کبھی 2، 3 گھنٹے کے قیام میں میڈیکل افسر کی شکل تک نہیں دیکھی۔ ڈاکٹر صرف افسر بننا چاہتے تھے بن گئے اب دکھی انسانیت کے دکھوں سے اکثریت کا کوئی لینا دینا نہیں۔ بس چلتے پھرتے افسر ہونا چاہیے انسان کو۔
ہمیں یہ بھی یاد آیا کہ ابوظہبی قیام کے اتنے سالوں میں ہم نے ڈاکٹر کو اتنا سجا سنورا بھی نہیں دیکھا اور ایمرجنسی میں پارٹی میک اپ اور ملبوسات کے ساتھ آنا کونسا پروفیشنلزم ہے؟ یہ بھی پاکستان میں ہی ہوتا ہے کہ پارٹی ویئر اور آفس ویئر ایک سے ہیں۔ ایمرجنسی وارڈ میں اگر ڈاکٹر کو اپنے حُسن کی فکر ہے تو ایمرجنسی میں اس کا کوئی کام نہیں۔ کیا ہمارے میڈیکل کالجز میں کوئی کوڈ آف کنڈکٹ نہیں پڑھایا جاتا؟
کیا 20، 30 روپے میں کوئی کولڈ ڈرنک آجاتی ہے پاکستان میں؟ نہیں! مگر پاکستان میں بچوں کے بخار کی دوا آجاتی ہے۔ پھر اس دوا کا علاج بھی 20، 30 روپے کا ہی ہے یعنی کہ نادیدہ۔ عوام کو مفت علاج کا اندازہ تک نہیں۔ جبکہ ناجانے لوگوں کو انشورنس سے کیوں ڈرا دیا گیا ہے۔ اب چونکہ مہنگی دوا خرید نہیں سکتے تو اس لیے کوئی پوچھتا بھی نہیں کہ 20 روپے میں کونسا سالٹ اور منرل آتا ہے جو دوا آجاتی ہے۔
ہمارے سارے نئے اور پرانے حکمران چھینک بھی آنے پر ایسے ہی تو باہر نہیں بھاگتے کہ وہاں ان کو عزت دار انسانوں کی طرح اصلی اور بہترین علاج ملتا ہے۔ اصلی اور اکثیر دوا پوری عزت سے ملتی ہے۔ پاکستان میں تو علاج کے لیے اسپتال جانے کا مطلب ہے کہ پیسے دیکر تذلیل کا بندوبست کیا جائے۔ ڈاکٹر مسیحا کم، صنعت کار زیادہ لگتا ہے۔ اسی لیے تو سارے ملکوں کے اقامے رکھے جاتے ہیں کہ اس کے ساتھ انشورنس بھی محفوظ رہتی ہے جس سے علاج معالجے میں 75 فیصد تک بچت ہوجاتی ہے۔ باقی رہی عوام تو وہ جانے اس کا خدا جانے! پاکستانی سیاستدانوں اور تمام طاقتور حلقوں نے عوام کا ٹھیکہ تھوڑی لے رکھا ہے۔
تبصرے (7) بند ہیں