• KHI: Fajr 5:52am Sunrise 7:13am
  • LHR: Fajr 5:32am Sunrise 6:59am
  • ISB: Fajr 5:40am Sunrise 7:09am
  • KHI: Fajr 5:52am Sunrise 7:13am
  • LHR: Fajr 5:32am Sunrise 6:59am
  • ISB: Fajr 5:40am Sunrise 7:09am

آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے لیے سپریم کورٹ کا فل کورٹ سماعت کرے، وفاقی وزیر قانون

شائع July 24, 2022
عطا اللہ تارڑ نے کہا کہ فواد چوہدری کے زمانے میں وزارت اطلاعات میں سیل بنایا ہوا تھا جو اداروں کے خلاف ٹرینڈ چلایا کرتا تھا —فوٹو: ڈان نیوز
عطا اللہ تارڑ نے کہا کہ فواد چوہدری کے زمانے میں وزارت اطلاعات میں سیل بنایا ہوا تھا جو اداروں کے خلاف ٹرینڈ چلایا کرتا تھا —فوٹو: ڈان نیوز

وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا ہے کہ آرٹیکل 63 اے کی تشریح پر اب فل کورٹ سماعت کرے تاکہ ملک کو موجودہ آئینی بحران سے نکالا جا سکے۔

لاہور میں وزیر داخلہ پنجاب عطا تارڑ کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ پچھلے کچھ ماہ سے مخلتف نوعیت کے مقدمات میں عدالت عظمیٰ گئے جن میں ایک مقدمہ آرٹیکل 63 اے کی تشریح کا ہے جو گزشتہ حکومت میں عمران خان نے اپنی تجویز پر بذریعہ صدر پاکستان سپریم کورٹ کو ریفرنس کی شکل میں بھیجا تھا کہ سپریم کورٹ حکومت پاکستان کو بتائے کہ اگر آرٹیکل 63 اے کے تحت کچھ ممبران اپنی پارٹی کی ہدایت سے ہٹ کر ووٹ دیتے ہیں تو کیا انکا ووٹ گنتی میں شمار ہوگا یا نہیں۔

مزید پڑھیں: 63 اے سے متعلق کیسز، حکومتی اتحاد کا فل کورٹ کی تشکیل کیلئے سپریم کورٹ جانے کا فیصلہ

اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ جب وہ مقدمہ زیر سماعت تھا تو اس میں استثنیٰ لینے کی کوشش کی گئی اور عدالت عظمیٰ کو بار بار یہ استدعا کی گئی کہ حکم امتناحی جاری کیا جائے کہ اگر کوئی منحراف رکن ووٹ ڈالتا ہے تو وہ ووٹ گنا نہ جائے لیکن اس میں سپریم کورٹ نے استثنیٰ جاری نہیں کیا تھا اور اس عرصے میں قومی اسمبلی میں تحریک عدم اطمینان پر ووٹنگ ہوگئی تھی اور اس کے بعد پنجاب میں وزیر اعلیٰ پنجاب کے لیے حمزہ شہباز نے 197 ووٹ لے کر کامیابی حاصل کی تھی۔

اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ پھر یہ معاملہ بھی عدالت عظمیٰ میں گیا کہ یہ انتخاب درست ہے یا نہیں اور پھر عدالت کی پانچ رکنی بینچ نے سماعت کی جس میں سے تین ججز نے کہا تھا کہ اگر ایسے اراکین جو کو پارٹی سربراہ سے ہدایت آئی تھی اور وہ اس کے برعکس ووٹ ڈالتے ہیں تو ان کا ووٹ شمار نہیں کیا جائے گا اور پھر اس فیصلے کے بعد لاہور ہائیکورٹ نے اس فیصلے کی روشنی میں اپنا فیصلہ دیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ پنجاب اسمبلی میں پرسوں وزیر اعلیٰ کا جو انتخاب ہوا اس میں پھر ڈپٹی اسپیکر کے سامنے یہ صورتحال آئی کہ پاکستان مسلم لیگ (ق) کے سربراہ کی طرف سے ڈپٹی اسپیکر کو خط لکھا جس میں انہوں لکھا کہ 63 اے کے تحت 10 اراکین کو یہ ہدایت جاری کی گئی ہے کہ وہ اپنا ووٹ حمزہ شہباز کو دیں اور پھر ڈپٹی اسپیکر نے ان اراکین کے ووٹ خارج کیے جس کے بعد پرویز الہٰی کے 186کے بجائے 176 ووٹ بنے جبکہ حمزہ شہباز 189 ووٹ لے کر کامیاب ہوئے۔

یہ بھی پڑھیں : سینیٹ اجلاس: اعظم نذیر تارڑ قائد ایوان مقرر، یٰسین ملک کے حق میں قرارداد منظور

اعظم تارڑ نے کہا کہ اسی رات چوہدری پرویز الہیٰ نے سپریم کورٹ کی لاہور رجسٹری میں درخواست دائر کی اور رات کو عدالت کھولی گئی اور اب معاملہ عدالت میں ہے۔

انہوں نے کہا کہ حکومتی اتحاد میں شامل تمام جماعتوں نے یک زباں ہوکر کہا کہ کیا یہ مناسب ہے کہ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے ووٹ ڈالے جانے اور نہ گنے جانے پر تشریحی حکم کو نظرثانی میں چلینج کیا اس کو اور موجودہ مقدمے سمیت پہلے نااہل قرار دیے جانے والے اراکین کی درخواستوں سمیت آرٹیکل 63 اے کی تشریح جیسے بنیادی مقدمات کو یکجا کرکے فل بینچ ان پر سماعت کرے تاکہ ملک کو اس آئینی بحران سے فوری طور پر نکالا جائے۔

انہوں نے کہا کہ سول سوسائٹی کی طرف سے بھی یہ مطالبہ آیا کہ سیاسی نوعیت اور اہم آئینی نوعیت کے مقدمات کے لیے لارجر بینچ یا فل کورٹ ہونا چاہیے تاکہ انصاف ہوتا ہوا نظر آئے۔

اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ 12 کروڑ عوام کے نمائندے کو اگر عدالتی فیصلے سے گھر بھیجنا ہے تو میں یہ ضرور سمجھوں گا کہ جو منصفانہ اور آزادانہ تقاضا ہے عدالت اس کو سنجیدگی سے سنے اور اب تمام سیاسی جماعتیں اور سول سوسائٹی کا بھی یہی خیال ہے۔

فواد چوہدری نے اداروں کے خلاف ٹرینڈز چلوائے

وزیر داخلہ پنجاب عطا اللہ تارڑ نے کہا کہ فواد چوہدری کے زمانے میں وزارت اطلاعات میں ایک سیل بنایا ہوا تھا جو اداروں کے خلاف ٹرینڈ چلایا کرتا تھا اور توہین آمیز ترینڈ چلائے جاتے تھے۔

مزید پڑھیں: پی ڈی ایم میں اختلاف کی ایک وجہ اعظم نذیر تارڑ کی نامزدگی تھی

عطا تارڑ نے کہا کہ فواد چوہدری جو اداروں کے خلاف ٹرینڈ چلاتے ہیں، جہاں سے ان کو فنڈنگ ہوتی ہے اور کچھ روز قبل ایک پریس کانفرنس میں جو باتیں کیں وہ سب عوام کے سامنے ہیں لیکن ان میں ایک خاصیت ہے کہ وہ خوشامد اچھی کر لیتے ہیں چاہے جس جماعت میں بھی ہوں لیکن خوشامد اچھی کرتے ہیں اور خامی یہ ہے کہ زندگی میں کبھی سچ نہیں بولا۔

انہوں نے کہا کہ تمام وکلا، سول سوسائٹی اور حکومتی جماعتوں کا یہ مطالبہ ہے کہ اب فل بینچ قانونی معاملت سمیت 63 اے کی تشریح کے مقدمات پر سماعت کرے۔

خیال رہے کہ حکومتی اتحادی اور پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں نے وزیر اعلیٰ پنجاب کے انتخاب سے متعلق مقدمے کی سماعت کے لیے فل کورٹ تشکیل دینے کے لیے سپریم کورٹ میں پٹیشن دائر کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: عطا اللہ تارڑ کو پنجاب اسمبلی میں غیر اخلاقی حرکت پر شدید تنقید کا سامنا

مریم اورنگزیب کی جانب سے جاری بیان کے مطابق حکومتی اتحادی اور پی ڈی ایم کی جماعتوں نے مشترکہ فیصلہ کرتے ہوئے فل کورٹ تشکیل دینے کے لیے سپریم کورٹ میں پٹیشن دائر کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔

مزید بتایا گیا کہ حکومتی اتحادی اور پی ڈی ایم کی جماعتوں کے قائدین کل صبح ساڑھے 10 بجے مشترکہ پریس کانفرنس میں اہم اعلان کریں گے۔

بیان کے مطابق حکومتی اتحادی اور پی ڈی ایم کی جماعتوں کے قائدین پریس کانفرنس کے بعد اپنے وکلا کے ہمراہ مشترکہ طور پر سپریم کورٹ جائیں گے۔

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024