جی ہاں! ہندوستانی مسلمان پر بُرا وقت ہے
آزادی اور بالخصوص تقسیمِ ہند کے بعد وہ مسلمان جنہوں نے ہندوستان ہی میں رہنے کو ترجیح دی یا وہ مسلمان جو یہیں رہنے پر کسی طور مجبور تھے ایک بڑی تعداد میں ہندوستان بھر میں پھیلے ہوئے ہیں اور ان کی اکثریت افلاس و غربت کی ماری ہے۔ ان پر وقفے وقفے سے فرقہ پرستوں کے حملے بھی ہوتے رہے ہیں اور ہندوستان کی اس اقلیت کا یہی طبقہ اس فساد میں جانی اور مالی طور پر شدید متاثر بھی ہوتا رہتا ہے۔
ایسا نہیں کہ یہ فسادات انگریزوں سے آزادی کے بعد ہی شروع ہوئے۔ اس سلسلے کی تاریخ پر نظر ڈالیے تو پتا چلتا ہے کہ مسلم کشی کا یہ سلسلہ تو انگریزوں ہی کے زمانے سے جاری ہے اور ایک اصطلاح بھی سن رکھی ہے کہ انگریز کی یہ پالیسی تھی کہ ہندوستانیوں کو آپس میں لڑاتے رہو کہ اقتدار کی طرف انہیں آنکھ اٹھانے کی فرصت نہ ملے۔
وہ افراد جو آزادی کے بعد پیدا ہوئے ہیں (جن میں ہم بھی شامل ہیں) انہوں نے فرقہ وارانہ (ہندو۔مسلم) فساد کا لفظ 1961ء میں سنا تھا جب مدھیہ پردیش (جہاں کانگریس پارٹی کی حکمرانی تھی اور کے این کاٹجو اس وقت اس صوبے کے وزیرِ اعلیٰ تھے) کے مشہور شہر جبل پور میں آتش و خون کا یہ گھناؤنا کھیل کھیلا گیا تھا۔
اس وقت ہماری عمر بمشکل 10، 12 برس رہی ہوگی مگر اس فساد کی جو دردناک اور ہولناک داستانیں ہم نے سنی تھیں وہ تحت الشعور میں آج بھی باقی ہیں۔ 1961ء میں جبل پور کے واقعے سے اب تک فسادات کی اتنی رودادیں ہم نے سنیں اور پھر اپنی آنکھوں بھیونڈی میں 1970ء اور 1984ء کے مسلم کش فسادات اور پھر 6 دسمبر 1992ء میں بابری مسجد کی شہادت کے بعد ممبئی کے دنگے دیکھے ہی نہیں بلکہ بھگتے بھی ہیں۔ اس ہولناک تجربے کی کچھ یادیں ہم اپنے قارئین کے سامنے رکھتے ہیں۔
یہ روزنامہ انقلاب (ممبئی) میں ہماری ملازمت کا زمانہ تھا اور اس وقت اخبار کے مدیر اردو کے مشہور نقاد و شاعر اور انگریزی کے پروفیسر فضیل جعفری تھے۔ بابری مسجد کی شہادت کے بعد پورے ہندوستان کے مسلمان اس صدمے کا شکار تھے چونکہ بمبئی اور اطراف و جوانب میں مسلمانوں کی خاصی تعداد ایک زمانے سے ہے تو ظاہر ہے کہ یہاں بھی بابری مسجد کے واقعے کا شدید غم و غصہ مسلمانوں میں فطری تھا اور وہ مسلمان ہی نہیں جو اپنے آپ کو مسلمان سمجھتے تھے بلکہ وہ لوگ بھی جن کے باپ دادا مسلمان تھے اور ان کا نام مسلمانوں جیسا تھا مگر وہ اپنا تشخص ایک سیکولر فرد کے طور پر کرتے تھے۔
ہندوستان کا ایک ہفت روزہ اخبار Blitz انگریزی کے ساتھ بیک وقت ہندی اور اردو میں بھی شائع ہوتا تھا۔ پارسی ’آر کے کرنجیا‘ کی ادارت میں چھپنے والے اس اخبار کو لوگ اور بالخصوص مسلمان کمیونزم کا ترجمان سمجھتے تھے مگر مسلمانوں اور اردو دانوں کے بڑے طبقے میں اس اردو ہفت روزہ کو خوب پڑھا جاتا تھا۔ اس اخبار سے (بِہار کے پڑھے لکھے خانوداے کے فرد) سراج مرزا بھی وابستہ تھے۔ 6 دسمبر کی دوپہر سے قبل جس وقت بابری مسجد کی شہادت کی خبر Blitz کے دفتر پہنچی تو یہی سراج مرزا چیخ پڑے تھے اور دفتر کا پورا عملہ کمیونسٹ یا سیکولر سراج مرزا کی اس کیفیت کو حیرت سے دیکھ رہا تھا۔
دوسرا واقعہ ہمارے بزرگ دوست اور ناگپور کے ممتاز ترقی پسند فرد عامر صاحب کے فرزند کا ہے کہ ناگپور کے تمام مسلم علاقوں میں کرفیو ہی نہیں لگا تھا بلکہ ’سی اینڈ شوٹ‘ کا آرڈر تھا۔ مومن پورے میں جب بابری مسجد کی شہادت کی خبر عام ہوئی تو عامر صاحب کا کڑیل جوان بیٹا گھر سے اللہ اکبر کا نعرہ لگاتے ہوئے بیچ چوراہے پر نکل پڑا اور آناً فاناً ’سی اینڈ شوٹ‘ کا شکار ہوگیا۔
ان 2 مختلف الذہن افراد کے واقعات کو یہاں نقل کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ہندوستانی مسلمان چاہے کمیونسٹ\سیکولر ہو یا ناگپور کے مومن پورے کا روایتی مسلمان اس کے جسد میں اسلام سے کوئی رشتہ، کوئی تعلق خون بن کر دوڑتا ہے۔
ان واقعات کے بیان میں روزنامہ انقلاب کا ذکر پہلے کیا گیا ہے۔ اس وقت کمپیوٹر آ تو گیا تھا مگر انقلاب ہاتھ کی کتابت ہی میں شائع ہو رہا تھا۔ انقلاب جنوبی ہند اور بالخصوص ممبئی کا سب سے بڑا اردو روزنامہ تھا اور ہے۔ ہماری یادداشت کے مطابق اس میں کوئی 20 کاتب اخبار کے صفحات کی کتابت کیا کرتے تھے اور ان میں اکثر داڑھی، ٹوپی، کرتا پاجامہ سے مسلم تشخص کے حامل تھے۔ انقلاب کا دفتر بمبئی کے جس علاقے میں تھا وہاں گنتی ہی کے مسلمان آباد تھے بلکہ ان کی مسلم شناخت بھی عام نہیں تھی۔ فسادات کی خبریں آرہی تھیں جس کے سبب ہر مسلمان سراسیمگی اور خوف و دہشت کا شکار تھا۔
روزنامہ اخبارات کا کام ہر جگہ دیر رات تک ہوتا ہے۔ ایک رات ہم جو چائے نوشی کے لیے دفتر سے باہر نکلے تو دفتر کے اس (تار دیو) علاقے میں ایک غیر معمولی پُراسرار کیفیت دیکھی اور لوٹ کر دفتر آئے تو اپنے تمام ساتھیوں اور بالخصوص کاتبوں کو خدشات سے مطلع کرتے ہوئے کہا کہ جلد سے جلد کام پورا کرکے اپنی اپنی قیام گاہ کی طرف روانہ ہوجائیے۔ واضح رہے کہ بمبئی کے باسیوں کی خاصی تعداد شہر کے مضافات میں آباد ہے اور ان میں اکثر افراد لوکل ٹرین کے گھنٹے پون گھنٹے کے سفر کے بعد اپنے گھر پہنچتے ہیں۔ مختصر یہ کہ اس شب تمام رفیق کار 11 بجے کے آس پاس دفتر سے نکل گئے اور اس کے دوسری صبح پورے ممبئی اور مضافات میں فاشسٹ تنظیم شیو سینا کی ’مہا آرتی‘ کے بعد آگ و خون کا سلسلہ شروع ہوگیا۔
اخبار کی انتظامیہ کی طرف سے تمام عملے کے تحفظ کا انتظام کیا گیا تھا، دفتر کی گاڑی ہر فرد کو قریبی لوکل ریلوے اسٹیشن تک پہنچا رہی تھی اور اس انتظام کی باگ ڈور جس شخص کے ہاتھ میں تھی اس کا نام تھا گوڈسے۔ گوڈسے جیسا نام ہندوستانیوں ہی نہیں دنیا بھر کے باخبر لوگوں کے ذہن میں ہے۔ اسی نام کے ایک شخص (ناتھو رام گوڈسے) نے گاندھی جی کا قتل کیا تھا مگر ہمارے دفتر کے گوڈسے انسان دوست تشخص کے حامل تھے۔
دفتر کے علاقے کے شرپسندوں نے گوڈسے صاحب سے بہ اصرار کہا کہ ’ہم آپ کے اخبار کو کسی طرح کا نقصان نہیں ہونے دیں گے آپ بس ایک داڑھی والے (مسلمان) کو ہمارے حوالے کردیجیے‘۔ 6 فٹ کے سابق فوجی گوڈسے نے جواب میں کہا کہ ’میرے ہوتے ہوئے آپ لوگ انقلاب کے کسی ایک فرد کو بھی ہاتھ نہیں لگا سکتے‘ اور یہی ہوا بھی۔
البتہ یہ ضرور ہوا کہ کوئی ہفتے بھر فتنہ و فساد کے پیش نظر احتیاطاً انقلاب کی اشاعت موقوف رہی۔ بمبئی کے ایک بڑے مسلم اشاعتی ادارے کا دفتر کوئی ایک عشرے تک بند رہا۔ اسی اشاعتی ادارے سے انگریزی اور گجراتی زبان میں ٹیبلائیڈ سائز کا شام نامہ Mid-day بھی شائع ہوتا تھا (اور اب بھی جاری ہے) اس عرصے میں بمبئی اور مضافات میں آتش و خون کی جس طرح ہولی کھیلی گئی اس کی روداد دنیا بھر میں عام ہوچکی ہے۔
اس زمانے میں شہر کے اکثر علاقوں میں ہر فرد مہینوں دوسرے فرد کو انجانا دشمن سمجھ رہا تھا کہ نجانے کب یہ کسی ہتھیار سے حملہ کردے۔ فسادات کا اثر ہم جیسوں کے ہاں اب تک ہے کہ یہ سطریں لکھتے ہوئے بھی ہم نے اپنے جسم میں ایک سنسنی محسوس کی۔
اس شہر (بمبئی) میں بڑی تعداد مسلم اور غیر مسلم سے پرے ایسے لوگوں کی ہے جو یوپی اور دیگر دُور دراز ریاستوں سے معاش کے حصول کے لیے آتے ہیں اور اس فساد کے شکار ہونے والوں میں بڑی تعداد انہی لوگوں کی تھی۔ نجانے کتنے انسان مارے گئے، کتنی عورتیں بیوہ ہوئیں اور کتنے بچے یتیم ہوگئے۔ یہ سلسلہ کچھ وقت کے لیے رُک سا جاتا ہے مگر کسی وقت بھی آتش و خون کی اس آندھی کے جھکڑ کسی بھی شہر میں چل سکتے اور چلتے ہیں۔
چند برس قبل دہلی میں ہونے والے فسادات کے بعد اسکارف لگائے ہوئے ایک نوعمر ماں اور اس کی 3 ننھی بیٹیوں کی تصویر آج تک آنکھوں میں ہے جو اپنے شوہر اور بیٹیاں اپنے باپ کی تلاش میں ایک اسپتال کے دروازے پر بیٹھی ہوئی تھیں۔ وہ جواں سال شوہر اور 3 بیٹیوں کا باپ 4، 5 دن سے گھر نہیں لوٹا تھا اور اب تک لاپتا ہے۔ یہ ایک واقعہ ہے جو اخبار یا میڈیا میں آگیا ورنہ کتنے ایسے واقعات ہوتے ہیں جو ریکارڈ ہی نہیں ہوتے۔
ہماری یادداشت کے مطابق 1961ء کے جبل پور فسادات سے اب تک ہندوستانی مسلمان اتنی بار جان و مال سے ہاتھ دھو چکے ہیں کہ اب اس کی گنتی بھی ہمیں یاد نہیں۔ بعض اوقات محسوس ہوتا ہے کہ ہماری نفسیات بھی متاثر ہوگئی ہے۔
آزادی کے بعد ایک ملک 2 حصوں میں تقسیم ہوا، ایک حصہ مذہب کے نام پر قائم ہوا تو دوسرے حصے کی بنیاد کو سیکولرازم کا نام دیا گیا۔ کوئی 36 برس قبل ہم پہلی بار پاکستان گئے اور وہاں تقریباً ایک ماہ رہے، واپسی پر ایک ادیب دوست نے ہم سے سوال کیا تھا ’ندیم صاحب! اس ملک کے بارے میں کیا تاثر لے کر جا رہے ہیں؟‘
پہلے تو ہم نے ٹالا، مگر سائل کے اصرار پر عرض کیا تھا کہ ہم جہاں سے آئے وہاں سیکولرازم کا نعرہ لگایا جاتا ہے مگر وہاں سیکولرازم کے علاوہ سب کچھ ہے، اور آپ کا ملک دین و مذہب کے نام پر حاصل کیا گیا تھا تو جناب والا! اگر بہت خوبصورت مساجد، لانبے لانبے [لمبے لمبے] کرتے اور ریش و دستار کا نام دین ہے، تب تو ہم خموش ہیں ورنہ تو یہاں بھی سب کچھ ہے۔ جہاں تک نماز و روزہ یعنی عبادات کے معاملات ہیں تو حضور! دہلی کی جامع مسجد سے لے کر بمبئی، کلکتے کی وسیع و عریض بہت سی مساجد رکوع و سجود کرنے والوں سے خالی نہیں، تبلیغی جماعت پورے ہندوستان میں اپنے مشن کی ادائیگی میں سرگرم ہے، بھوپال میں لاکھوں مسلمانوں کا تبلیغی جماعت کا اجتماع ہر سال منعقد ہوتا ہے۔ دہلی اور اجمیر کے بزرگانِ دین کی درگاہیں اپنے زائرین سے کبھی خالی نہیں رہتیں۔
کانگریس جیسی جماعت جسے سیکولر کہا جاتا ہے اس نے آزادی کے بعد سے اب تک زیادہ عرصے تک حکومت کی اور اس نام نہاد سیکولر کانگریسی حکومت ہی کے دور میں مسلم کش فسادات کی تاریخ اٹھائی جائے تو ہمارے سیکولرازم کا بھرم کھل جاتا ہے۔
اب جو 2014ء سے غیر کانگریسی سرکار ہے وہ اپنی پارٹی اور ہندتوا کے مشن کو پورا کرنے میں لگی ہوئی ہے مگر اسی کے ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ ہر سال دو سال میں ہم پٹتے ہیں، جان و مال سے جاتے ہیں مگر پھر بھی ہمارا حال یہ ہے کہ جب گودھرا (2002ء) میں ٹرین کی ایک بوگی جلی تھی جس میں 60 سے زائد انسانی جانیں نذر آتش ہوئیں اور انتقاماً پورے صوبۂ گجرات بالخصوص احمد آباد میں جس طرح مسلمانوں کی جان و مال سے خون کی ہولی کھیلی گئی وہ تمام دنیا جانتی ہے۔
اسی فساد کے بعد دیگر ریاستوں سے احمد آباد کے مسلمانوں کی امداد کے لیے راحت رساں کئی ٹیموں نے کئی ماہ تک احمد آباد میں فساد زدگان کی امداد اور ان کی ازسر نو آبادکاری کا کام کیا۔ اسی دوران ایک راحت رساں ٹیم کا ایک تجربہ سامنے آیا تو ہم جیسے نجانے کتنے ہندوستانی مسلمانوں کا سر شرم سے جھک گیا۔
واقعہ یہ تھا کہ راحت رساں ٹیم اپنا گھر بار چھوڑ کر احمد آباد کے لٹے پٹے مسلمانوں کے محلے میں کام کر رہی تھی کہ ایک شب ٹیم کے لوگ احمد آباد کے ایک مسلم محلے سے گزر رہے تھے جو فسادات کے دنوں میں شرپسندوں سے بچا رہا، وہاں راستے میں شامیانہ لگا ہوا تھا اور ایک کنارے بریانی کی دیگیں چڑھی ہوئی تھیں۔ راحت رساں ٹیم کے سربراہ نے پتا کیا تو اطلاع ملی کہ یہاں کے ایک مسلم سیٹھ صاحب کے بیٹے کی منگنی کی تقریب ہے اور کوئی 500 سے زائد افراد کا کھانا ہے۔
راحت رساں ٹیم کے سربراہ نے بتایا کہ ’ہمیں بڑی حیرانی ہوئی کہ جس لٹے پٹے شہر کے مسلمانوں کی مدد کے لیے ہم دُور دراز شہر سے اپنا گھر بار چھوڑ چھاڑ کر یہاں امدادی کام کر رہے ہیں اسی شہر کے لوگ اپنی اولاد کی منگنی کا جشن منا رہے ہیں‘۔