اسپاٹ مارکیٹ کے مشکل حالات پاکستان کیلئے مفید ثابت ہوئے
مہنگی بین الاقوامی اسپاٹ مارکیٹ میں مائع قدرتی گیس (ایل این جی) کی عدم دستیابی پاکستانی صارفین کے لیے ایک نعمت کے طور پر سامنے آئی کیونکہ قطر کے ساتھ طویل مدتی سپلائی کے معاہدے کی وجہ سے جولائی کے لیے ایل این جی کی اوسط قیمت میں 15 فیصد سے زیادہ کی کمی ہوئی ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی (اوگرا) کی جانب سے ایک نوٹیفکیشن کے مطابق، دو گیس کمپنیوں ایس این جی پی ایل اور ایس ایس جی سی ایل کو درآمدی شدہ ری گیسیفائیڈ لیکویفائیڈ نیچرل گیس (آر ایل این جی) کی سپلائی کے لیے ترسیل کے مرحلے پر اوسط باسکٹ قیمت میں 15 سے 16 فیصد یا بالترتیب 16.19 ڈالر اور 15.78 ڈالر فی ملین برٹش تھرمل یونٹ (ایم ایم بی ٹی یو) کی کمی ہوئی ہے۔
تقسیم کے مرحلے پر آر ایل این جی کی قیمت سوئی نادرن اور سوئی سدرن کے لیے بالترتیب 15.93فیصد اور 20.57 فیصد کی کمی سے 17.46 ڈالر اور 17.96 ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو پر آگئی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: حکومت کی مہنگی ایل این جی کی خریداری پر لوڈشیڈنگ کو ترجیح
قیمت کے نوٹیفکیشن سے ظاہر ہوتا ہے کہ پانچ کارگوز برینٹ کے 13.37 فیصد یا 13.65 ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو کے حساب سے لائے گئے تھے جبکہ تین کارگو برنیٹ کے 10.2 فیصد یا 11.38 ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو کی شرح سے آئے تھے۔
اس طرح، تقسیم کے مرحلے پر آر ایل این جی کی کنزیومر پرائس جون کے مقابلے جولائی میں سوئی نادرن کے لیے 3.31 ڈالر اور سوئی سدرن کے لیے 4.65 ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو کم ہے۔
واضح رہے کہ مئی میں ایل این جی کی باسکٹ قیمت 22 سے 24 ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو کی ریکارڈ سطح تک پہنچ گئی تھی جس کی وجہ سے نئی مخلوط حکومت نے توانائی کی قلت کو پورا کرنے کے لیے پہلے مہینے میں اسپاٹ کارگوز کی خریداری کی تھی۔
اس کے بعد سے روس-یوکرین جنگ کے باعث سپلائی کے سخت حالات اور بین الاقوامی مارکیٹ میں ریکارڈ قیمتوں کی وجہ سے اسپاٹ ٹینڈرز کے ذریعے مزید گیس درآمد کرنے کی متعدد کوششیں بے سود رہیں۔
مزید پڑھیں: پاکستان جولائی کیلئے تین ایل این جی کارگو کی خریداری میں ناکام
یوں جولائی میں پاکستان کو تمام 8 کارگو قطر کے ساتھ طویل مدتی معاہدوں کے تحت ملے تھے اور اسپاٹ مارکیٹ سے ایک بھی کارگو کا بندوبست نہیں کیا جاسکا تھا۔
بنیادی طور پر جون میں مہنگی سپاٹ درآمدات کی وجہ سے ایل این جی سے بنی بجلی کی پیداوار کی اوسط لاگت 28.4 روپے فی کلو واٹ (یونٹ) تھی جو فرنس آئل پر 36.2 روپے فی یونٹ کے بعد بجلی کی پیداوار کا دوسرا سب سے مہنگا ذریعہ ہے۔
اس کے نتیجے میں اگست میں بجلی کے لیے فیول لاگت ایڈجسٹمنٹ تقریباً 10 روپے فی یونٹ بڑھ جائے گی۔