روپے کی قدر میں کمی کا سلسلہ جاری، ڈالر 228.50 روپے تک پہنچ گیا
ڈالر کے مقابلے روپے کی گراوٹ کا سلسلہ جمعہ کو بھی جاری رہا جو انٹربینک تجارت میں 228.50 روپے کی کم ترین سطح کو چھو گیا ہے۔
فاریکس ایسوسی ایشن آف پاکستان کے مطابق روپے کی قدر 0.33 فیصد کی کمی کے ساتھ 75 پیسے گر گئی جو گزشتہ روز 227.75 روپے پر بند ہوا تھا۔
مزید پڑھیں: سیاسی غیر یقینی: اسٹاک مارکیٹ میں مندی، 290 پوائنٹس سے زائد کی کمی
اسٹیٹ بینک کے اعداد و شمار کے مطابق شرح تبادلہ پیر کو 215.2 روپے کی بلند ترین بلندی پر پہنچ گئی تھی، یہ منگل کو 222 روپے تک پہنچ گئی تھی جبکہ بدھ کو 224 روپے کی حد عبور کر کے جمعرات کو 226.81 روپے تک پہنچ گئی۔
میٹس گلوبل کے ڈائریکٹر سعد بن نصیر کے مطابق ڈالر کے مقابلے روپے کی قدر میں کمی ایک 'تلخ حقیقت' ہے، لیکن یہ صرف پاکستان کے ساتھ نہیں ہو رہا۔
انہوں نے ڈان نیوز ڈاٹ ٹی وی کو بتایا کہ صرف روپیہ ہی نہیں تمام کرنسیاں امریکی ڈالر کے مقابلے میں گر رہی ہیں۔
انہوں نے عوام کے اعتماد کی بحالی کے لیے درکار ضروری اقدامات پر زور دیا تاکہ عوام کو یہ باور کرایا جاسکے کہ پاکستان کسی بھی طرح سے دیوالیہ نہیں ہونے والا۔
یہ بھی پڑھیں: تاجر رہنماؤں کی معاشی چیلنجز سے نمٹنے میں ناکامی پر حکومت پر تنقید
ان کا کہنا تھا کہ برآمد کنندگان کو جلد از جلد ترسیلات زر دینے کا پابند ہونا چاہیے اور یہ وقت ہے کہ مرکزی بینک پوری قوت کے ساتھ حرکت میں آئے اور اس بات کو یقینی بنائے کہ کوئی بھی موجودہ صورتحال کا ناجائز فائدہ نہ اٹھائے۔
تجزیہ کار نے مزید تجویز پیش کی کہ ایک حد مستقل بنیادوں پر متعارف کرائی جانی چاہیے اور اسٹیٹ بینک کو اس طرح قدم بڑھانا چاہیے جیسا کہ وہ کرنسی مارکیٹ میں روپے کو جمع کرنے کے لیے کرتے ہیں۔
سعد بن نصیر نے مزید کہا کہ کسی بھی بحران کی آمد سے قبل سخت اقدامات کی ضرورت ہے اور ہمارے پاس 1998 کی طرح مایوس کن اقدامات کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں بچا۔
1998 میں اس وقت کی حکومت کی جانب سے شرح تبادلہ کا نیا نظام متعارف کرانے کے بعد پاکستان کو معاشی بحران کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
سعد بن نصیر کی طرح ٹریس مارک میں ریسرچ کی سربراہ کومل منصور نے بھی اسٹیٹ بینک سے مداخلت کا مطالبہ کیا اور خبردار کیا کہ بصورت دیگر روپے کی قدر مزید کم ہونے کا خدشہ ہے۔
مزید پڑھیں: پاکستان مشکلات سے دوچار معیشت کی بحالی کے لیے امریکی امداد کا خواہاں
کومل منصور نے کہا کہ یہ تمام اسٹیک ہولڈرز کے لیے مشکل ثابت ہو رہا ہے کیونکہ تجارت بے ترتیب ہو چکی ہے اور بندرگاہ پر کنٹینرز کے بیک لاگ کی طرف اشارہ کیا جو اس مسئلے کو مزید بڑھا رہا ہے۔
ایکسچینج کمپنیز ایسوسی ایشن آف پاکستان کے جنرل سیکریٹری ظفر پراچا نے موجودہ صورتحال کو غیر یقینی قرار دیتے ہوئے شکایت کی کہ بینک، کرنسی مارکیٹ میں قیاس آرائیوں میں ملوث ہیں جبکہ حکومت کا ان پر کوئی کنٹرول نہیں ہے۔
انہوں نے یاد دلایا کہ جب ماضی جیسی صورتحال کا سامنا کرنا پڑا تو حکومت اور متعلقہ محکمے ایکسچینج ریٹ کمپنیوں سے ان کی تجاویز کے لیے رجوع کریں گے اور ان کی سفارشات پر عمل درآمد کریں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس سے صورتحال میں بہتری آئے گی اور دعویٰ کیا کہ اس بار موجودہ اقتصادی چیلنجز سے نمٹنے کے لیے ایکسچینج ریٹ کمپنیوں کی طرف سے تجویز کردہ تمام تجاویز پر عمل درآمد نہیں کیا گیا۔
ظفر پراچا نے کہا کہ انہوں نے وزیر اعظم شہباز شریف کو جو تجاویز دی ہیں ان میں سے ایک یہ تھی کہ ہماری درآمدات کو برآمدات سے منسلک کردیں۔
یہ بھی پڑھیں: معیشت بہتر ہے، درآمدات میں کمی کی وجہ سے روپے پر دباؤ کم ہوگا، مفتاح اسمٰعیل
ان کا کہنا تھا کہ ہماری درآمدات کو کسی بھی صورت میں ہماری برآمدات سے زیادہ نہیں ہونا چاہیے اور اس تجویز پر عمل درآمد نہ ہونے پر افسوس کا اظہار کیا۔
ظفر پراچا نے حکومتی اخراجات میں 30 فیصد سے 40 فیصد تک کٹوتی کی تجویز پیش کرتے ہوئے خبردار کیا کہ بصورت دیگر ہم پہلے کے مقابلے میں انتہائی تیزی سے ڈیفالٹ کی طرف جائیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ ایسا لگتا ہے کہ ہماری سیاسی پارٹیوں نے ذہنی طور پر یہ قبول کر لیا ہے کہ ہم ڈیفالٹ کی طرف جارہے ہیں۔
انہوں نے سیاسی جماعتوں سے بھی مطالبہ کیا کہ وہ اپنے اختلافات کو ایک طرف رکھیں اور معاشی بحالی کے یک نکاتی ایجنڈے پر متحد ہوجائیں۔