• KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:12pm
  • LHR: Zuhr 12:01pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:26pm
  • KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:12pm
  • LHR: Zuhr 12:01pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:26pm

'سیاسی غیر یقینی' کے باعث انٹربینک میں روپیہ تاریخ کی کم ترین سطح 215.2 روپے پر آگیا

شائع July 18, 2022
سیاسی عدم استحکام کے سبب روپیہ دباؤ کا شکار ہے— فائل فوٹو: رائٹرز
سیاسی عدم استحکام کے سبب روپیہ دباؤ کا شکار ہے— فائل فوٹو: رائٹرز

ملک میں غیر یقینی سیاسی صورتحال کے سبب انٹربینک میں ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں 4.25 روپے کی کمی ہوئی جس کے بعد ڈالر 215.20 روپے کی ریکارڈ سطح پر بند ہوا۔

فاریکس ایسوسی ایشن آف پاکستان کے مطابق سہ پہر 3 بج کر 12 منٹ پر ڈالر 216 روپے پر ٹریڈ کررہا تھا، جمعہ کے مقابلے میں یہ اضافہ 5 روپے یا 2.4 فیصد ہے۔

اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے مطابق ڈالر 215.20 روپے پر بند ہوا اور روپے کی قدر میں 1.97 فیصد کی کمی ہوئی۔

پیر کو کاروباری ہفتے کے پہلے دن کے آغاز کے ساتھ ہی کراچی انٹربینک مارکیٹ میں ڈالر ڈیڑھ روپے اضافے سے 212 روپے 50 پیسے کی سطح پر آگیا تھا۔

گزشتہ ہفتے ڈالر 210.95 روپے پر بند ہوا تھا، 22 جون کو 211.93 روپے کی بلند ترین سطح پر پہنچنے کے بعد ڈالر کی قدر چار جولائی تک کم ہو کر 204.56 رپے تک آگئی تھی۔

آج کراچی انٹر بینک مارکیٹ میں ڈالر ڈیڑھ روپے اضافے سے 212 روپے 50 پیسے کی ریکارڈ سطح پر آگیا۔

روپے کی قدر میں کمی کا سلسلہ اس کے بعد بھی تیزی سے جاری رہا اور دوپہر تک ڈالر مزید 4.3 روپے مہنگا ہو کر 215.2 روپے کی ریکارڈ سطح پر آگیا۔

تاہم اس کے بعد روپے کی قدر میں بہتری کا رجحان دیکھا گیا اور ڈالر 50 پیسے کمی کے بعد 214 روپے 25 پیسے ہوگیا۔

میٹس گلوبل کے ڈائریکٹر سعد بن نصیر نے ڈالر کی قدر میں اضافے کی وجہ سیاسی عدم استحکام کو قرار دیا ہے۔

مزید پڑھیں: عالمی بینک کی پنجاب کے زرعی شعبے کیلئے 20 کروڑ ڈالر فنڈ کی منظوری

انہوں نے کہا کہ پنجاب میں ضمنی انتخابات کے نتائج کے بعد سیاسی عدم استحکام پیدا ہوگیا ہے کیونکہ ان نتائج نے اتحادی حکومت کے مستقبل پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ روپیہ دباؤ کا شکار ہے کیونکہ مارکیٹ نئی حکومت کے حوالے سے غیر یقینی کی صورتحال کا شکار ہے اور معیشت کے استحکام کے حوالے سے فیصلے موجودہ وزیر خزانہ کریں گے۔

ٹریس مارک کی ریسرچ ہیڈ کومل رضوی نے سعد بن نصیر کے مؤقف سے اتفاق کرتے ہوئے ڈالر کی قدر میں اضافے کی وجہ سیاسی منظرنامے کو قرار دیا۔

بتایا کہ گزشتہ روز پیش آنے والے سیاسی واقعات پر روپے کی قدر گر گئی، پی ٹی آئی کی جیت نے موجودہ حکومت کے مستقبل کے حوالے سے شکوک پیدا کر دیے ہیں اور جذبات پھر منفی ہو گئے ہیں، اسٹیٹ بینک کی مداخلت تک روپیہ اس ہفتے اتار چڑھاؤ کا شکار رہے گا۔

واضح رہے کہ آئی ایم ایف کی جانب سے پاکستان سے قرض معاہدے کی تصدیق کے بعد ڈالر کی قدر میں کمی کا سلسلہ شروع ہوا تھا لیکن سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے ایک مرتبہ پھر روپے کی قدر گراوٹ کا شکار ہے۔

تحریک انصاف نے ضمنی انتخاب میں 20 میں سے کم از کم 15 نشستیں جیت کر اپنی برتری ثابت کی اور اب وزیر اعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز اس عہدے کے لیے برقرار سادہ اکثریت حاصل نہیں کر سکیں گے۔

دریں اثنا ایکسچینج کمپنیز ایسوسی ایشن آف پاکستان کے جنرل سیکریٹری ظفر پراچا نے روپے کی قدر میں کمی کا الزام حکومت اور ریاستی اداروں پر ڈال دیا۔

انہوں نے نوٹ کیا کہ حکومت اور عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے درمیان معاہدہ ہوا ہے، بین الاقوامی سطح پر تیل کی قیمتیں گر گئی ہیں اور شرح سود میں اضافہ ہوا ہے جس کا مطلب ہے کہ لوگ ڈالر کے بجائے روپے میں دلچسپی لیں گے۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان کو ایک ارب 17 کروڑ ڈالر کی قسط 3 سے 6 ہفتوں میں جاری کردی جائے گی، آئی ایم ایف

ان کا کہنا تھا کہ اس کی وجہ سے ڈالر کی قیمت میں کمی ہونی چاہیے تھی اور لوگوں کو بینک ڈپازٹ کی طرف جانا چاہیے تھا، ہمیں یقین ہے کہ ڈالر کی قیمت حکومت کی نااہلی کی وجہ سے بڑھ رہی ہے کیونکہ حکومت یا دیگر ریاستی ادارے اس حوالے سے فکر مند نظر نہیں آتے اور ایسا لگتا ہے کہ وہ آئی ایم ایف کی طرف سے دیا گیا کچھ ہدف پورا کر رہے ہیں۔

ظفر پراچا نے اس خدشے کا اظہار بھی کیا کہ غیر ملکی سرمایہ کار ملک میں سرمایہ کاری کرنے سے گریزاں ہیں کیونکہ انہیں اندازہ نہیں ہے کہ ڈالر کی قیمت کتنی بلند ہوگی جبکہ ترسیلات زر کی شرح نمو میں کمی آئی ہے کیونکہ سمندر پار پاکستانی ناخوش ہیں۔

پی ٹی آئی کا ردعمل

سابق وزیر خزانہ شوکت ترین نے بھی روپے کی گراوٹ کی وجہ ضمنی انتخابات کے بعد سیاسی غیر یقینی صورتحال کو قرار دیا۔

انہوں نے کہا کہ سیاسی غیر یقینی صورتحال معاشی عدم استحکام کو جنم دیتی ہے اور اس غیر یقینی صورتحال کو ختم کرنے کے لیے عام انتخابات کے اعلان کرنے کا مطالبہ کیا۔

پی ٹی آئی کے سیکریٹری جنرل اسد عمر نے بھی اسی طرح کے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے ٹوئٹ کیا کہ یہ سیاسی غیریقینی صورتحال معیشت کا خون بہا رہی ہے اور لوگوں کو زبردست تکلیف دے رہی ہے۔

انہوں نے موجودہ حکومت کو بری طرح انجام دیا گیا تجربہ قرار دیا اور اس کے خاتمے کا مطالبہ کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کو اس ناقص فیصلوں کی وجہ سے مزید نقصان نہیں پہنچایا جاسکتا۔

کارٹون

کارٹون : 22 دسمبر 2024
کارٹون : 21 دسمبر 2024