• KHI: Zuhr 12:17pm Asr 4:08pm
  • LHR: Zuhr 11:48am Asr 3:25pm
  • ISB: Zuhr 11:53am Asr 3:26pm
  • KHI: Zuhr 12:17pm Asr 4:08pm
  • LHR: Zuhr 11:48am Asr 3:25pm
  • ISB: Zuhr 11:53am Asr 3:26pm

پاکستان فٹبال فیڈریشن: کیا تاریک رات گزر گئی؟

شائع July 19, 2022
پاکستان کے صدام حسین ایک ترک فٹبال کلب کے لیے بطور مڈ فیلڈر کھیلتے ہوئے— تصویر: اے ایف پی
پاکستان کے صدام حسین ایک ترک فٹبال کلب کے لیے بطور مڈ فیلڈر کھیلتے ہوئے— تصویر: اے ایف پی

30 جون کو پاکستان فٹبال کی عالمی گورننگ باڈی فیڈریشن انٹرنیشنل ڈے فٹبال ایسوسی ایشن (فیفا) کا دوبارہ حصہ بن گیا ہے۔ ویسے تو پاکستان پر 15 ماہ قبل پابندی عائد کی گئی تھی مگر یہ عرصہ ایک صدی جتنا طویل محسوس ہوا۔

پاکستان فٹبال ایک طویل عرصے سے مشکلات کا شکار ہے اور یہ 15 ماہ تو اس حوالے سے بدترین تھے۔ یہاں اکثر کھلاڑی اور کوچز ڈیپارٹمنٹل ٹیموں کے ساتھ وابستہ تھے جنہوں نے حکومتی احکامات پر ٹیموں کو ختم کردیا جس کی وجہ سے کئی کھلاڑیوں کو مالی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔

حال ہی میں پاکستان کے مڈ فیلڈر صدام حسین کو ایک ٹی وی شو میں روتے ہوئے دیکھنا دل دہلا دینے والا منظر تھا اور یہ شاید ہمارے فٹبالروں کی بے بسی اور بے چارگی کو ظاہر کرتا ہے۔ اسی وجہ سے یہ کوئی حیران کن بات نہیں ہے کہ فیفا کی جانب سے پاکستان پر سے پابندی اٹھائے جانے کو ہر اس شخص نے سراہا ہے جو ملک میں اس کھیل سے مخلص ہے۔ فٹبال کے ایک پُرجوش پاکستانی شائق نے تو اسے فٹبال کو پسند کرنے والوں کے لیے ایک اور عید سے تشبیہہ دے دی۔

اس کا تمام تر کریڈٹ فیفا کی بنائی ہوئی نارملائزیشن کمیٹی کے صبر اور استقامت کو دینا چاہیے۔ اس کمیٹی کے چیئرمین ہارون ملک تھے جنہوں نے گزشتہ مارچ میں پاکستان فٹبال فیڈریشن (پی ایف ایف) ہاؤس پر اشفاق شاہ اور ان کے گروہ کی جانب سے عملی قبضے کا بھی سامنا کیا تھا۔ ہارون ملک کی مسلسل کوششوں اور سابق وزیر برائے بین الصوبائی رابطہ فہمیدہ مرزا کی مدد سے بلآخر پاکستان کی رکنیت بحال ہوئی۔

پاکستان فٹبال کے لیے مشکلات اب بھی باقی ہیں۔ لاہور میں قائم پی ایف ایف ہاؤس کی حالت ناقابلِ یقین ہے۔ جو حالت پاکستان میں فٹبال جیسے کھیل کی ہوئی تقریباً وہی حالت پی ایف ایف ہاؤس کی بھی ہے اور اسے توڑ پھوڑ دیا گیا ہے۔ ان لوگوں کی ذہنی حالت پر حیرت ہوتی ہے جو ایک ایسی عمارت کے لائٹ بلب اور الیکٹریکل بورڈ بھی ساتھ لے گئے جو پورے ملک کی فٹبال انتظامیہ کی نمائندگی کرتی ہے۔

ظاہر ہے کہ اب پہلا کام تو پی ایف ایف ہاؤس کی حالت کو درست کرنا اور مالی مشکلات کو حل کرنا ہوگا کیونکہ پی ایف ایف کے بینک کھاتوں پر نارملائزیشن کمیٹی اور اشفاق شاہ گروپ کے درمیان قانونی لڑائی چل رہی ہے۔ پاکستان کی رکنیت بحال ہونے کے بعد ممکن ہے کہ قانونی کارروائی جاری رہنے کے باوجود بھی فیفا پاکستان کو فنڈنگ تک رسائی دے سکے گی تاکہ معاملات کو چلایا جاسکے۔

انتظامی امور سے قطع نظر اس وقت شائقین پاکستان کی قومی ٹیم کو میدان میں دیکھنے کی خواہش رکھتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ کھلاڑیوں نے گزشتہ برسوں میں جس نقصان کا سامنا کیا ہے وہ اب ختم ہو۔ حسان بشیر، محمد علی، کلیم اللہ اور زیش رحمٰن جیسے کھلاڑی جو گزشتہ برسوں کے دوران قومی ٹیم میں اپنا نام بنا چکے تھے ان کا کیریئر یا تو ختم ہوچکا ہے یا ختم ہونے کے قریب ہے۔ اس وجہ سے ٹیم کو دوبارہ کھڑا کرنے کے لیے نئے کھلاڑیوں کے حوالے سے ایک نئی منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔

دوسری جانب خواتین ٹیم کی تاریخ تو اس سے بھی زیادہ افسوسناک ہے۔ انہوں نے آخری مرتبہ کوئی میچ 8 سال قبل کھیلا تھا اور اس کے بعد سے وہ بین الاقوامی مقابلوں سے محروم ہیں۔ اس نظام نے ہاجرہ خان، ماہ پارہ سید اور ملائکہ نور جیسی کھلاڑیوں کو ضائع کردیا ہے۔

آپ ماضی کو تبدیل نہیں کرسکتے لیکن اب ہمارے پاس چیزوں کو درست کرنے اور فٹبال کا مستقبل بنانے کا موقع ضرور موجود ہے۔ رواں سال ایسے بہت سے مقابلے ہورہے ہیں جن میں ہماری خواتین و مرد کھلاڑی حصہ لےسکتے ہیں۔ ستمبر کے آغاز میں ایس اے ایف ایف ویمنز چیمپیئن شپ کا آغاز ہورہا ہے اور اسی کے آس پاس بنگلہ دیش میں بھی انڈر 15 ویمنز ایڈیشن منعقد ہورہا ہے۔

اس کے علاوہ سینیئر مینز ٹیم کے پاس بھی ستمبر میں فیفا کے تحت فرینڈلی میچ کھیلنے کا موقع ہے (رواں سال کا آخری موقع) اور انڈر 16 ایس اے ایف ایف چیمپیئن شپ بھی قریب ہی ہے۔ یوں ہمیں کم وقت میں بہت کچھ کرنا ہوگا۔ اس صورتحال میں نارملائزیشن کمیٹی کے سامنے پاکستان کو بین الاقوامی مقابلوں میں شریک کروانے کا مشکل کام موجود ہے۔

اس کے بعد پاکستان فٹبال فیڈریشن کے انتخابات کروانے کا بھی معاملہ ہے جو تمام مسائل کی جڑ ہے۔ معاملے کو خراب کرنے والے لوگ تو فوری انتخابات کا مطالبہ کررہے ہیں لیکن موجودہ قوانین اور ان کی حدود آزاد اور شفاف انتخابات میں ایک بڑی رکاوٹ ہیں۔

ڈیپارٹمنٹل ٹیموں کو ختم کرنے کا حکومتی فیصلہ ایک اچھا موقع بھی ثابت ہوسکتا ہے کہ ہم پاکستان پریمیئر لیگ کے معیارات کو تبدیل کریں۔ یہ معیارات بعض اوقات بہت ہی عجیب و غریب اور شرمناک ہوتے ہیں۔ نجی ملکیت کے ساتھ لیگ کو دوبارہ شروع کرنا چاہیے اور اسے ایک ایسی پروڈکٹ کے طور پر تیار کرنا چاہیے جسے شائقین دیکھیں بھی اور اس سے کوئی تعلق بھی محسوس کریں۔ یہی وہ مرکزی خیال ہے جو پاکستان فٹبال کو آگے لے کر جائے گا۔

یہ لیگ اور اس کے ساتھ کا تمام ایکو سسٹم بشمول خواتین کی ایک اعلیٰ معیار کی لیگ، نوجوانوں کے مقابلے اور کوچز کی تربیت بھی بہت ضروری ہے۔ ان تمام چیزوں کے لیے ایک فعال پی ایف ایف درکار ہوگی اور یہیں نارملائزیشن کمیٹی کا کام شروع ہوتا ہے۔ اس کے لیے حقیقتاً بالکل بنیاد سے تنظیمی ڈھانچہ کھڑا کرنا ہوگا اور اس میں کام کرنے کے لیے باصلاحیت لوگوں کو لانا ہوگا۔

مناسب افرادی قوت کی حامل باصلاحیت پی ایف ایف ہی پاکستان فٹبال میں بہتری لاسکتی ہے۔ انتخابات کے علاوہ ہمیں اس بات پر بھی توجہ دینی ہوگی کہ ہم اہم بین الاقوامی مقابلوں میں شرکت کے مواقع ضائع نہ کردیں۔

پاکستان فٹبال ٹیم کا مقصد فیفا ورلڈکپ کوالیفائرز رہے ہیں جو ہر 4 سال بعد منعقد ہوتے ہیں۔ جون 2019ء میں کمبوڈیا میں پاکستان کے باہر ہونے کے بعد اشفاق شاہ گروپ اور پی ایف ایف کے صدر فیصل صالح حیات کے درمیان جاری چپقلش کی وجہ سے فٹبال کا کھیل اور اس میں جیت حاصل کرنا کبھی بھی ہماری ترجیح نہیں رہا۔

اب اگلے سال ورلڈ کپ کوالیفائرز دوبارہ منعقد ہورہے ہیں۔ اگرچہ موجودہ صورتحال میں یہ کام مشکل نظر آتا ہے لیکن اس حوالے سے کچھ ابتدائی اقدامات کرلیے گئے ہیں اور ان کوالیفائرز میں پاکستان کی شرکت ممکن نظر آتی ہے۔

فٹبال کے کھیل میں پاکستان کو بہت زیادہ کامیابیاں حاصل نہیں ہوئی ہیں۔ 2015ء میں جب پی ایف ایف میں یہ سیاست شروع ہوئی تھی تب ہی بین الاقوامی اسٹیج پر پاکستان کی نمائندگی کے لیے کی جانے والی کوششیں بے کار ہوگئی تھیں۔ اس کے بعد سے پاکستان فٹبال پستی کی گہرائیوں میں ہے لیکن کہتے ہیں کہ ہر تاریک رات کے بعد روشن صبح آتی ہے۔ امید ہے کہ ہمیں بھی اس صورتحال میں سورج کی پہلی کرنیں نظر آئیں گی اور شاہین اپنے پَر پھیلا سکیں گے۔


یہ مضمون 10 جولائی 2022ء کو ڈان اخبار کی ای او ایس میگزین میں شائع ہوا۔

شاہ رخ سہیل

لکھاری اسپورٹس منیجمنٹ اور مارکیٹنگ ایکسپرٹ ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

کارٹون

کارٹون : 18 نومبر 2024
کارٹون : 17 نومبر 2024