• KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:10pm
  • LHR: Maghrib 5:04pm Isha 6:31pm
  • ISB: Maghrib 5:04pm Isha 6:33pm
  • KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:10pm
  • LHR: Maghrib 5:04pm Isha 6:31pm
  • ISB: Maghrib 5:04pm Isha 6:33pm

باجوڑ: جرگے نے خواتین کو 'تفریحی مقامات' پر جانے سے روک دیا

شائع July 17, 2022
گلوبل جینڈر گیپ رپورٹ 2022 میں پاکستان کو صنفی مساوات کے لحاظ سے دوسرا بدترین ملک قرار   گیا ہے—فوٹو:ڈان
گلوبل جینڈر گیپ رپورٹ 2022 میں پاکستان کو صنفی مساوات کے لحاظ سے دوسرا بدترین ملک قرار گیا ہے—فوٹو:ڈان

قبائلی ضلع باجوڑ کی تحصیل سالارزئی کے عمائدین کے جرگے نے خواتین کے سیاحتی مقامات، پکنک پوائنٹس پر جانے پر پابندی عائد کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ اگر حکومت نے17 جولائی بروز اتوار تک اس فیصلے کو نافذ نہ کیا تو جرگے کے اراکین خود اس کو مسلط کریں گے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق دانقول کے علاقے میں صرف مردوں پر مشتمل یہ جرگہ (قبائلی کونسل) کا انعقاد جمعیت علمائے اسلام (ف) کی مقامی قیادت نے منعقد کیا تھا، جے یو آئی (ف) حکمران اتحاد کی ایک اہم جماعت ہے۔

واضح رہے کہ خواتین کے خلاف جرگے کا یہ اقدام ورلڈ اکنامک فورم کی گلوبل جینڈر گیپ رپورٹ میں پاکستان کو دنیا کے ساتھ ساتھ خطے میں صنفی مساوات کے لحاظ سے دوسرا بدترین ملک قرار دینے کے چند روز بعد سامنے آیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: گلگت: خواتین کو ووٹ ڈالنے کی اجازت نہیں، جرگے کا فیصلہ

تحصیل سالارزئی کے مختلف قبائل اور علاقوں سے تعلق رکھنے والے عمائدین کے علاوہ جے یو آئی (ف) کے متعدد رہنماؤں اور علاقے کی مذہبی شخصیات نے بھی اس جرگے میں شرکت کی۔

اس جرگے کا انعقاد جے یو آئی (ف) کی ضلعی قیادت کی جانب سے جمعرات کے روز اپنی پریس کانفرنس کے دوران راگاگن ڈیم پر تفریح کے نام پر غیر اخلاقی سرگرمیوں پر اپنے تحفظات کا اظہار کرنے کے بعد کیا گیا۔

گزشتہ روز جرگے سے سالارزئی سے تعلق رکھنے والے جے یو آئی (ف) کے ضلعی سربراہ مولانا عبدالرشید، تحصیل کونسل خار کے چیئرمین سینئر رہنما حاجی سید بادشاہ اور دیگر مقررین نے خطاب کیا، جرگے کے انعقاد کا مقصد عید کے موقع پر سامنے آنے والے علاقے کے کئی مسائل پر بات کرنا اور انہیں پرامن اور خوش اسلوبی سے حل کرنا تھا۔

جرگے کے شرکا کو بتایا گیا کہ یہ چیز دیکھی کی گئی کہ مردوں کے علاوہ کئی مقامی خواتین اپنے شوہروں اور دیگر رشتہ داروں کے ساتھ یا اکیلے عید کی چھٹیوں کےد وران راگاگن ڈیم سمیت مختلف سیاحتی مقامات اور پکنک پوائنٹس پر گئیں، میوزیکل کنسرٹس میں شرکت کی اور تفریح کے لیے کشتییوں میں سورا ہوئیں، مقررین نے دعویٰ کیا کہ یہ سرگرمیاں 'اسلامی اصولوں پر مبنی' مقامی رسم و رواج اور روایات کے خلاف ہیں۔

مزید پڑھیں: ’عالمی صنفی تفریق انڈیکس 2022‘ میں پاکستان کا 146 ممالک میں 145واں نمبر

مقررین نے مزید کہا کہ خواتین کا سیاحت اور تفریح کے لیے ان مقامات کا دورہ کرنا غیر اخلاقی اور ناقابل قبول ہے ، انہوں نے دعویٰ کیا کہ دین اسلام اور مقامی روایات دونوں میں اس طرح کی سرگرمیوں کی کوئی گنجائش نہیں، انہوں نے مزید کہا کہ ایسی سرگرمیوں کی حوصلہ شکنی کے لیے نتیجہ خیز اقدام انتہائی ضروری ہے۔

اس موقع پر شرکا نے خواتین کے گھومنے پھرنے پر تحفظات کا اظہار کیا اور اس سلسلے میں سخت پابندیوں کا مطالبہ کیا۔ بعد میں جے یو آئی (ف) کے مولانا رشید نے خواتین کے تفریحی مقامات پر جانے سے متعلق پابندی کا اعلان کیا اور اسے جرگے کا متفقہ اعلامیہ قرار دیا۔

انہوں نے کہا کہ تمام شرکا نے شوہروں کے ساتھ یا ان کے بغیر خواتین کے سیاحتی مقامات پر جانے پر مکمل پابندی کی منظوری دی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ہم اپنے علاقوں میں سیاحت کو فروغ دینا چاہتے ہیں، سیاحت کا فروغ خطے کی سماجی و معاشی ترقی کے لیے ضروری ہے، ہم صرف خواتین کے اس طرح کے مقامات پر جانے کے خلاف ہیں کیونکہ یہ ہمارے رسم و رواج کے خلاف ہے، اس لیے ہی جرگے نے اس پر پابندی لگائی ہے اور سیاحت کے نام پر ایسی سرگرمیوں کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔

یہ بھی پڑھیں: نوشہرہ، لکی مروت میں خواتین ووٹ ڈالنے سے محروم

انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ اگر حکومت، ضلعی انتظامیہ آج 17 جولائی بروز اتوار تک اس سلسلے میں کوئی کارروائی کرنے میں ناکام رہی تو جرگہ خود پابندی نافذ کرے گا۔

مولانا عبدالرشید کے مطابق جرگے نے سالارزئی علاقے کے رہائشیوں سے بھی درخواست کی ہے کہ وہ اپنے خاندان کی خواتین کو اب پکنک پوائنٹس پر نہ لے کر جائیں، جرگے نے مقامی حکام سے مطالبہ کیا کہ وہ علاقے کے باہر کے لوگوں کے بجائے ضلع کے مختلف محکموں میں مقامی شہریوں کو نوکریاں دیں۔

اس معاملے پر ضلعی انتظامیہ کی جانب سے کوئی مؤقف سامنے نہیں آیا اور نہ ہی اس بات کا کوئی اشارہ دیا گیا کہ جے یو آئی (ف) کے حمایت یافتہ جرگہ کے فیصلے کی دیگر سیاسی جماعتوں نے توثیق کی ہے لیکن سماجی کارکنوں نے رد عمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس اعلان کی کوئی قانونی اور آئینی حیثیت نہیں ہے۔

کارٹون

کارٹون : 22 دسمبر 2024
کارٹون : 21 دسمبر 2024