پولیس کا دعا زہرہ کے مبینہ اغوا کے وقت ظہیر احمد کی کراچی میں موجودگی کا دعویٰ
دعا زہرہ کیس کے تفتیشی افسر نے عدالت میں جمع اپنی رپورٹ میں دعویٰ کیا ہےکہ دعا زہرہ کے مبینہ اغوا کے وقت ظہیر احمد کراچی میں موجود تھے جبکہ یہ رپورٹ پولیس کے گزشتہ مؤقف کے برعکس ہے۔۔
کراچی میں ایڈیشنل سیشن جج شرقی کی عدالت میں دعازہرہ کیس کی سماعت ہوئی جہاں دعا زہرہ کے والد درخواست گزار مہدی کاظمی اپنے وکیل کے ہمراہ پیش ہوئے۔
عدالت میں تفتیشی افسر ڈی ایس پی شوکت علی شاہانی کی جانب سے جمع کروائی جانے والی پیش رفت رپورٹ میں بتایا گیا کہ ملزم ظہیر احمد کا سی ڈی آر ریکارڈ حاصل کیا گیا، جس میں انکشاف ہوا کہ دعا زہرہ کے مبینہ اغوا کے وقت ظہیر احمد کراچی میں موجود تھا اور سی ڈی آر ریکارڈ عدالت میں جمع کرا دیا گیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: دعا زہرا کے والد کی تفتیشی افسر تبدیل کرنے کی درخواست مسترد
مزید بتایا گیا کہ دعا زہرہ کی عمر کے تعین کی رپورٹ اور ملزم ظہیر احمد کے حاصل کردہ سی ڈی آر سے ملزمان کے خلاف کافی ثبوت ملے ہیں، ملزمان کے خلاف چالان عدالت میں پیش کیا جائے گا جبکہ پولیس نے ملزمان کے خلاف دفعہ 363 اور کم عمری میں شادی کی دفعات شامل کرنے کی اجازت بھی مانگی ہے۔
رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ ظہیر احمد کی گرفتاری اور دعا زہرہ کی بازیابی کے لیے پنجاب جانے کے لیے بھی محکمہ داخلہ سندھ سے اجازت حاصل کی جارہی ہے۔
عدالت نے کیس کی سماعت 19 جولائی تک ملتوی کردی۔
دعا زہرہ مبینہ اغوا کیس
خیال رہے کہ 16 اپریل کو کراچی کے علاقے گولڈن ٹاؤن سے 14 سالہ لڑکی دعا زہرہ لاپتا ہوگئی تھی جس کے بعد پولیس نے اس کی تلاش کے لیے مختلف مقامات پر چھاپے بھی مارے تھے، تاہم پولیس دعا زہرہ کو تلاش کرنے میں ناکام رہی تھی۔ وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے دعا زہرہ کے اغوا کا نوٹس لیتے ہوئے ایڈیشنل آئی جی کراچی سے تفیصلی رپورٹ طلب کی تھی۔
مزید پڑھیں: ‘دعا زہرہ کی عمر15 سے 16 سال ہے’، میڈیکل بورڈ کی رپورٹ عدالت میں جمع
دعا زہرہ لاپتا کیس کے باعث سندھ حکومت کو سخت تنقید کا سامنا تھا اور مختلف حلقوں کی جانب سے صوبائی حکومت کی کارکردگی پر سوالات اٹھائے جا رہے تھے۔
تاہم 25 اپریل کو پریس کانفرنس کے دوران وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے تصدیق کی تھی کہ دعا زہرہ کا سراغ لگا لیا گیا ہے، وہ خیریت سے ہیں۔
26 اپریل کو پنجاب پولیس کو دعا زہرہ اوکاڑہ سے مل گئی تھیں، جس کے بعد انہیں لاہور میں مجسٹریٹ کی عدالت میں پیش کیا گیا تھا۔ ساتھ ہی یہ بھی پتا چلا تھا کہ دعا زہرہ نے ظہیر نامی لڑکے سے شادی کرلی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: دعا زہرہ کے شوہر کی حفاظتی ضمانت منظور، عدالت نے گرفتاری سے روک دیا
مجسٹریٹ نے دعا زہرہ کو دارالامان بھیجنے کی پولیس کی استدعا مسترد کرتے ہوئے انہیں آزاد شہری قرار دیا تھا۔
علاوہ ازیں دعا زہرہ نے ایک ویڈیو پیغام جاری کیا تھا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ‘میرے گھر والے زبردستی میری شادی کسی اور سے کروانا چاہتے تھے، مجھے مارتے پیٹتے تھے، مجھے کسی نے بھی اغوا نہیں کیا، میں اپنی مرضی سے گھر سے آئی ہوں اور اپنی پسند سے ظہیر سے شادی کی ہے’۔
انہوں نے کہا تھا کہ میرے اہل خانہ میری عمر غلط بتا رہے ہیں، میں 14 سال کی نہیں بلکہ بالغ ہوں، میری عمر 18 سال ہے۔
یہ بھی پڑھیں: دعا زہرہ کیس: نکاح خواں کو دلہا اور دلہن سے عمر کا دستاویزی ثبوت طلب کرنا چاہیے، عدالت
8 جون کو سندھ ہائی کورٹ نے دعا زہرہ کے کیس کو نمٹاتے ہوئے اسے شوہر کے ساتھ رہنے یا والدین کے ساتھ جانے سے متعلق اپنی مرضی سے فیصلہ کرنے کی اجازت دے دی تھی۔
تاہم چند دن قبل ہی میڈیکل بورڈ نے اپنی رپورٹ میں انکشاف کیا تھا کہ دعا زہرہ کی عمر تقریباً 15سال ہے جس کے بعد دعا کے والد نے ان کی تحویل کے لیے عدالت میں درخواست دائر کر دی ہے۔