سعودیہ اور بھارت میں بھی منکی پاکس کے کیسز رپورٹ
اسلامی دنیا کے اہم ترین ملک سعودی عرب اور پاکستان کے پڑوسی ملک بھارت میں بھی منکی پاکس کے کیسز ظاہر ہونے کی تصدیق کردی گئی۔
خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کے مطابق سعودی عرب کی وزارت صحت نے ملک میں پہلے منکی پاکس کیس رپورٹ ہونے کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ مرض کا شکار ایک مرد ہے۔
وزارت صحت کے مطابق متاثرہ شخص حال ہی میں بیرون ملک سے سعودیہ پہنچا تھا، جہاں ٹیسٹ کیے جانے پر ان میں منکی پاکس کی تشخیص ہوئی۔
حکام کے مطابق مذکورہ شخص کے بعد ان سے ملاقات کرنے اور ان کے قریب سفر کرنے والے تمام افراد کے ٹیسٹس کیے گئے، تاہم کسی دوسرے شخص میں منکی پاکس کی تشخیص نہیں ہوئی اور نہ ہی کسی نے علامات کا ذکر کیا۔
اگرچہ سعودی عرب کے حکام نے ملک میں پہلے کیس کی تصدیق کردی، تاہم یہ نہیں بتایا گیا کہ متاثرہ شخص کس ملک سے وہاں پہنچا تھا؟
سعودی عرب سے قبل گزشتہ ماہ جون کے آغاز میں ہی متحدہ عرب امارات (یو اے ای) میں منکی پاکس کے پہلے کیس کی تصدیق کی گئی تھی۔
سعودیہ کے ساتھ ساتھ بھارت نے بھی ملک میں پہلے منکی پاکس کے کیس کی تصدیق کردی۔
عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے مطابق بھارتی وزارت صحت کے حکام نے تصدیق کی کہ حال ہی میں یو اے ای سے انڈیا آنے والے شخص میں منکی پاکس کی تصدیق ہوئی۔
رپورٹ کے مطابق متاثرہ شخص کی عمر 35 برس ہے اور وہ خلیجی ملک سے حال ہی میں وطن لوٹے تھے اور ان میں مرض کی تشخیص کے بعد انہیں الگ کرکے ان کا علاج شروع کردیا گیا۔
عالمی ادارہ صحت کے مطابق جولائی کے وسط تک بھارت اور سعودیہ کے علاوہ مجموعی طور پر دنیا کے 60 ممالک تک منکی پاکس پھیل چکا تھا اور اس کے کیسز کی تعداد 6 ہزار سے تجاوز کر چکی تھی۔
یہ بھی پڑھیں: ‘منکی پاکس’ 58 ممالک تک پھیل چکا، عالمی ادارہ صحت
منکی پاکس کی وجہ سے رواں برس مئی کے بعد اب تک براعظم افریقہ کے باہر تین اموات کی تصدیق کی جا چکی ہے۔
عالمی ادارہ صحت منکی پاکس کے حوالے سے ہی پہلی واضح کر چکا ہے کہ اس کے کورونا کی طرح وبا بننے کے امکانات نہیں اور نہ ہی اس مرض کی وجہ سے عالمی سطح پر ہیلتھ ایمرجنسی نافذ کرنے کی ضرورت ہے۔
ابتدائی طور پر 1970 کے بعد افریقہ کے مغربی حصے میں بندروں میں پائی جانی والی بیماری منکی پاکس رواں برس مئی میں پہلی بار افریقہ سے باہر یعنی یورپ میں رپورٹ ہوئی تھی۔
مئی میں منکی پاکس کے کچھ کیسز انگلینڈ اور بعد ازاں اسپین اور اٹلی میں رپورٹ ہوئے، جس کے بعد یہ بیماری جرمنی، فرانس اور سوئٹزرلینڈ سمیت متعدد یورپی ممالک تک پھیلی، جس کے بعد وہاں سے یہ بیماری امریکا اور مشرق وسطی ممالک تک بھی جا پہنچی۔
مذکورہ بیماری سے متعلق ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ مرض کورونا یا اس طرح کی دیگر وباؤں کی طرح تیزی سے نہیں پھیلتا، منکی پاکس صرف قریبی تعلقات اور خصوصی طور پر جسمانی تعلقات سے ایک سے دوسرے شخص میں منتقل ہوتا ہے۔
ماہرین کے مطابق منکی پاکس عام طور پر صرف افریقی خطے میں پایا جاتا ہے اور کئی دہائیوں سے مذکورہ مرض کے کیسز کسی دوسرے خطے میں سامنے نہیں آئے تھے۔
چیچک اور جسم پر شدید خارش کے دانوں کی بیماری سے ملتی جلتی اس بیماری کی دو قسمیں ہیں، ایک قسم مغربی افریقی کلیڈ ہے اور دوسری قسم کانگو بیسن (وسطی افریقی) کلیڈ ہے، مغربی افریقی کلیڈ سے متاثرہ افراد میں موت کا تناسب تقریباً ایک فیصد ہے جبکہ کانگو بیسن کلیڈ سے متاثر ہونے والے مریضوں میں ہلاکتوں کا تناسب 10 فیصد تک ریکارڈ کیا گیا ہے۔
ماہرین کا ماننا ہے کہ منکی پاکس ایک بہت کم پایا جانے والا وبائی وائرس ہے، یہ انفیکشن انسانوں میں پائے جانےوالے چیچک کے وائرس سے ملتا ہے، اس وبا کی علامات میں بخار ہونا، سر میں درد ہونا اور جلد پر خارش ہونا شامل ہیں۔