صدر کا استعفیٰ منظور کر لیا گیا، سری لنکن اسپیکر
بحران سے متاثرہ جزیرہ نما ملک سری لنکا کے پارلیمانی اسپیکر نے اعلان کیا ہے کہ صدر کا استعفیٰ منظور کر لیا گیا ہے۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' کی خبر کے مطابق سری لنکن صدر گوٹابایا راجاپکسے رواں ہفتے کے شروع میں ملک سے فرار ہوگئے تھے اور کہا تھا کہ وہ مستعفی ہو رہے ہیں۔
گوٹابایا راجاپکسے جو کبھی تامل باغیوں کو بے رحمی سے کچلنے کے لیے 'دی ٹرمینیٹر' کے نام سے جانے جاتے تھے، ان کے استعفے کی منظوری کے باضابطہ اعلان کے بعد وہ 1978 میں ایگزیکٹو صدارت اختیار کرنے کے بعد سے مستعفی ہونے والے سری لنکا کے پہلے صدر ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: سری لنکا: مظاہرین نے صدارتی محل، وزیر اعظم دفتر سمیت سرکاری عمارات خالی کردیں
انہوں نے مالدیپ سے سنگاپور جانے کے بعد اپنا استعفیٰ ای میل کیا، وہ ملک میں احتجاج کے دوران مظاہرین کے اپنے محل پر دھاوا بولنے کے بعد ابتدائی طور سری لنکا سے مالدیب فرار ہوگئے تھے۔
اسپیکر مہندا یاپا ابےوردنا نے صحافیوں کو بتایا کہ گوٹابایا راجاپکسے نے قانونی طور پر استعفیٰ دے دیا ہے، جس کا اطلاق جمعرات سے ہوگیا ہے، میں نے استعفیٰ منظور کرلیا ہے۔
سری لنکا کے آئین کے تحت وزیر اعظم رانیل وکرماسنگھے خود بخود قائم مقام صدر بن جائیں گے جب تک کہ پارلیمنٹ گوٹابایا راجاپکسے کی بقیہ مدت کے لیے کسی رکن پارلیمنٹ کا انتخاب نہ کر لے، جبکہ مظاہرین کی جانب سے وزیر اعظم کی رخصتی کا مطالبہ بھی کیا جارہا ہے۔
سری لنکن اسپیکر نے اپنی رہائش گاہ پر گفتگو کرتے ہوئے صحافیوں کو بتایا کہ قانون ساز اسمبلی کا اجلاس ہفتے کے روز طلب کیا جائے گا اور امید ہے کہ انتخابی عمل 7 روز کے اندر مکمل ہوجائے گا۔
گوٹابایا راجاپکسے کی رخصتی ملک میں جاری کئی مہینوں کے مظاہروں کے بعد ہوئی ہے، ان پر تنقید کرنے والوں کے مطابق جزیرہ نما ملک میں معاشی بحران اور معیشت کی تباہی کی وجہ ان کی بدانتظامی تھی، جس کی وجہ سے ملک کے 2 کروڑ سے زیادہ لوگوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑھ رہا ہے۔
سری لنکن صدر کا استعفیٰ منظور کیے جانے کے بعد گزشتہ روز شہریوں نے جشن منایا، اس یادگار تاریخی موقع پر جشن منانے کے لیے صرف چند سو لوگ موجود تھے، احتجاجی تحریک میں شامل بہت سے لوگ گزشتہ دنوں ہونے والی آنسو گیس کی شیلنگ اور سیکیورٹی فورسز کے ساتھ کشیدہ تصادم کے بعد تھکاوٹ کا شکار تھے۔
سنگاپور کا 'نجی دورہ'
گوٹابایا راجاپکسے، ان کی اہلیہ اور ان کے 2 محافظ سعودی ایئر لائن کی پرواز میں مالدیپ سے سنگاپور پہنچے۔
مزید پڑھیں: سری لنکن صدر مالدیپ فرار، وزیراعظم نے ملک میں ایمرجنسی اور کرفیو نافذ کردیا
بطور صدر گوٹابایا راجاپکسے کو گرفتاری سے استثنیٰ حاصل تھا اور خیال کیا جاتا ہے کہ حراست میں لیے جانے کے خدشے سے بچنے کے لیے وہ عہدہ چھوڑنے سے قبل بیرون ملک جانا چاہتے تھے۔
خیال کیا جاتا ہے کہ مالدیپ کے سابق صدر محمد نشید نے انہیں ملک سے باہر نکالنے میں پس منظر میں کردار ادا کیا اور کہا جاتا ہے کہ گوٹابایا راجاپکسے کو خدشہ تھا کہ اگر وہ ملک میں رہے تو انہیں مار دیا جائے گا۔
محمد نشید نے ٹوئٹ کیا کہ مجھے یقین ہے کہ اگر سری لنکن صدر ملک میں ہوتے تو استعفیٰ نہ دیتے۔
سنگاپور کی وزارت خارجہ نے اس بات کی تصدیق کی کہ گوٹابایا راجاپکسے کو نجی دورے پر ریاست میں داخل ہونے کی اجازت دی گئی ہے، انہوں نے پناہ مانگی ہے اور نہ ہی انہیں پناہ دی گئی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: سری لنکا کو معاشی بحران سے نکالنے کیلئے ’جنگی اقتصادی کابینہ‘ تشکیل
سری لنکا کے سیکیورٹی ذرائع کے مطابق ممکنہ طور پر متحدہ عرب امارات منتقل ہونے سے قبل کچھ عرصے تک ان کے سنگاپور میں قیام کی توقع ہے۔
بڑھتے ہوئے معاشی بحران کے باعث سری لنکا اپریل میں اپنے 51 ارب ڈالر کے غیر ملکی قرض کی ادائیگی سے قاصر رہنے کے باعث دیوالیہ ہوگیا تھا اور وہ ممکنہ بیل آؤٹ کے لیے عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سے بات چیت کر رہا ہے۔
تاہم سیاسی ہلچل اور غیر یقینی صورتحال کے باعث مذاکرات کا راستہ رک گیا ہے، گزشتہ روز آئی ایم ایف کے ترجمان نے کہا تھا کہ امید ہے بدامنی جلد ختم ہوگی تاکہ مذاکرات دوبارہ شروع ہو سکیں۔
ملک میں پیٹرول کی شدید قلت ہے جبکہ حکومت نے سفر کو کم سے کم کرنے اور ایندھن کی بچت کے لیے غیر ضروری دفاتر اور اسکولوں کو بند کرنے کا حکم دیا ہے۔
مظاہرین نے قبضہ چھوڑ دیا
کولمبو میں وزیر اعظم رانیل وکرماسنگھے کی جانب سے سیکیورٹی فورسز کو امن و امان، نظم و نسق بحال کرنے اور ایمرجنسی نافذ کرنے کے اعلان کے بعد مظاہرین نے کئی ریاستی عمارتوں کو خالی کردیا جن پر انہوں نے حالیہ دنوں میں قبضہ کیا تھا۔
مزید پڑھیں: سری لنکا: پرتشدد احتجاج میں 7 ہلاکتوں کے بعد فوج، پولیس کو ہنگامی اختیارات تفویض
عینی شاہدین نے درجنوں مظاہرین کو وزیر اعظم رانیل وکرماسنگھے کے دفتر سے نکلتے ہوئے دیکھا جبکہ مسلح پولیس اور سیکیورٹی فورسز کے اہلکار اندر داخل ہوئے۔
دارالحکومت میں کرفیو لگا دیا گیا تھا اور سیکیورٹی اہلکار مختلف علاقوں میں گشت کر رہے تھے۔
وزیر اعظم کے بھاگنے اور ان کے سیکیورٹی گارڈز کے پیچھے ہٹنے کے بعد وزیر اعطم آفس کو عوام کے لیے کھول دیا گیا تھا اور اس دوران لاکھوں لوگوں نے یہاں کا دورہ کیا تھا۔