مبینہ بیرونی مراسلہ ایک خفیہ سفارتی دستاویز ہے، سپریم کورٹ
سپریم کورٹ نے سابق ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری کی جانب سے تحریک عدم اعتماد کو مسترد کرنے کی رولنگ پر تفصیلی فیصلے میں کہا ہے کہ سفارتی مراسلے سے متعلق فیصلہ کرنا ایگزیکٹیو کا کام ہے، مبینہ بیرونی مراسلہ ایک خفیہ سفارتی دستاویز ہے، سفارتی تعلقات کے پیش نظر عدالت مراسلے سے متعلق کوئی حکم نہیں دے سکتی۔
سپریم کورٹ نے تفصیلی فیصلے میں سابق وزیراعظم عمران خان کے خلاف اس وقت کی اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد کو سابق ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری کی جانب سے مسترد کرنے کی رولنگ کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے سابق وزیراعظم کے اسمبلیاں تحلیل کرنے کے فیصلے کو کالعدم قرار دے دیا اور کہا گیا کہ چیف جسٹس پاکستان کے گھر پر ہونے والے اجلاس میں 12 ججوں نے از خود نوٹس کی سفارش کی۔
سپریم کورٹ نے سابق ڈپٹی اسپیکر کی عدم اعتماد پر رولنگ کے خلاف از خود نوٹس کا تفصیلی فیصلہ جاری کر دیا گیا جو کہ 111 صفحات پر مشتمل ہے، جس میں بینچ میں شامل جسٹس مظہر عالم میاں خیل اور جسٹس جمال مندوخیل کے اختلافی نوٹس بھی شامل ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ غیر آئینی قرار، قومی اسمبلی بحال
تفصیلی فیصلہ چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال نے تحریر کیا اور فیصلے کا آغاز سورہ الشعراء سے کیا ہے۔
اکثریتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ سابق ڈپٹی اسپیکر کا تحریک عدم اعتماد مسترد کرنے کا فیصلہ غیر آئینی ہے، وزیراعظم کا اسمبلیاں تحلیل کرنے کا حکم غیر قانونی قرار دیتے ہوئے کالعدم قرار دیا جاتا ہے۔
اکثریتی فیصلے میں بتایا گیا کہ تحریک انصاف کے وکیل نے بیرونی مداخلت اور مراسلے کا حوالہ دیا، مبینہ بیرونی مراسلے کا مکمل متن عدالت کو نہیں دکھایا گیا اور کچھ حصہ بطور دلائل سپریم کورٹ کے سامنے رکھا گیا۔
تحریک انصاف کے وکیل کے مطابق مراسلے کے تحت حکومت گرانے کی دھمکی دی گئی۔
مزید پڑھیں: ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ، سول سوسائٹی کے رہنماؤں کا چیف جسٹس کو کھلا خط
سپریم کورٹ نے فیصلے میں بتایا کہ مبینہ بیرونی مراسلہ ایک خفیہ سفارتی دستاویز ہے، سفارتی تعلقات کے پیش نظر عدالت مراسلے سے متعلق کوئی حکم نہیں دے سکتی، قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں پاکستان کے اندرونی معاملات میں بیرونی مداخلت کو تسلیم کیا گیا۔
فیصلے میں بتایا گیا کہ قومی سلامتی اجلاس کے اعلامیے میں واضح نہیں تھا کہ اپوزیشن جماعتوں نے تحریک عدم اعتماد میں کوئی بیرونی سازش کی، بیرونی سازش کے خلاف کوئی انکوائری یا تحقیقات نہیں کرائی گئیں۔
سپریم کورٹ کا فیصلے میں کہنا تھا کہ عدالتیں قیاس آرائیوں پر نہیں بلکہ مصدقہ حقائق کی بنیاد پر فیصلے کرتی ہیں، سفارتی مراسلے سے متعلق فیصلہ کرنا ایگزیکٹیو کا کام ہے۔
یہ بھی پڑھیں: صدر مملکت عارف علوی نے وزیراعظم کی تجویز پر قومی اسمبلی تحلیل کردی
فیصلے کے مطابق سپریم کورٹ نے آئین کو مقدم رکھنے اور اس کے تحفظ کے لیے سابق ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ پر از خود نوٹس لیا، سابق ڈپٹی اسپیکر کے غیر آئینی اقدام کی وجہ سے سپریم کورٹ متحرک ہوئی، سابق ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کی وجہ سے سابق وزیراعظم کی ایڈوائس پر صدر مملکت نے اسمبلی توڑی۔
فیصلے میں مزید بتایا گیا کہ سابق ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ، سابق وزیراعظم کی ایڈوائس اور صدر کے اقدامات کی وجہ سے اپوزیشن اور عوام کے بنیادی آئینی حقوق متاثر ہوئے۔
سپریم کورٹ کا کہنا تھا کہ از خود نوٹس کی کارروائی کے دوران سائفر کے حوالے سے فریقین نے دلائل دیے، سائفر عدالت کو نہیں دکھایا گیا تاہم صرف سائفر کے اجزا عدالت کو بتائے گئے۔