سری لنکن صدر مالدیپ فرار، وزیراعظم نے ملک میں ایمرجنسی اور کرفیو نافذ کردیا
معاشی بحران کے درمیان مزید مظاہروں کے پیش نظر سری لنکا کے وزیر اعظم رانیل وکرماسنگھے نے قائم مقام صدر کے طور پر اقدام اٹھاتے ہوئے ملک میں ایمرجنسی کا اعلان کردیا جبکہ سری لنکن صدر گوٹابایا راجاپکسے مالدیپ فرار ہوگئے۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کی خبر کے مطابق رانیل وکرماسنگھے کے میڈیا سیکریٹری نے بتایا کہ وزیر اعظم نے بطور قائم مقام صدر ملک بھر میں ہنگامی حالت کا اعلان کیا ہے اور مغربی صوبے میں کرفیو نافذ کر دیا ہے۔
سری لنکن وزیر اعظم کی جانب سے اعلان کے بعد کرفیو فوری طور پر نافذالعمل ہے۔
یہ بھی پڑھیں: سری لنکا میں معاشی بحران کےخلاف احتجاج میں پہلی ہلاکت
جیسے ہی معاشی بحران کے شکار ملک کے صدر کی پرواز کی خبر پھیلی، ہزاروں لوگ کولمبو میں مرکزی احتجاجی مقام پر جمع ہوئے اور صدر کے خلاف ان کا نام لے کر 'چور، چور' کے نعرے لگائے۔
ان مظاہرین کے علاوہ سیکڑوں دیگر افراد نے وزیر اعظم کے دفتر پر دھاوا بول دیا، مظاہرین نے وزیر اعظم رانیل وکرماسنگھے کے استعفے کا مطالبہ کیا۔
صدر کے فرار ہونے سے طاقتور راجاپکسے خاندان کی حکمرانی کا خاتمہ ہو گیا ہے جو گزشتہ 2 دہائیوں سے جنوبی ایشیائی ملک کی سیاست پر حاوی تھی۔
معاشی بحران کے خلاف مظاہرے مہینوں سے جاری ہیں اور گزشتہ ہفتے کے آخر میں اس وقت عروج پر پہنچے تھے جب لاکھوں افراد نے صدر گوٹابایا راجاپکسے اور ان کے اتحادیوں کو مہنگائی، بدعنوانی، ایندھن اور ادویات کی شدید کمی کا ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے کولمبو میں اہم سرکاری عمارات پر قبضہ کر لیا تھا۔
مزید پڑھیں: معاشی بحران کا شکار سری لنکا کا ’گولڈن ویزا‘ فروخت کرنے کا اعلان
حکومتی ذرائع اور ان کے ساتھیوں نے بتایا کہ صدر کے بھائی و سابق وزیر اعظم مہندا راجاپکسے اور سابق وزیر خزانہ باسل راجاپکسے ابھی تک سری لنکا میں ہیں۔
فضائیہ نے ایک بیان میں کہا کہ گوٹابایا راجاپکسے، ان کی اہلیہ اور 2 محافظ بدھ کی صبح سری لنکن فضائیہ کے طیارے میں کولمبو کے قریب مرکزی ہوائی اڈے سے روانہ ہوئے۔
سرکاری ذریعے اور گوٹابایا راجاپکسے کے قریبی شخص نے بتایا کہ وہ مالدیپ کے دارالحکومت مالے میں ہیں، سرکاری ذرائع نے مزید بتایا کہ صدر ممکنہ طور پر وہاں سے کسی دوسرے ایشیائی ملک کا رخ کریں گے۔
گوٹابایا راجاپکسے بدھ کے روز صدر کے عہدے سے سبکدوش ہونے والے تھے تاکہ بحران اور احتجاج سے نمٹنے کے لیے اتحادی حکومت بنائی جائے جبکہ مظاہرین نے ان کی اور وزیر اعظم کی سرکاری رہائش گاہوں پر دھاوا بول دیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: سری لنکا کو معاشی بحران سے نکالنے کیلئے ’جنگی اقتصادی کابینہ‘ تشکیل
سری لنکا کی پارلیمنٹ کے اسپیکر نے رائٹرز کے پارٹنر ادارے 'اے این آئی' کو بتایا کہ انہیں ابھی تک راجاپکسے کی جانب سے کوئی خط موصول نہیں ہوا۔
حکمراں جماعت کے ذرائع نے بتایا کہ صدر بعد میں استعفے کا خط بھیجیں گے۔
صدر گوٹابایا راجاپکسے کا استعفیٰ رانیل وکرماسنگھے کو قائم مقام صدر بنا دے گا حالانکہ انہوں نے خود بھی مستعفی ہونے کی پیشکش کی ہے، اگر وزیر اعظم ایسا کرتے ہیں تو آئین کے مطابق نئے صدر کے منتخب ہونے تک اسپیکر قائم مقام صدر رہے گا۔
احتجاج کرنے والے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم، راجاپکسے کے اتحادی ہیں اور انہوں نے خبردار کیا ہے کہ اگر بدھ کی سہ پہر تک وہ استعفیٰ نہیں دیتے تو 'فیصلہ کن لڑائی' کی جائے گی۔
مزید پڑھیں: معاشی بحران پر عوامی احتجاج کے پیش نظر سری لنکا میں کرفیو نافذ
حالیہ مظاہروں کے منتظمین میں سے ایک کا کہنا تھا کہ اگر ہمیں شام تک صدر اور وزیر اعظم کے استعفے کی خبر نہیں ملتی تو ہمیں واپس جمع ہونا پڑے گا اور پارلیمنٹ یا کسی اور سرکاری عمارت پر قبضہ کرنا پڑے گا، ہم گوٹابایا راجاپکسے اور وزیر اعظم رانیل وکرماسنگھے کی حکومت کے سخت خلاف ہیں، دونوں کو جانا ہوگا۔
معاشی اور سیاسی افراتفری کے درمیان بدھ کے روز سری لنکا کے خودمختار بانڈ کی قیمتیں تازہ ترین پستی کی سطح پر پہنچ گئیں۔
کولمبو شہر کے وسطی ضلع میں امریکی سفارت خانے نے کہا کہ وہ احتیاطی اقدام کے طور پر دوپہر اور جمعرات کے لیے قونصلر خدمات منسوخ کر رہا ہے۔
وبا کے متاثرین
جزیرہ نما ملک کی سیاحت پر منحصر معیشت کو سب سے پہلے کورونا وائرس نے نقصان پہنچایا اور پھر بیرون ملک مقیم سری لنکن شہریوں کی جانب سے ترسیلات زر میں کمی کا سامنا کرنا پڑا۔
مزید پڑھیں: 'ہم مر رہے ہیں' سری لنکا میں معاشی بحران کے دوران غذائی اجناس کی قلت کے شکار شہری بلبلا اٹھے
کیمیائی کھادوں پر پابندی سے ملک میں زرعی پیداوار متاثر ہوئی جبکہ بعد میں پابندی کو واپس لے لیا گیا تھا۔
گوٹابایا راجاپکسے نے 2019 میں عوامی فیصلہ کرتے ہوئے ٹیکسوں میں کٹوتیوں کو نافذ کیا جس سے حکومتی خزانہ متاثر ہوا جبکہ غیر ملکی ذخائر سکڑنے سے ایندھن، خوراک اور ادویات کی درآمدات میں کمی آئی۔
ملک میں پیٹرول کی شدید قلت ہے اور کھانا پکانے والی گیس فروخت کرنے والی دکانوں کے سامنے لمبی قطاریں لگ گئی ہیں، ملک میں گزشتہ ماہ مہنگائی کی شرح 54.6 فیصد تک پہنچ گئی اور مرکزی بینک نے خبردار کیا ہے کہ آنے والے مہینوں میں یہ شرح 70 فیصد تک بڑھ سکتی ہے۔
سابق وزیر اعظم مہندا راجاپکسے، جو صدر کے بڑے بھائی بھی ہیں، مئی میں خاندان کے خلاف مظاہروں کے پرتشدد ہونے کے بعد وزیر اعظم کے طور پر عہدے سے مستعفی ہو گئے تھے۔
یہ بھی پڑھیں: معاشی بحران کے شکار سری لنکا نے آئی ایم ایف سے مذاکرات شروع کردیے
منگل کو سری لنکا کے امیگریشن حکام نے سابق وزیر خزانہ باسل راجاپکسے کو ملک سے باہر جانے سے روک دیا تھا۔
یہ واضح نہیں تھا کہ باسل راجاپکسے، جن کے پاس امریکی شہریت بھی ہے، کہاں جانے کی کوشش کر رہے تھے۔
انہوں نے اپریل کے شروع میں سڑکوں پر ہونے والے شدید احتجاج کے درمیان وزیر خزانہ کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا اور جون میں پارلیمنٹ میں اپنی نشست چھوڑ دی تھی۔