’عالمی صنفی تفریق انڈیکس 2022‘ میں پاکستان کا 146 ممالک میں 145واں نمبر
عالمی صنفی تفریق کے انڈیکس 2022 میں پاکستان 146 ممالک میں سے 145ویں نمبر پر رہا، 10 کروڑ 70 لاکھ خواتین کی آبادی والے ملک میں صنفی فرق 56.4 فیصد ریکارڈ کیا گیا۔
عالمی اقتصادی فورم کی جانب سے عالمی صنفی تفریق کی رپورٹ کے اجرا کے بعد سے پاکستان کی جانب سے عدم مساوات کی یہ بلند ترین سطح ہے۔
'گلوبل جینڈر گیپ رپورٹ 2022' کے جاری کردہ ایڈیشن میں کہا گیا ہے کہ پاکستان نے اقتصادی شراکت اور معاشی مواقع فراہم کرنے سمیت 3 ذیلی درجات میں نمایاں مثبت بہتری دکھائی۔
یہ بھی پڑھیں: صنفی جرائم: ہمیں دقیانوسی خیالات سے جان چھڑانی ہوگی
اگرچہ تنخواہوں کے معاملے میں مساوات اور برابری معاشی اشاریوں میں صنفی فرق کا سب سے زیادہ اسکور رکھتی ہے، تخمینہ شدہ آمدنی میں بھی پیشرفت رپورٹ کی گئی ہے جس کے مطابق 2021 کے مقابلے میں خواتین کی آمدنی میں 4 فیصد اضافہ ہوا، تاہم 2022 میں سینئر اور پروفیشنل کیٹیگریز میں مرد اور خواتین ورکرز میں کمی دیکھی گئی۔
حصول تعلیم، خواندگی، ثانوی اور اعلیٰ تعلیم کے اندراج میں صنفی برابری کے اسکور میں اضافہ ہوا۔
'گلوبل جینڈر گیپ رپورٹ 2022' کے مطابق پاکستان بلاامتیاز اقتصادی شراکت اور معاشی مواقع فراہم کرنے میں 145ویں نمبر پر ہے، حصول تعلیم کے مواقع فراہم کرنے میں 135ویں، طبی سہولیات کی فراہمی میں 143ویں اور سیاسی طور پر بااختیار بنانے میں 95ویں نمبر پر ہے۔
رپورٹ میں جن 8 خطوں کا احاطہ کیا گیا ہے ان میں جنوبی ایشیا سب سے نچلی سطح پر ہے جہاں صنفی تفریق 62.3 فیصد ہے، پچھلے ایڈیشن کے بعد سے زیادہ تر ممالک میں پیشرفت کی کمی نے جنوبی ایشیا میں صنفی فرق کو ختم کرنے کے انتظار کو 197 سال تک بڑھا دیا ہے۔
مزید پڑھیں: گھریلو تشدد کو نظر انداز کرنا خطرناک ثابت ہوسکتا ہے!
بنگلہ دیش اور نیپال علاقائی کارکردگی میں سرفہرست ہیں، ان کا اسکور 69 فیصد سے زیادہ رہا جبکہ افغانستان 43.5 فیصد کے اسکور کے ساتھ خطے اور دنیا کی مجموعی صنفی برابری کی سب سے کم سطح پر رہا۔
عالمی اقتصادی فورم کی مینیجنگ ڈائریکٹر سعدیہ زاہدی نے رپورٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ وبائی مرض کے دوران لیبر مارکیٹ میں ہونے والے نقصانات اور دیکھ بھال کے بنیادی ڈھانچے میں مسلسل کمی جیسے عوامل خواتین کو غیر معمولی طور پر متاثر کر رہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: پنجاب پولیس فورس میں جنسی امتیاز اور صنفی عدم توازن
سعدیہ زاہدی کا مزید کہنا تھا کہ کمزور بحالی کی صورت میں حکومت اور نجی کاروباری اداروں کو دو طرح کی کوششیں کرنی ہوں گی، ایک کوشش خواتین کی افرادی قوت میں واپسی اور دوسری کوشش مستقبل کی صنعتوں میں خواتین کی صلاحیتوں کی نشوونما کے لیے ٹارگٹڈ پالیسیاں بنانا، بصورت دیگر گزشتہ دہائیوں کے فوائد کو مستقل طور پر ختم کرنے اور مستقبل کے معاشی منافع سے محروم ہونے کا خطرہ ہے۔
گلوبل جینڈر گیپ رپورٹ 4 شعبوں میں صنفی بنیاد پر فرق کی کمی پیشی کو معیار بناتی ہے، ان 4 شعبوں میں اقتصادی شراکت اور معاشی مواقع، حصول تعلیم، صحت اور سیاسی بااختیار بنانا شامل ہیں۔
یہ انڈیکس لیبر مارکیٹ میں صنفی تفریق کے بڑھتے ہوئے بحران پر حالیہ عالمی رد و بدل کے اثرات کا بھی جائزہ لیتا ہے۔
تبصرے (1) بند ہیں