امریکی ڈرون حملے میں داعش کا شامی سربراہ مارا گیا، پینٹاگون کا دعویٰ
پینٹاگون نے کہا ہے کہ امریکی حکام کی جانب سے شام میں شدت پسند تنظیم اسلامک اسٹیٹ کا لیڈر قرار دیا گیا شخص ڈرون حملے میں مارا گیا۔
ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق ترجمان پینٹاگون سینٹرل کمانڈ لیفٹننٹ کرنل ڈیو ایسٹبرن نے بتایا کہ مہر الاجل شمالی شام میں موٹرسائیکل پر سفر کرتے ہوئے مارا گیا جبکہ حملے میں اس کا ایک قریبی ساتھی شدید زخمی ہوا ہے۔
انسانی حقوق کے شامی مبصر گروپ نے تصدیق کی کہ مہر الاجل ڈرون حملے میں مارا گیا۔
یہ بھی پڑھیں: افغانستان: ڈرون حملے میں داعش کا ایک اور کمانڈر ہلاک
'وائٹ ہیلمٹ' کے نام سے پہچانے جانے والی رضاکار شامی سول ڈیفنس فورس نے کہا کہ حلب کے قریب موٹر سائیکل کو نشانہ بنانے والے حملے میں ایک شخص ہلاک اور دوسرا زخمی ہوا، لیکن اس نے متاثرین کی شناخت نہیں کی۔
مہر الاجل کے بارے میں بہت کم معلومات دستیاب ہیں، اس کو شامی مبسڑ گروپ نے لیوانت کے لیے داعش کا گورنر بتایا جبکہ امریکی سینٹرل کمانڈ نے اسے مجموعی طور پر شدت پسند گروپ کے 5 اہم رہنماؤں میں سے ایک قرار دیا۔
امریکی سینٹرل کمانڈ نے ایک بیان میں کہا کہ گروپ کا سینئر لیڈر ہونے کے علاوہ مہر الاجل عراق اور شام سے باہر داعش کے نیٹ ورکس کو تیزی سے آگے بڑھانے کا بھی ذمہ دار تھا۔
امریکا کی اتحادی کردش سیریئن ڈیموکریٹک فورسز کے ترجمان کے مطابق جن دونوں افراد کو حملے میں نشانہ بنایا گیا ان کا تعلق شمالی شام میں سرگرم مسلح گروپ 'احرار الشرقیہ' سے تھا۔
مزید پڑھیں: داعش خراسان گروپ کا کابل ایئرپورٹ حملے کا 'منصوبہ ساز' ڈرون حملے میں مارا گیا، امریکا
اس گروپ نے داعش اور دیگر جہادی گروپوں کے سابق رہنماؤں اور ارکان کو باہم مربوط کیا ہے اور شمالی شام میں ترکی کے زیر کنٹرول علاقوں میں کرد اہداف کے خلاف حملے کیے ہیں۔ احرار الشرقیہ 2019 میں ممتاز کرد خاتون سیاست دان حورین خلف کے قتل کی ذمہ دار تھی، اس قتل کی عالمی سطح پر مذمت کی گئی تھی، امریکی وزارت خزانہ نے اس گروپ کو جولائی 2021 میں اپنی پابندیوں کی بلیک لسٹ میں ڈال دیا تھا۔
امریکی وزارت خزانہ کی جانب سے جاری بیان میں اس وقت کہا گیا تھا کہ احرار الشرقیہ نے عام شہریوں بالخصوص شامی کردوں کے خلاف متعدد جرائم کا ارتکاب کیا ہے، جن میں غیر قانونی قتل، اغوا، تشدد اور نجی املاک پر قبضے شامل ہیں۔
جس جگہ ڈرون حملہ کیا گیا وہاں سڑک پر 2 چھوٹے گڑھے پڑھ گئے تھے اور تباہ شدہ موٹرسائیکل کا ملبہ تھا جبکہ مقامی لوگوں کا کہنا تھا کہ داعش کے 2 ارکان اس علاقے کے رہائشی نہیں تھے جہاں انہیں مارا گیا۔
کنسلٹنسی جہاد اینالیٹکس کے بانی ڈیمین فیرے نے اس حملے کو غیر اہم قرار دیتے ہوئے کہا کہ شام میں داعش کا بمشکل سایہ ہی رہ گیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: یمن: امریکی حملے میں القاعدہ رہنما ہلاک
انہوں نے کہا کہ داعش اب بھی شام کی سرکاری افواج کے خلاف حملے کرنے اور کرد فورسز کے خلاف کارروائیاں کرنے کے قابل ہے، لیکن یہ گروپ داعش کی خلافت کے دور کے مقابلے میں کمزور ہے جس نے 2011 اور 2019 کے درمیان عراق اور شام کے بڑے حصوں پر قبضہ کیا تھا۔
یہ حملہ آٹمے قصبے میں رات کے وقت امریکی چھاپے کے 5 ماہ بعد ہوا ہے جس کے نتیجے میں داعش کے مرکزی رہنما ابو ابراہیم القریشی ہلاک ہوگئے تھے۔
امریکی حکام کا کہنا تھا کہ ابراہیم القریشی کی موت اس وقت ہوئی جب اس نے گرفتاری سے بچنے کے لیے خود کو بم سے اڑا دیا تھا۔
امریکی سینٹرل کمانڈ نے کہا کہ ان داعش لیڈران کے خاتمے سے دہشت گرد تنظیم کی مزید حملوں کی منصوبہ بندی کرنے اور عالمی حملے کرنے کی صلاحیت میں نمایاں کمی واقع ہوگی۔