پنجاب میں ضمنی انتخابات: الیکشن مہم میں حصہ لینے کیلئے مزید 2 صوبائی وزرا مستعفی
کچھ امیدواروں کی ’کمزور‘ پوزیشن کے باعث مسلم لیگ (ن) کی قیادت نے 17 جولائی کو صوبائی اسمبلی کی 20 نشستوں پر ہونے والے ضمنی انتخابات کے لیے پارٹی کی مہم کو تیز کرنے کے لیے مزید 2 وزرا کی ’قربانی‘ دے دی ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق صوبائی وزرائے قانون ملک احمد خان اور خزانہ سردار اویس لغاری نے 'ذاتی وجوہات' کا حوالہ دیتے ہوئے اپنے استعفے وزیر اعلیٰ پنجاب کو بھجوا دیے، تاہم مسلم لیگ (ن) نے دعویٰ کیا ہے کہ پارٹی کے حمایت یافتہ امیدواروں کی ضمنی انتخابی مہم میں حصہ لینے کے لیے دونوں وزرا نے استعفیٰ دیا ہے۔
عیدالاضحیٰ سے ایک روز قبل وفاقی وزیر برائے اقتصادی امور سردار ایاز صادق اور پنجاب کے وزیر سلمان رفیق نے بھی پی اے 158 لاہور میں پارٹی مہم کی نگرانی کے لیے استعفیٰ دے دیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: وفاقی وزیر ایاز صادق، صوبائی وزیر خواجہ سلمان مستعفی
پنجاب کے 3 وزرا کے مستعفی ہونے کے بعد حمزہ شہباز کی کابینہ سکڑ کر 5 ارکان پر مشتمل رہ گئی ہے، جن میں 2 وزرا ان کی اتحادی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے بھی شامل ہیں، پی پی پی نے مسلم لیگ (ن) کی حمایت کا اعلان کیا ہے، تاہم اس کے 2 وزرا حسن مرتضیٰ اور علی حیدر گیلانی جو جھنگ اور ملتان کی نشستوں سے منتخب ہوئے ہیں اور جہاں 3 نشستوں پر ضمنی انتخاب ہوگا، انہوں نے انتخابی مہم میں حصہ لینے کے لیے مستعفیٰ ہونے کا فیصلہ نہیں کیا۔
مسلم لیگ (ن) کا خیال ہے کہ سابق وزیر خزانہ اویس لغاری اپنے آبائی شہر ڈیرہ غازی خان میں انتخابی مہم میں مؤثر ثابت ہو سکتے ہیں جہاں پی پی 288 کی نشست پر ضمنی انتخاب ہوگا، تاہم ضلع قصور سے تعلق رکھنے والے ملک احمد خان کے استعفے کی وجہ پر سوالات اٹھ رہے ہیں۔
مسلم لیگ (ن)، پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے 20 منحرف اراکین کی حمایت کر رہی ہے جنہوں نے اپریل میں وزیر اعلیٰ کے انتخاب میں وزیر اعظم شہباز شریف کے بیٹے حمزہ شہباز کو ووٹ دیا تھا، جنہیں بعد میں الیکشن کمیشن نے پارٹی پالیسی سے انحراف پر ڈی سیٹ کر دیا تھا، ان 20 حلقوں کے زیادہ تر مسلم لیگ (ن) کے ٹکٹ ہولڈرز اور نظریاتی کارکنان ’لوٹوں‘ کو ٹکٹ دینے پر قیادت سے خوش نہیں اور اس تمام صورتحال میں ان امیدواروں کی پوزیشن کمزور ہو رہی ہے۔
پارٹی کے اندرونی ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ شریف خاندان کو 'پارٹی کے لوگوں کی جانب سے ملنے والی رپورٹس' سے آگاہ کیا گیا ہے کہ کچھ حلقوں میں ان کی پارٹی کے حمایت یافتہ امیدواروں کی پوزیشن 'کمزور' ہے جس کی وجہ 'ان کے خلاف پارٹی کے مقامی رہنماؤں اور کارکنان کی بغاوت' ہے، ان حلقوں میں پارٹی کے امیدواروں کی فوری امداد کے لیے اہم رہنماؤں کو بھیجا جائے جو ان کی انتخابی مہم میں مدد کرسکیں۔
ذرائع نے مزید کہا کہ یہ سابق وزرا ناراض کارکنوں کو لالچ دے کر نہ صرف پارٹی کے اندر ’کمزور امیدواروں‘ کی حمایت کو یقینی بنائیں گے بلکہ ان کی مہم کی قیادت بھی کریں گے۔
مزید پڑھیں: مشکل وقت گزر گیا اب روز خوشخبریاں ملیں گی، مریم نواز
یہ ضمنی انتخابات نہ صرف یہ فیصلہ کریں گے کہ پنجاب پر حمزہ شہباز یا پی ٹی آئی اور مسلم لیگ (ق) کے مشترکہ امیدوار چوہدری پرویز الہٰی میں سے کون ایک سال یا اس سے زیادہ عرصے تک حکومت کرے گا بلکہ آئندہ عام انتخابات کے نتائج کا بھی تعین کریں گے۔
سپریم کورٹ پہلے ہی 22 جولائی کو وزیر اعلیٰ پنجاب کے دوبارہ انتخاب کا اعلان کر چکی ہے۔
حمزہ شہباز کے بطور وزیراعلیٰ رہنے کے لیے مسلم لیگ (ن) کی قیادت والے اتحاد کو اسمبلی میں 186 ارکان کی اکثریت حاصل کرنے کے لیے کم از کم 9 نشستوں کی ضرورت ہے، جبکہ پرویز الہٰی جن کی حمایت کرنے والےارکان کی تعداد 173 ہے، انہیں حمزہ شہباز کو بے دخل کرنے کے لیے مزید 13 نشستیں درکار ہیں۔
مسلم لیگ (ن) کا دعویٰ ہے کہ پنجاب اس کا مضبوط گڑھ ہے، اس لیے ضمنی انتخابات میں وہ زیادہ نشستیں حاصل کرے گی لیکن ضمنی انتخاب سے چند روز قبل 4 وزرا کے استعفوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکمراں جماعت بہت زیادہ پراعتماد نہیں ہے اور ان حلقوں میں حکمراں اتحاد کو عمران خان کی پی ٹی آئی کا چیلنج درپیش ہے۔
یہ بھی پڑھیں: مسٹر ایکس نے مسٹر وائی کو دھاندلی کیلئے ملتان بھیج دیا ہے، عمران خان
دوسری جانب عمران خان اور مسلم لیگ (ق) کے رہنما پرویز الہٰی کا کہنا ہے کہ ان کا اتحاد تمام 20 نشستیں جیت لے گا اور حکمراں اتحاد کو انتخابات میں دھاندلی سے خبردار کیا ہے۔
مسلم لیگ (ن) کے ایک رہنما کا خیال ہے کہ اگرچہ پارٹی کی نائب صدر مریم نواز پارٹی کے حمایت یافتہ امیدواروں کے لیے بھرپور طریقے سے مہم چلا رہی ہیں لیکن قیادت سمجھتی ہے کہ اسے ان حلقوں میں اپنے کارکنوں کے تحفظات دور کرنے کے لیے 'ہجوم کو جمع کرنے والی' مریم نواز کے علاوہ کچھ اور قابل اعتماد چہروں کی بھی ضرورت ہے۔