فلم ریویو: قائدِاعظم زندہ باد
پاکستان میں عید کا تہوار فلم سازوں کے لیے ہمیشہ بہت اہم رہا ہے۔ رواں برس عیدالفطر پر 4 اردو فلمیں نمائش کے لیے پیش کی گئی تھیں جبکہ ابھی عیدالاضحٰی کے موقع پر 3 اردو فلمیں ریلیز ہوئیں۔ ان میں ہدایت کار نبیل قریشی کی ’قائدِاعظم زندہ باد‘، ندیم بیگ کی ’لندن نہیں جاؤں گا‘ اور عبدالخالق خان کی ’لفنگے‘ شامل ہیں۔
ہدایت کار وحید اعوان کی پنجابی زبان میں بننے والی فلم ’اشتہاری ڈوگر‘ بھی اس عید پر نمائش پذیر ہوئی۔ اس کا مرکزی کردار پنجابی فلموں کے ماضی میں معروف اداکار سلطان راہی کے بیٹے حیدر سلطان نے نبھایا۔
ان فلموں کے ساتھ ساتھ 3 پشتو فلمیں بھی سینماؤں کی زینت بنیں جن میں لیاقت علی خان کی ’غلامی نہ منم‘، ارشد خان کی ’اعلانِ جنگ‘ اور شاہد عثمان کی ’خانہ بدوش‘ شامل تھیں۔ انگریزی فلموں میں مارول اسٹوڈیوز کی فلم ’تھور‘ بھی عید پر پاکستان میں ریلیز ہونے والی فلموں میں سے ایک ہے۔ مگر یہاں جس فلم کا تبصرہ پیش کیا جا رہا ہے اس کا نام ’قائدِاعظم زندہ باد‘ ہے۔
فلم سازی و ہدایت کاری
اس فلم کی پروڈیوسر فضا علی مرزا ہیں اور ہدایت کار نبیل قریشی ہیں۔ اس فلم ساز جوڑی نے اب تک 6 فلمیں بنائی ہیں۔ تمام فلموں کو دونوں نے مل کر لکھا۔ ان کو پروڈیوس فضا علی مرزا کرتی ہیں (ویسے مہدی علی بھی بطور پروڈیوسر ان کا حصہ ہوتے ہیں لیکن ہر فلم میں مرکزی پروڈیوسر فضا علی مرزا ہی ہیں) اور ہدایت کاری کے فرائض نبیل قریشی انجام دیتے ہیں۔
ان 6 فلموں میں سے 5 میں، ہیرو کا مرکزی کردار فہد مصطفٰی نے ہی نبھایا، جبکہ اداکارائیں تبدیل ہوتی رہیں۔ ان دونوں کی فلموں میں اداکاراؤں کی اداکاری کا سلسلہ عروا حسین اور کبریٰ خان سے ہوتا ہوا، ہانیہ عامر، مہوش حیات اور سجل علی سے ہوکر اب ماہرہ خان تک آپہنچا ہے۔
اس فلم ساز جوڑی کی فلموں میں اداکاراؤں کے علاوہ ہر چیز تقریباً مساوی ہے، جیسا کہ ہیرو، ولن، کامیڈین، فلم کے لگے بندھے فریم، حتیٰ کہ شوٹنگ کے مقامات، ڈرون سے لیے گئے مناظر، موسیقی کا انداز اور ایسے سماجی موضوعات، جن کا تعلق کسی نہ کسی طرح عوام الناس سے ہو اور اس میں بھی کسی نہ کسی طرح پاکستانی میڈیا آجائے۔ یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ فلم ساز جوڑی بہت آئیڈیل ماحول میں ایسے لوگوں کے ساتھ کام کرتی ہے، جن سے ان کی ذہنی ہم آہنگی ہے، مگر دوسرا پہلو دیکھا جائے تو یہ یکسانیت بھی ہے، جس کو ان کی فلموں میں محسوس کیا جاسکتا ہے۔
ان کی ساری فلموں کے مناظر مکس کردیے جائیں اور پھر ان کو الگ کرنے کا کہا جائے تو عام فلم بین کے لیے یہ جاننا بہت مشکل ہوگا کہ کون سا منظر کس فلم سے لیا گیا ہے کیونکہ فریم ورک سے لے کر مکالمات تک، سب کچھ ایک جیسا ہی لگتا ہے۔ مکالمات کے تناظر میں مثال کے طور پر عامر لیاقت کا بالواسطہ تذکرہ، ان کے مکالمات میں عود ہی آتا ہے۔
ان کی پہلی فلم ’نامعلوم افراد‘ سے لے کر موجودہ فلم قائدِاعظم زندہ باد تک جو چیز بہت بہتر ہوگئی ہے وہ ان کا پروڈکشن ڈیزائن ہے۔ اس مرتبہ فلم میں ویژول ایفیکٹس کے استعمال سے فلم میں مزید نکھار آیا، گیتوں کی عکس بندی بھی قابلِ تعریف ہے اور بطور سینماٹوگرافر رانا کامران بھی تعریف کے حقدار ہیں۔
مرکزی خیال، کہانی اور اسکرپٹ
اس فلم ساز جوڑی کی تمام فلموں، بشمول قائدِاعظم زندہ باد کی کہانیوں کے ون لائنر تو بہت اچھے اور اچھوتے ہیں مگر چونکہ یہ دونوں کہانی خود لکھتے ہیں اور اپنی فلموں کے علاوہ کچھ نہیں لکھتے تو ایک اسکرین رائٹر کیسے کہانی کہنے پر گرفت رکھتا ہے، یہ دونوں اس سے ناآشنا ہیں۔ متعدد بار اسکرپٹ میں زبان اور مطلب کی غلطیاں بھی کرتے ہیں، مثال کے طور پر قائدِاعظم زندہ باد میں ایک جگہ ہیرو کہتا ہے کہ ’میرا یہ کہنا آپ کو بہت ناگزیر گزرا ہوگا‘، جبکہ یہاں لفظ ناگوار آنا تھا، یعنی میرا یہ کہنا آپ کو بہت ناگوار گزرا ہوگا۔ ایک رائٹر کو ناگزیر اور ناگوار کا فرق پتا ہونا چاہیے۔
کہانی میں کرپشن کا خوب تذکرہ ہے جس میں پولیس والوں سے لے کر سیاستدانوں تک اکثریت کو رشوت خور اور وسائل کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ ویسے یہ بھی سوال ہے کہ کیا پاکستان میں مالی کرپشن صرف پولیس اور سیاستدانوں نے ہی کی ہے؟
رشوت پر مبنی اس کہانی میں ایک ڈائیلاگ بار بار آیا کہ ’قائدِاعظم ہمیں دیکھ رہے ہیں‘، تو کیا قائدِاعظم صرف پولیس والوں اور سیاستدانوں کو کرپشن کرتا ہوا دیکھ رہے ہیں، اور کیا پاکستان میں کرپشن کے باقی کرداروں کو وہ نہیں دیکھ رہے؟ فلمساز کو اس سوال کا جواب ضرور معلوم ہوگا اور فلم میں تمثیلی ہی سہی ان کرداروں کا تذکرہ بھی آنا چاہیے تھا۔
اسی طرح ان کی فلموں میں کرداروں کا کلائمکس، مکالمے کی شدت، کہانی میں کرداروں کی نشست و برخاست اور اس طرح کے بہت سارے پہلو کمزور ہیں۔ نبیل قریشی نیشنل اکیڈمی آف آرٹس (ناپا) میں کچھ عرصہ زیرِ تعلیم بھی رہے تو وہاں انہوں نے یقینی طور پر ڈاکٹر انور سجاد جیسے کہنہ مشق اسکرین رائٹر سے کچھ نہ کچھ سیکھا ہوگا، خاص طور پر یہ بات کہ اگر آپ کہانی نویس نہیں ہیں تو آپ کہانیاں مت لکھیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج تک کہانی کو ڈھنگ سے پیش نہیں کر پائے۔
البتہ ’ایکٹر ان لا‘ اور ’لوڈ ویڈنگ‘ میں کہانی کہنے کی کوشش اچھی تھی مگر قائدِاعظم زندہ باد میں کہانی میں کئی جھول موجود ہیں جو فی الحال اچھی پروڈکشن میں چھپ گئے ہیں۔ ان کو چاہیے کہ باقاعدہ اسکرین رائٹرز کو مواقع دیں جو ان کی فلم کو باقاعدہ طور سے لکھیں اور ان کے اچھے اچھے ون لائنرز کی طرح پوری کہانی کو جاندار بنائیں تاکہ جو بھی پیغام فلم کے ذریعے یہ فلمساز دینا چاہتے ہیں، وہ بھرپور طور سے دیا جاسکے۔
مذکورہ فلم میں قائدِاعظم زندہ باد کی ذومعنویت کو موضوع بنایا گیا مگر فلمساز اس کو پُراثر طریقے سے بیان کرنے میں ناکام رہے۔ بھارتی فلموں سے متاثرہ گاندھی گیری کے انداز پر سنائی گئی یہ کہانی بے اثر رہی۔ اس تھیم کے غلط اور درست ہونے کے پہلوؤں پر بہت تفصیل سے بات ہوسکتی ہے مگر پھر اس کے لیے ایک علیحدہ تحریر لکھنی پڑے گی۔
ان فلمسازوں کو چاہیے کہ بھلے ناپا کی لائبریری سے ہی کتابیں مستعار لے لیں، مگر اپنے متعلقہ موضوعات پر لکھا پڑھا کریں۔ بولی وڈ کی آنکھ سے موضوعات کو دیکھنا چھوڑیں اور اپنے حقیقی انداز سے کہانیاں پیش کریں، جس طرح ایران، چین، جاپان اور یورپ کے مختلف زبانیں بولنے والے ممالک، اپنی اپنی زبانوں کے لحاظ سے اپنے مسائل کو اپنے مقامی رنگ میں پیش کرتے ہیں۔
اداکاری
اس فلم میں اداکاری کے لحاظ سے فہد مصطفٰی اور ماہرہ خان کے درمیان کوئی کیمسٹری دکھائی نہیں دی۔ دونوں اپنی اپنی لائنیں ادا کرکے فلم کی کہانی میں آگے بڑھتے رہے، کئی جگہ تو شدید اکتاہٹ ہوئی۔ اس فلم میں اگر اداکاری کسی نے کی ہے تو وہ قوی خان ہیں جنہوں نے اپنے مختصر سے کردار میں خود کو بڑا اداکار ثابت کیا۔
نیر اعجاز، محمود اسلم، سلیم معراج اور دیگر اپنی روایتی اداکاری کرتے دکھائی دیے۔ جاوید شیخ نے اس بار بھی کچھ منفرد طور سے اپنے کردار کو نبھانے کی کامیاب کوشش کی، وہ مرکزی کردار سے جڑے ذیلی کردار تھے اور اس وجہ سے فلم کے مرکزی اداکار فہد مصطفٰی سے زیادہ امید جاوید شیخ سے لگی رہی تھی کہ وہ فلم کا سارا بوجھ اپنے کاندھوں پر اٹھائیں گے اور ایسا ہی ہوا۔ پھر ہیرو کا موٹر سائیکل سے چھلانگ مار کر ہوائی جہاز پر کود جانا، جہاز میں لڑائی کے مناظر اور جہاز کا پانی میں گر جانا، ان فلمی سینز کو دیکھ کر فلم ساز کے درجہ ذہانت (آئی کیو لیول) پر دل خون کے آنسو رویا، اس کے سوا اور کیا بھی کیا جاسکتا ہے۔
موسیقی، نغمات، گیت نگاری و دیگر
فلم کی پس پردہ موسیقی حالات کے مطابق تھی جبکہ فلم میں شامل کردہ گیت خالص کمرشل انداز کے تھے جن کو جیسے تیسے فلم کا حصہ بنالیا گیا۔ اس کہانی میں ایک آدھ گانے کے علاوہ گنجائش نہیں تھی مگر چونکہ کمرشل فلم میں مصالحہ جات کی اشد ضرورت ہوتی ہے تو گیتوں کی صورت میں خوب ڈھیر سارے مصالحے فلم میں ڈالے گئے، البتہ ان گیتوں کی عکس بندی اور لائٹنگ بہت کمال کی تھی۔
گیت سننے میں بھی بہتر تھے، خاص طور پر علی ظفر کی آواز میں گایا ہوا گیت ’دل کرے دھک دھک‘ اچھا تھا۔ فلم کے موسیقار شانی ارشد ہیں جو اپنا کام اچھی طرح کرنا جانتے ہیں۔ انہوں نے فلم کی موسیقی ترتیب دینے کے ساتھ فلم کے دیگر گلوکاروں آئمہ بیگ اور اسرار شاہ کے ساتھ اپنی آواز کا جادو بھی جگایا۔
حرفِ آخر
ہمارے ہاں ان دنوں سب اپنی گفتگو میں ایک فلمی اصطلاح بہت استعمال کر رہے ہیں کہ جو فلم بین پیسے خرچ کرکے سینما جارہا ہے اس کے لیے وہ فلم ’پیسہ وصول‘ ہے۔ تو اب پیسہ وصول کی تعریف یہ ہے کہ ایسی فلم بنائی جائے، جس میں بارہ مصالحے کی چاٹ ہو۔ یعنی مصالحہ جات سے لبریز فلمیں ہی شاید ابھی تک عوام کے لیے پیسہ وصول فلمیں ہیں۔ اس اصطلاح اور تعریف کے مطابق تو یہ فلم بھی پیسہ وصول ہے لیکن اگر آپ کو یہ لگتا ہے کہ ’قائدِاعظم زندہ باد‘ اور ’لندن نہیں جاؤں گا‘ جیسی فلمیں پاکستانی فلمی صنعت کو دوبارہ سے اپنے پاؤں پر کھڑا کردیں گی، تو یہ آپ کی غلط فہمی ہے۔
تبصرے (4) بند ہیں