• KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm
  • KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm

لاہور ہائیکورٹ نے صحافی عمران ریاض خان کی ضمانت منظورکرلی

شائع July 9, 2022
لاہور پولیس صحافی عمران ریاض خان کو عدالت لے کر جارہی ہے— فوٹو : ڈان نیوز
لاہور پولیس صحافی عمران ریاض خان کو عدالت لے کر جارہی ہے— فوٹو : ڈان نیوز

لاہور ہائی کورٹ نے صحافی عمران ریاض خان کی گرفتاری کے خلاف دائر درخواست پر ضمانت منظور کر لی، پٹیشن میں تمام 18 مقمدمات کو یکجا کرنے یا مقدمات ختم کرنے کی درخواست کی گئی تھی۔

جسٹس علی باقر نجفی نے درخواست کی سماعت کی، جو عمران ریاض خان کے وکلا شاہزیب مسعود، میاں علی اشفاق، رانا عبدالمعروف خان اور میاں اظہار احمد کی جانب سے دائر کی گئی۔

پٹیشن جس کی کاپی ڈان ڈاٹ کام پر موجود ہے، میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ ایک الزام میں ایک ہی ایف آئی آر درج ہو سکتی ہے، عمران ریاض خان کو الگ الگ مقدمے میں گرفتار کرنا غیر قانونی ہے۔

درخواست میں مزید استدعا کی گئی کہ عمران ریاض خان کو لاہور ہائیکورٹ میں پیش کیا جائے اور لاہور ہائیکورٹ عمران ریاض خان کو رہا کرنے کا حکم دے۔

مزید پڑھیں: صحافی عمران ریاض کو دوبارہ آج ہی اٹک کی عدالت میں پیش کرنے کا حکم

درخواست میں پنجاب حکومت اور پنجاب کے انسپکٹر جنرل آف پولیس (آئی جی) کو مدعا علیہ نامزد کیا گیا تھا۔

عمران ریاض خان کو غداری کے متعدد مقدمات کا سامنا ہے، جنہیں منگل کی رات کو اٹک پولیس نے اسلام آباد کے قریب سے گرفتار کیا تھا، بعد ازاں انہیں جمعرات کو مقامی عدالت سے ریلیف ملا، تاہم انہیں فوری طور پر چکوال پولیس کی ٹیم نے احاطہ عدالت سے گرفتار کر لیا تھا۔

بعدازاں انہیں لاہور منتقل کرنے سے قبل ضلع چکوال کی مقامی عدالت نے جوڈیشل ریمانڈ کی اجازت دی تھی۔

عمران ریاض خان کے خلاف منظر عام پر آنے والی تازہ ترین ایف آئی آر میں شکایت کنندہ نے الزام لگایا تھا کہ وہ انٹرنیٹ براؤز کر رہے تھے جب اس نے صحافی کا ایک ویڈیو کلپ دیکھا جس میں پاکستانی فوج پر تنقید کی گئی، محمد آصف نے الزام لگایا کہ عمران ریاض نے فوج پر انسانی حقوق کی خلاف ورزی اور سیاست میں ملوث ہو کر ریاست کو نقصان پہنچانے کا الزام لگایا تھا۔

شکایت کنندہ نے الزام لگایا کہ عمران ریاض نے کہا تھا کہ فوج نے پاکستان کی سالمیت کو داؤ پر لگا دیا ہے، صحافی نے فوج کے افسران اور دیگر اہلکاروں کو اکسانے کا جرم کیا۔

یہ بھی پڑھیں: لاہور ہائیکورٹ: صحافی عمران ریاض خان کے خلاف درج مقدمات کا مکمل ریکارڈ طلب

آج صبح پولیس نے عمران ریاض عمران ریاض کے خلاف تھانہ سول لائن کے مقدمے میں پیش کیا تھا، مجسٹریٹ نے مقدمہ خارج کر دیا تھا جس کے بعد عمران ریاض خان کو لاہور ہائی کورٹ لے جایا گیا۔

مقدمے کی سماعت

عمران ریاض خان کے وکلا نے عام تعطیل والے دن کیس کی سماعت کرنے پر لاہور ہائی کورٹ کا شکریہ ادا کیا۔

جسٹس علی باقر نجفی نے ریمارکس دیے کہ یہ ہمارا فرض ہے. ہم نے آئین کا تحفظ کرنا ہوتا ہے۔

عمران ریاض خان کے وکلا نے عدالت کو بتایا کہ جب ایف آئی آر درج ہوئیں تو اگلے دن عمران ریاض عدالت میں تھے لیکن انہیں اسلام آباد ٹول پلازہ سے گرفتار کر لیا گیا۔

درخواست گزار کے وکیل نے دعویٰ کیا کہ جن ایف آئی آرز میں انہیں گرفتار کیا گیا، اس کا ریکارڈ پولیس نے لاہورہائیکورٹ سے چھپایا۔

مزید پڑھیں: صحافی عمران ریاض خان کی لاہور میں درج مقدمے میں بھی گرفتاری

ان کا کہنا تھا کہ پولیس عمران ریاض خان کو پکڑنا چاہتی تھی، اس لیے عدالت کو ان ایف آئی آرز کے بارے میں نہیں بتایا گیا۔

درخواست گزار کے وکیل نے دلائل دیے کہ اختلافی آوازوں پر صحافیوں کی آواز کو موجودہ حکومت دبا رہی ہے، پی ٹی آئی کے رہنماؤں نے متعدد مواقعوں پر صحافی کا نام لے کر تعریف کی۔

عمران ریاض خان کے وکیل میاں علی اشفاق ایڈووکیٹ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ایک ہی الزام پر متعدد مقدمات درج نہیں ہو سکتے، عمران ریاض کی بات نیک نیتی کے زمرے میں آتی ہے، نیک نیتی سے کی ہوئی بات جرم نہیں ہوتی۔

ان کا کہنا تھا کہ عمران ریاض خان نے فوج کے خلاف کچھ بھی نہیں کہا۔

میاں علی اشفاق ایڈووکیٹ نے کہا کہ درخواست گزار کے خلاف مقدمات کا اندارج صرف انتقامی کارروائی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: عمران ریاض کی گرفتاری پر سینیٹ کمیٹیوں کا نوٹس، رپورٹ طلب

عدالت نے وکیل سے استفسار کیا کہ دفعہ 505 کی سزا کتنی ہے؟ جس پر میاں علی اشفاق نے کہا کہ 7 سال کی سزا ہے۔

جسٹس علی باقر نجفی نے ریمارکس دیے کہ ‏ہم سب آئین اور قانون کے پابند ہیں۔

درخواست گزار کے وکیل میاں علی اشفاق نے دوبارہ کہا کہ اینکر عمران ریاض نے فوج کے کسی نمائندے کے خلاف بیان نہیں دیا، جس پر جسٹس علی باقر نجفی نے استفسار کیا کہ ‏سول لائنز گوجرانوالہ کی ایف آئی آر کے مندرجات پڑھ کر سنائیں۔

وکیل نے بتایا کہ تمام مقدمات میں 95 سے 98 فیصد مندرجات بالکل ایک جیسے ہیں، انہوں نے مزید کہا کہ آٸین اظہار رائے کی اجازت دیتا ہے، کسی بھی شخص کے خلاف ایک ہی الزام میں متعدد مقدمات درج نہیں ہو سکتے۔

عمران ریاض خان کے وکیل کا کہنا تھا کہ جو شخص اپنی فورسز کو بدنام کرے یا ملک میں انتشار پھیلائے وہ جرم ہے، لیکن کوئی شخص نیک نیتی سے کسی ٹھیک خبر کو سامنے لائے تو وہ جرم نہیں ہے۔

مزید پڑھیں: صحافی عمران ریاض خان ‘بغاوت’ کے مقدمے میں گرفتار

انہوں نے ایک بار پھر کہا کہ ‏ہم نے اپنی فورسز کے خلاف کبھی کچھ نہیں بولا، جتنے بھی مقدمات درج ہوئے کسی ایک میں بھی کوئی شواہد موجود نہیں ہے۔

میاں علی اشفاق نے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ پولیس کو ایسی ایف آئی آر درج کرنے کا اختیار نہیں ہے، یہ کیس ایف آئی اے کر سکتی ہے.

ان کا کہنا تھا کہ ایف آئی آر میں جو الزام لگایا گیا ہے وہ بیان کبھی عمران ریاض نے نہیں دیا، ایف آئی آر میں کہا ہے کہ اس بیان کو لائک کرنے والے بھی شریک جرم ہیں، عمران ریاض کے بیان کو 20 لاکھ لوگوں نے لائیک کیا تھا۔

جسٹس علی باقر نجفی نے ریمارکس دیے کہ عمران ریاض پر زمہ داری عائد ہوتی ہے کیونکہ ان کی بات کو لوگ دیکھتے ہیں.

یہ بھی پڑھیں: چکوال کے بعد عمران ریاض خان سی آئی اے کی تحویل میں

جس کے بعد عدالت نے سماعت آدھے گھنٹے کے لیے ملتوی کرتے ہوئے ایڈوکیٹ جنرل پنجاب کو فوری طلب کر لیا۔

سماعت بحال ہونے پرایڈووکیٹ جنرل پنجاب شہزاد شوکت نے کہا کہ اس فائل کو دیکھا ہے، اس پر تفصیلی جواب کی ضرورت ہے۔

ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے کہا کہ کل عید ہے اگر یہ مجسٹریٹ کے سامنے پہلے ورکنگ ڈے پر پیش ہونے کی گارنٹی دیں تو عمران ریاض کو ضمانت پر رہا کر دیا جائے تو ہمیں عمران ریاض کی ضمانت پر کوئی اعتراض نہیں ہو گا۔

جسٹس علی باقر نجفی نے احکامات جاری کیے کہ عمران ریاض کو ابھی عدالت میں پیش کریں ، سماعت سوا پانچ بجے دوبارہ کریں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ عمران ریاض عدالت میں آکر مجسٹریٹ کے سامنے خود بیان حلفی دیں کہ وہ آئندہ پیشی تک متنازع بات نہیں کریں گے۔

عمران ریاض خان کو جسٹس علی باقر نجفی کی عدالت میں پیش کر دیا گیا، جسٹس علی باقر نجفی نے کہا کہ آپ کے وکیل نے یقین دہانی کرائی ہے کہ آپ ایسا کوئی بیان نہیں دیں گے جس سے معاملات خراب ہوں۔

یہ بھی پڑھیں: ایف آئی اے کی ریاستی اداروں کے خلاف آن لائن مہم چلانے والوں کےخلاف کارروائی، 8 افراد گرفتار

عمران ریاض خان نے کہا کہ میں بھی عدالت کو یقین دہانی کراتا ہوں، میں کوئی بیان نہیں دوں گا، جس کے بعد جسٹس علی باقر نجفی نے عمران ریاض کی چکوال کے مقدمے میں ذاتی مچلکوں پر ضمانت منظور کر لی اور کیس کی سماعت 19 جولائی تک ملتوی کردی۔

جسٹس علی باقر نے یہ بھی ریمارکس دیے کہ ہمیں متنازع نہ بنائیں، آپ ہفتے کو عدالت لگانا معیوب سمجھتے ہیں، ہفتے کو عدالت لگانا اتنا معیوب نہیں ہے۔

عمران ریاض کی گرفتاری

صحافی عمران ریاض خان کو منگل اور بدھ کی درمیانی شب اسلام آباد جاتے ہوئے اٹک میں درج بغاوت کے مقدمے میں گرفتار کر لیا گیا تھا۔

عمران ریاض خان کے وکیل میاں علی اشفاق بتایا تھا کہ عمران ریاض خان کے خلاف پنجاب بھر میں 17 بغاوت کے مقدمات درج کیے گئے ہیں۔

وکیل نے دعویٰ کیا تھا کہ ان کے مؤکل کو اسلام آباد کی حدود سے گرفتار کیا گیا جو ہائی کورٹ کے حکم کی خلاف ورزی ہے، اس کے خلاف توہین عدالت کی درخواست دائر کر رہے ہیں۔

مزید پڑھیں: فوج، عدلیہ کے خلاف ‘نفرت انگیز’ مواد نشر کرنے پر ٹی وی چینلز کو تنبیہ

بعد ازاں رات گئے اسلام آباد ہائی کورٹ نے عمران ریاض خان کی گرفتاری پر دائر توہین عدالت کی درخواست پر آئی جی اسلام آباد کی جانب سے مجاز افسر کو صبح 10 بجے طلب کر لیا تھا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے درخواست نمٹاتے ہوئے کہا تھا کہ ہر عدالت کا اپنا دائرہ اختیار ہے، لاہور ہائی کورٹ اس معاملے کو دیکھ سکتی ہے، عمران ریاض خان کی گرفتاری اٹک میں ہوئی جو اس عدالت کا دائرہ اختیار نہیں بنتا، یہ کورٹ پنجاب کی تفتیش نہیں کر سکتی۔

پولیس نے عمران ریاض کو اٹک کی مقامی عدالت میں پیش کیا گیا جہاں جج نے کہا کہ پیکا دفعات ہیں، ایف آئی آر میں کیس کیسے سن سکتا ہوں اور انہیں راولپنڈی جوڈیشل کمپلیکس کے اسپیشل مجسٹریٹ پرویز خان کی عدالت میں پیش کیا گیا جہاں جج نے عمران ریاض کو دوبارہ آج ہی اٹک کی مقامی عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا۔

اسپیشل مجسٹریٹ پرویز خان نے ریمارکس دیے کہ یہ کیس میری عدالت میں نہیں بنتا، میں ایف آئی اے کا جج ہوں اور حکم دیا کہ اور ایف آئی اے کی دفعات ختم کی جائیں۔

عدالت نے محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے ایف آئی اے کی دفعات بھی ختم کرنے کا حکم دیا۔

اٹک کی مقامی عدالت کے جج تنویر نے رات 3 بجے محفوظ کیا اور صبح 4 بجے کے قریب سنایا اور عمران ریاض کی فوری رہائی کا حکم دیا تھا جبکہ وکلا کا کہنا تھا کہ اتنی صبح فیصلے کا اعلان اٹک کی عدالتی تاریخ کا پہلا فیصلہ ہے۔

فیصلے میں کہا گیا تھا کہ اس وقت موجودہ کیس میں ثبوت ناکافی ہیں جو ملزم عمران ریاض کو مجرم ثابت کرسکیں، جیسا کہ کرائم رپورٹ میں درج ہے، اس لیے ملزم عمران ریاض خان کو کیس سے بری کیا جاتا ہے۔

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024