'ٹوئٹر پر روزانہ 10 لاکھ سے زائد اسپیم اکاؤنٹس حذف کیے جاتے ہیں'
ٹوئٹر حکام نے بتایا ہے کہ مائیکرو بلاگنگ ویب سائٹ سے روزانہ 10 لاکھ سے زائد اسپیم اکاؤنٹس حذف کیے جاتے ہیں۔
خبررساں ادارے 'رائٹرز' کی رپورٹ کے مطابق ٹوئٹر حکام نے ایک بریفنگ میں صحافیوں کو اسپیم اور بوٹ اکاؤنٹس کی تعداد کم کرنے کے حوالے سے تفصیلات سے آگاہ کیا۔
یہ بریفنگ ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب ایلون مسک نے سوشل میڈیا کمپنی سے جعلی اکاؤنٹس سے متعلق مزید تفصیلات فراہم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
ایلون مسک نے ٹوئٹر کی خریداری کے لیے 44 ارب ڈالر کے معاہدے کو اس وقت تک مؤخر کرنے کی دھمکی دی تھی جب تک کمپنی اس بات کا ثبوت نہیں دکھاتی کہ اسپیم اور بوٹ اکاؤنٹس کی تعداد 5 فیصد سے کم ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ٹوئٹر کی خریداری کا معاہدہ ڈیڈ لاک کا شکار ہے، ایلون مسک
قبل ازیں ایلون مسک نے ایک ٹوئٹ میں کہا تھا کہ 'ٹوئٹر خریدنے کے بعد ان کی اولین ترجیحات میں سے ایک اسپیم اور بوٹ اکاؤنٹس کو شکست دینا یا اس کے لیے حد درجے ممکن کوشش کرنا ہے۔
ایک کانفرنس کال میں کمپنی نے اس بات پر زور دیا کہ ٹوئٹر پر اسپیم اکاؤنٹس کی تعداد 5 فیصد سے کم ہے۔
سال 2013 سے ٹوئٹر کی جانب سے مسلسل ان ہی اعداد و شمار کا اعادہ کیا جاتا رہا ہے۔
ٹوئٹر کی جانب سے کہا گیا ہے کہ کسی تکنیکی مدد کے بغیر ہزاروں ٹوئٹر اکاؤنٹس کا بے ترتیب جائزہ لے کر پبلک اورپرائیوٹ ڈیٹا کے امتزاج سے ٹوئٹر پر موجود اسپیم اور بوٹ اکاؤنٹس کے تناسب کا اندازہ لگا کر شیئر ہولڈرز کو رپورٹ کردیا جاتا ہے۔
مزید پڑھیں: ایلون مسک کا ٹوئٹر کے سرکاری، کمرشل صارفین پر فیس لگانے کا عندیہ
واضح رہے کہ گزشتہ ماہ ایلون مسک نے کہا تھا کہ ان کی جانب سے ٹوئٹر کو 44 ارب ڈالر کے عوض خریدنے کا اقدام سوشل میڈیا نیٹ ورک پر موجود جعلی اکاؤنٹس کی تعداد کے بارے میں ’انتہائی اہم‘ سوالات کے سبب تعطل کا شکار ہے۔
قطر اکنامک فورم میں ویڈیو لنک کے ذریعے بات کرتے ہوئے ایلون مسک نے کہا تھا ’کچھ حل طلب معاملات تاحال باقی ہیں، اس میں ان کی جانب سے یہ دعویٰ بھی شامل ہے کہ ٹوئٹر پر جعلی اور اسپیم اکاؤنٹس کی تعداد 5 فیصد سے کم ہے جبکہ میرے خیال میں ٹوئٹر استعمال کرنے والے بیشتر افراد کا تجربہ اس سے مختلف ہے‘۔
ایلون مسک نے کہا تھا کہ ٹوئٹر کے قرض کے بارے میں بھی سوالات ہیں اور یہ سوال بھی موجود ہے کہ کیا شیئر ہولڈرز اس معاہدے کی حمایت کریں گے؟
انہوں نے کہا تھا کہ ’لہذا میرے خیال میں معاہدے کو منطقی انجام تک پہنچانے کے لیے یہ 3 مسائل درپیش ہیں جن کو حل کرنے کی ضرورت ہے‘۔